تحریر: علی عبداللہ اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو تقریباً 12 سال سے اسرائیل کے وزیر اعظم ہیں اور اس دوران انہوں نے کئی ممالک کے دورے کیے جن میں واشنگٹن سڈنی ماسکو نیروبی سمیت کئی دیگر ممالک شامل ہیں ـ لیکن ہندوستان کے دورے پر مودی سرکار کی گرمجوشی اور آؤبھگت نے اسرائیلی وزیر اعظم کا دل موہ لیا ہے ـ اس کی وجہ نہ تو 350 کمروں پر مشتمل راشٹراپتی بھون یعنی صدارتی رہائش گاہ ہے اور نہ ہی وہ گھڑسوار ہیں جو لال کوٹ، کالی پگڑی اور تلوار تھامے نتن یاہو کے استقبال کے لیے موجود تھے ـ نتن یاہو کے لیے نہ تو اسرائیل اور ہندوستانی ترانے متاثرکن تھے اور نہ ہی ملٹری گارڈز بلکہ ان کے مطابق یہ 1.3 بلین عوام کی جانب سے صرف 5.8 ملین آبادی رکھنے والے ملک کے لیڈر کو دی جانے والی عزت تھی جس نے ان کا دل موہ لیا ـ نتن یاہو کے مطابق 75 سال پہلے کچل دی جانے والی قوم کے لیڈر کو دی جانے والی عزت اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیلی اب دوبارہ دنیا کے سٹیج پر آ چکے ہیں ـ یاد رہے مودی نے جولائی 2017 میں اسرائیل کا دورہ کیا تھا لیکن انہوں نے فلسطین حکام سے ملاقات نہیں کی تھی جو اسرائیل ہندوستان کی قربت کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوئی ـ
وفاعی معاہدات اور اسلحہ کی فراہمی فارن پالیسی کے لیے ہمیشہ سے سونے کی کان رہی ہے لیکن ہندوستان کی جانب سے یروشلم معاملے پر اسرائیل کا ساتھ نا دینے کے باوجود نتن یاہو کا یہ دورہ ہندوستان کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے ۔فلسطینی معاملے کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر بڑھتی ہوئی اسرائیلی تنہائی نتن یاہو کو نئے ساتھیوں کی تلاش پر اکسا رہی ہے ۔ اس سلسلے میں صرف ہندوستان ہی نہیں اسرائیل افریقی ممالک سے بھی تجارتی روابط بڑھا کر اپنی ساکھ مضبوط کرنے کی کوششوں میں ہے ۔ لیکن نتن یاہو کا دورہ ہندوستان اس لیے بھی اہم ہے کہ ہندوستان اسلحے کے جنون میں مبتلا ہے اور اسرائیلی اسلحہ صنعت کے لیے ہندوستان ا یک بہترین مارکیٹ ہے ۔ہندوستان سالانہ ایک بلین ڈالر فوجی سازوسامان پر خرچ کر رہا ہے جبکہ مودی کے دورہ اسرائیل پر دونوں ممالک کے مابین دو بلین ڈالر کے معاہدات ہوئے تھے۔ اسرائیل کی جانب سے ہندوستان کو اسلحہ کی فراہمی مودی سرکار سے شروع نہیں ہوئی بلکہ ماضی میں بھی ہندوستان اسرائیل سے فوجی امداد لیتا رہا ہے ۔
1962 میں بھارت چین جنگ کے دوران اسرائیلی وزیراعظم بن گوریان نے نہرو کو مدد کی پیشکش کی جسے نہرو نے قبول کیا اور اسطرح سرائیل نے بھارت کو اسلحہ فراہم کرنے کا آغاز کیا ـ جولائی 1971 میں پاکستان سے جنگ کی تیاریوں کے دوران اسرائیل نے بھارت کو خفیہ طور پر اسلحہ فراہم کیا جو یقینا پاک بھارت جنگ میں استعمال ہوا ہو گا ـ اسی طرح 1999 کی کارگل جنگ میں بھارت کو اسرائیل کی جانب سے لیزر گائیڈڈ میزائل بھی فراہم کیے گئے تھے ـ ہندوستانی پارلیمانی کمیٹی برائے دفاعی امور کے مطابق ہندوستان کی بڑے پیمانے پر اسلحہ امپورٹ کرنے کی ایک اہم ترین وجہ یہ ہے کہ 40 فیصد ہندوستانی ہتھیار ناکارہ اور ناقابل استعمال ہو چکے ہیں اور پاکستان چین کے بڑھتے ہوئے فوجی تعاون کی وجہ سے اسلحے کی دوڑ ہندوستان کی اشد ضرورت بن چکی ہے ـ امریکہ، روس اور فرانس کے بعد اسرائیل بھارت کو اسلحہ فراہم کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے ـ ہندوستانی سرکار 2014 سے 2022 تک 620 بلین ڈالر کے ہتھیار خریدنے کی خواہشمند ہے اور اسے پورا کرنے کے لیے اسرائیل ایک بہترین حلیف ثابت ہو رہا ہے ۔
