تحریر : پروفیسر رفعت مظہر حصولِ پاکستان کا مقصد تو زمیں کے اِس ٹکڑے پر رَبّ ِ کائینات کی حاکمیتِ اعلیٰ کا قیام تھالیکن وہ مقصد تو ماضی کے اوراق میں کہیں گُم ہوگیا۔ اب تو شاید نسلِ نَو کو یہ علم بھی نہ ہو کہ قائدِاعظم نے پاکستان کو ”اسلام کی تجربہ گاہ” قرار دیا تھا لیکن نام نہاد مسلمانوں کی حالت یہ کہ مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے مَن اپنا پرانا پاپی ہے ، برسوں میں نمازی بن نہ سکا
پاکستان تو معرضِ وجود میں آگیا، اِسے ”اسلامی جمہوریہ” بھی قرار دے دیا گیا لیکن دینِ مبیں غائب اور باقی بچے صرف دیندار۔ اب پاکستان میں بریلوی، دیوبندی، شیعہ، اہلِ حدیث، اسماعیلی، پرویزی اور پتہ نہیں کون کون سا ملغوبہ موجود مگر دین لاموجود۔ آمروں اور سیاستدانوں نے جو تباہی پھیلائی سو پھیلائی ”مولوی” تو ساری حدیں ہی پھلانگ گئے۔ ایک دوسرے کا گلا کاٹنے اور کفر کے فتوے لگانے سے لے کر سیاست کو ”ٹھونگے” مارنے تک مولوی ہی جابجا۔ طالبان، جو کبھی اِن کی نظر میں ”جہادی” تھے، اب دہشت گرد قرار دیئے جا چکے۔ حقیقت مگر یہی کہ اب بھی اِن کے مدرسوں کی نرسریوں میں دہشت گردی کی پنیری پَل بڑھ رہی ہے۔ وہ طالبان نہ سہی شیعہ، سُنّی تو بن ہی رہے ہیں۔ طالبان نامی دہشت گرد قابلِ نفرت اور واجب القتل لیکن کیا شیعہ کافر، سُنّی کافر کہہ کر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے والے دہشت گرد نہیں؟۔ کیا دھرنے دے کر ملکی سالمیت کو داؤ پر لگانے والے دہشت گرد نہیں؟۔ کیا جلاؤگھیراؤ اور مارو مَرجاؤ کے نعرے لگانے والے دہشت گردنہیں ؟۔ کیا لاشوں پر اور لاشوں کے لیے سیاست کرنے والے دہشت گرد نہیں؟۔ کیا یہ دہشت گرد ی نہیں کہ ایک غیرملکی ہر سال پاکستان میں آکر نظامِ حکومت دَرہم برہم کر دے؟۔
آج (17 جنوری، جب ہم یہ کالم سپردِ قلم کر رہے ہیں) حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے ہیں۔ غیرملکی مولانا طاہر القادری نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی آڑ میںاحتجاج کی کال دے رکھی تھی ۔ حیرت ہے کہ تحریکِ انصاف اور پیپلزپارٹی مولانا کے دست و بازو۔ ۔۔۔۔ہم نے یہ تو سُن رکھا تھا کہ سیاست کے سینے میں دِل نہیں ہوتا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ غیرت بھی نہیں ہوتی۔ مولانا کے ”فرمان” کے مطابق عمران خاں اور آصف زرداری ایک ہی جگہ اور ایک ہی سٹیج پر خطاب کریں گے۔ عمران خاں اور طاہرالقادری تو خیر ”سیاسی کزنز” ہیں اور 2014ء کو ڈی چوک اسلام آباد میں اکٹھے دھرنا بھی دے چکے ہیں، مگر آصف زرداری؟۔۔۔۔۔ جب اسی سانحہ ماڈل ٹاؤن کا بہانہ بنا کرلگ بھگ ساڑھے تین سال پہلے مولانا طاہرالقادری ڈی چوک اسلام آباد پہنچے، تب پیپلزپارٹی نوازلیگ کے ساتھ ڈَٹ کر کھڑی ہوئی تھی اور ساری اپوزیشن جماعتوں نے نوازلیگ کے کندھے سے کندھا ملا کر حکومت گرانے کی کوشش کو ناکام کیا۔ حیرت ہے کہ آج سانحہ ماڈل ٹاؤن تو وہی ہے لیکن اپوزیشن جماعتیں طاہرالقادری کے کنٹینر پر۔ یہ کایا کلپ کیسے ہوئی اور کیوں ہوئی؟،اِس کا جواب آنے والا مورخ دے گا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ آصف زرداری میاں نوازشریف سے اپنا بدلہ چکا رہے ہیں۔قارئین کو یاد ہو گا کہ آصف زرداری نے ایک جلسے میںاسٹیبلشمنٹ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا اعلان کیا ۔ اُس اعلان کے اگلے ہی دِن میاں نوازشریف کی اُن سے ملاقات طے تھی جسے میاں صاحب نے منسوخ کر دیا ۔ زرداری صاحب کو ملک سے فرار ہونا پڑا۔ اب وہ یہی بدلہ چکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ طاہرالقادری کا سٹیج استعمال کرنے کی دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عام انتخابات قریب تر ہیں اور پیپلزپارٹی کو سوائے دیہی سندھ کے کہیں بھی پذیرائی نہیں مل رہی ۔ اِس لیے زرداری صاحب پیپلزپارٹی میں نئی روح پھونکنے کے لیے تگ ودَو کر رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں اُن کی یہ تَگ ودَو بیکار ہی جائے گی کیونکہ قوم کا حافظہ اتنا بھی کمزور نہیں کہ وہ اتنی جلدی پیپلزپارٹی کے ”کرتوت” بھول جائے۔ قوم کو یقیناََ یہ بھی یاد ہوگا کہ ماضی قریب میں مولانا طاہرالقادری بھی پیپلزپارٹی کی قیادت کے خلاف آگ اُگلتے رہے ہیںلیکن آج باہم شیر وشکر۔ ہمیں سب سے زیادہ حیرانی تو تحریکِ انصاف پر ہے جو پیپلزپارٹی کی بانہوں میں بانہیں ڈالے کھڑی ہے۔
عمران خاں پیپلزپارٹی پر ہمیشہ یہ الزام دھرتے رہے ہیں کہ وہ ”اندرکھاتے” نون لیگ سے ملی ہوئی ہے اور اصل میں دونوں ایک ہیں۔ اُنہوں نے جتنے الزام شریف برادران پر دھرے، اُس سے بھی زیادہ الزامات کا نشانہ آصف زرداری بنتے رہے۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب کپتان نے کہا تھا کہ اُنہیں ”مائینس آصف زرداری” پیپلزپارٹی قبول ہے جس پر اکابرینِ پیپلزپارٹی نے بہت واویلا کیا اور کپتان پر الزامات کی بارش کر دی۔ قوم جانتی ہے کہ نوازلیگ نے کپتان کے خلاف جو کچھ کہا ،اُس سے کہیں زیادہ الزامات کی پیپلزپارٹی نے لگائے لیکن آج دونوں ایک ہیں کیونکہ نشانہ ”شریفین” ہیں۔ کپتان سے سوال ہے کہ کیا آصف زرداری اب توبہ تائب کرکے ”پَوتر” ہوچکے؟۔ تحریکِ انصاف کے ترجمان فوادچودھری کے خیال میں آصف زرداری ”پَوتر” نہیں ہوئے، اِسی لیے تو دونوں الگ الگ سیشنز میں خطاب کریں گے۔ گویا ”صاف چھپتے بھی نہیں ،سامنے آتے بھی نہیں”۔
مولانا صاحب کی ”برکت” سے ایک دوسرے کو چور کہنے والے اکٹھے ہوگئے۔ فیصل چوک میں احتجاجی جلسے کی بدولت مال روڈ اور ملحقہ سڑکیں بند کر دی گئیں۔ پولیس کے علاوی رینجرز کو بھی طلب کر لیا گیا۔ ڈاکٹرز کی چھٹیاں منسوخ کرکے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی اور جلسہ گاہ کے اطراف و جوانب کے تعلیمی ادارے بند کر دیئے گئے۔ اب شہری سڑکوں پر خوار ، ٹریفک پولیس اوازار اور مولانا احتجاج کے لیے تیار۔ میاں نوازشریف نے احتساب عدالت میں پیشی کے بعد صحافیوں سے سوال کیا ” جب الیکشن میں پانچ ماہ باقی ہیں تو مولوی صاحب اِس وقت کینیڈا سے کیوں آئے؟۔ تحریک کے مقاصد دیکھیں تو کئی سوالات کے جواب مل جائیں گے”۔۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ مولوی صاحب کا ایجنڈا افراتفری ہے اور وہ اُسی وقت ہی تشریف لاتے ہیں جب اُن کے خیال میں افراتفری کے لیے میدان ہموار ہوتا ہے۔
اِس کے باوجود ہمیں یقین ہے کہ مولانا صاحب ”دَیت” کی اگلی قسط وصول کرنے کے بعد اپنے وطن ”پھُر” ہو جائیں گے۔ وہ 2014ء میں اپنے ”مَوزے” تک بھی لے آئے تھے اور اعلان کیا تھا کہ اب کبھی واپس نہیں جائیں گے لیکن پھر ایک ماہ بعد ہی دھرنا درمیان میں ہی چھوڑ کر ”اُڑن چھو” ہو گئے۔ مولانا خوب جانتے ہیں کہ انتخابی سیاست میں اُن کا کوئی حصّہ نہیں، اِسی لیے وہ غیرملکی ایجنڈے کے تحت ”ایک پنتھ دو کاج” کے مصداق افراتفری پھیلاکر اپنے غیرملکی آقاؤں کو خوش بھی کر دیتے ہیں اور لگے ہاتھوں دَیت وصولی بھی کر جاتے ہیں۔ مولانا فرماتے ہیں ”اب سلطنت ِ شریفیہ نہیں بچے گی، ہم استعفے مانگ نہیں رہے لیکن اُنہیں دینے ہوں گے”۔۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ” سلطنتِ شریفیہ” نہ بچے لیکن پاکستان میں ”سلطنت ِ طاہریہ” کی بھی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ ”جَٹ دا پُتّر کَدی بادشاہ نئیں بن سکدا”۔