ایک جانب بھارت کے ایران سے چاہ بہار بندرگاہ کی وجہ سے بہترین تعلقات ہیں تو دوسری جانب بھارت عرب ممالک سے بھی بہترین تعلقات کا خواہاں ہے ـ سعودی عرب بھارت کا چوتھا بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور پچھلے دو سال میں بھارت کی عرب ممالک سے تجارت 121 بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے جبکہ اسرائیل کے ساتھ بھارت کی دو طرفہ تجارت 5 بلین ڈالر سے بھی کم ہے ـ اسی طرح اسرائیل بھارت کے ساتھ ساتھ چین سے بھی بہترین تعلقات رکھے ہوئے ہے جو کہ ایشیا میں اسرائیل کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے لیکن پاکستان کا قریب ترین حلیف ہونے کے ناطے یہ بھارت کی نظر میں کھٹکتا ہے ۔ تل ابیب کے ایک تجزیہ کار کے مطابق نتن یاہو کا بھارت سے دفاعی، ٹیکنالوجی، زراعت اور سائبر سیکورٹی کے معاہدات کا مقصد صرف پیسے کا حصول ہے ـ اسرائیلی اسلحہ ساز نئے خریداروں کو تاک رہے ہیں اور بھارت اسوقت ایک بہترین مارکیٹ ہے ـ انہیں اس سے غرض نہیں کہ پاکستان کیا کہتا ہے یا کشمیر کا مسئلہ کیا رخ اختیار کرے گا وہ بس اسلحہ فروخت کرنے کے لیے بیتاب ہیں ـ یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر یروشلم معاملہ دوبارہ سر اٹھاتا ہے تو کیا ہندوستان اسرائیل کے حق میں ووٹ دے گا؟لیکن نتن یاہو کے مطابق بھارت کا اسرائیل کے خلا ف جنرل اسمبلی میں ووٹ دینا تجارتی و دفاعی معاہدات پر اثر انداز نہیں ہو گا ۔ بھارت اور اسرائیل کے درمیان اس دورہ میں آئل اینڈ گیس اور سائیبر سیکورٹی سمیت نو مختلف سمجھوتے ہو چکے ہیں۔
بھارت کا جنگی جنون عروج پر ہے اور یہ پاکستان اور دیگر ہمسائے ممالک کے لیے تشویش کا باعث بن رہا ہے ۔ پاکستان کو اب پرانے حلیفوں پر اکتفا کرنے کی بجائے خطے سے باہر بھی نئی آپشنز پر غور کرنا ہو گا تاکہ پاکستان عالمی سطح پر اپنا اہم تشخص برقرار رکھ سکے اور نئے معاہدات کی مد میں ملکی معیشت کو مضبوطی کی راہ پر گامزن کر سکے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنے فوجی سازو سامان کی خریداری ہندوستان کو کیا مستقبل دے گی جہاں آج بھی لوگ غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں ۔ جہاں بنیادی سہولیات کا فقدان اوربے شمار لوگوں کو چھت بھی میسر نہیں ہے ۔ نجانے مودی سرکار ہمسائے ممالک کو ان اقدامات سے کیا پیغام دینا چاہتی ہے ۔ہندوستان کے لیے اب بہتر ہے کہ وہ جنگی جنون میں مبتلا ہونے کی بجائے اپنا بجٹ عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کرے تاکہ خطے میں امن کا قیام ممکن ہو سکے اور ساتھ ہی ساتھ ہندوستانی عوام کو بنیادی سہولیات بھی فراہم ہو سکیں حیرت اس بات کی ہے کہ اتنے وسیع پیمانے پر۔ ۔ ۔ ۔