تحریر : مرزار ضوان شعلہ بیانی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے عین اسی طرح جیسے کوئی ”شرم” ہوتی ہے کوئی” حیا” ہوتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین اور بالخصوص جمہوری نظر میں سب سے ”سپریم ”ادارے ”پارلیمنٹ”میں عوامی طاقت ”ووٹ”کے بل بوتے پر ملک وقوم کے روشن مستقبل کی خدمات دینے والے ”محب وطن ”سیاسی لیڈروں کی گفتگو کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری سیاسی لیڈروں نے جس طرح کے انداز گفتگو اپنا لئے ہیں وہ ایک مہذب معاشرے کی ”تشکیل نو” کیلئے بہت موثر ثابت ہونگے۔پاکستان کو کن کن اندرونی و بیرونی چیلنجز سے نبرد آزما ہونا پڑ رہاہے ہمارے ”مہذب”لیڈروں کو اس سے کوئی سروکار نہیں ، وہ تو آجکل الیکشن 2018ء کے لئے سجے ”سیاسی دنگل”میں عوام ایک مرتبہ پھر ”بیوقوف ”بنانے کے لئے تیروتلوار سے لیس ہوکر اتر چکے ہیں اور اپنی ”زہرآلود”زبان درازی سے عوام کے زخم جو گذشتہ ساڑھے چار سالوں میں لگے ان پر مرہم رکھنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ان کے سارے جتن ان کی زبان سے اگلنے والے ”زہر”سے ثابت ہورہے ہیں کہ اقتدار حاصل کرنے کیلئے ان کو کسی بھی نتیجے پر پہنچنا پڑے تو یہ پہنچیں گے اور پہنچ بھی رہے ہیں ۔آپ نے یقینا اندازہ تو لگایا ہی ہوگا کہ یہ ہمارے ”محب وطن ”سیاسی لیڈر ہیں جن کے ہاتھ میں ہمارے ملک کی باگ ڈور ہے مگر زبان کیسی استعمال کرتے ہیں ایک دوسرے کو مخاطب کیسے کرتے ہیں ۔انکی زبان درازی اور اخلاق سے گری گفتگو میں کسی کو کوئی ”حب الوطنی ”نظر آئی ہو تو مجھے بھی آگاہ کیجئے گا۔
گذشتہ دنوں مال روڈ کے تاجروں کی ایک مرتبہ پھر شامت آئی اور اسمبلی ہال چوک میں اپوزیشن جماعتوں کے ”سرداروں”کا اکٹھ ہوا ، یوں اسکی کال سانحہ ماڈل کے ورثاء کو انصاف دلوانے کیلئے جناب طاہر القادری کی جانب سے دی گئی مگر انصاف دلوانے کی پاداش میں کل تک جو ”یزیدی لشکر ”میں شمار تھے وہ بھی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اسٹیج پر جھومتے نظر آئے ۔پھر جناب شیخ رشید نے جوش خطاب کی حد رفتار کراس کرتے ہوئے پارلیمنٹ پر ”لعنت”بھی بھیجی اور استعفیٰ بھی دیا ۔ساڑھے چار سال اسی پارلیمنٹ کا حصہ بن کر اور اپنا ”حصہ”لیکر آخر کا ر مزید ”حصہ ”لینے سے توبہ کرلی۔موجودہ اور گذشتہ دور حکومت میں ان کو سوائے اقتدار حاصل کرنے کے عوامی مسائل پر آواز بلند کرنے کیلئے شاید وقت ہی نہیں ملا ۔ایسے ایسے چہرے بھی دیکھنے کو ملے جو خود اپنی پارٹی ورکروں میں نہ تو انصاف کرسکے اور نہ ہی کبھی انہوں نے انصاف کا درس ہی دیا ۔یہاں تک کہ اپنے دور حکومت میں بھی عوام انصاف کے حصول کیلئے دربدر کی ٹھوکریں کھاتی رہی ۔زبان درازی اور غیر اخلاقی جوش خطاب اب تو ہمارے علماء اکرام کی بھی ”لونڈی ”بن چکی ہے ۔جس کے منہ جو آتا ہے کہہ ڈالتا ہے۔
ایسے لگتا ہے کہ ان سب کی ملی بھگت سے ہمیں آئندہ الیکشن کے بعد ایک ”نیا پاکستان”ملنے والا ہے ۔۔۔مال روڈ جلسے میں عوام کی عدم شرکت سے ہمارے سیاسی سردار خاصے مایوس بھی ہوئے اور پریشان بھی کہ آئندہ انتخابات میں ان کے ساتھ کیا ہوجائے کچھ بعید نہیں ۔یہاں تک کہ اسٹیج تو کھچا کھچ بھرا پڑا پر پنڈال کی ”زینت”شاید کسی” پارلر” میں بیٹھی اپنی تیاری میں مصروف رہی ۔اور یہ بھی ممکن کہ ”زینت ”کے نہ آنے پر شیخ صاحب نے ”میں لعنت بھیجتا ہوں ”کے الفاظ منہ سے نکالے اور اگر ”زینت”آجاتی تو عین ممکن ہے جوش خطابت کی حد رفتار کنٹرول میں رہتی ۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اپوزیشن جماعتیں سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے عدالت سے” نااہل ”ہونے پر بہت بڑا ”مجرم” قرار دیتی ہیں جبکہ اسی مال روڈ جلسے میں عدالت سے ”نااہل” ہونے والے ”جہانگیر خان ترین ” کو بھی” قادری صاحب”نے اسٹیج پر اپنے دائیں جانب جلوہ افروز ہونے کیلئے جگہ بخشی جبکہ بائیں جانب ”عمران خان”جلوہ نما تھے ۔جو بہت ہی ”مہذب ”اور ”اخلاقی ”جوش خطاب کے ماہر گردانے جاتے ہیں ، جن کی خطابت کو ہماری عوام کیسے بھول سکتی ہے اورجو چند ماہ بعد نئی شادی کی سرخیوں کی ”زینت ”بن جاتے ہیں ۔۔۔یقینا عائشہ گل لئی بھی” انصاف” کی خواہاں ہے ۔ محترم قارئین !اگرہمارے ان سیاسی لیڈروں نے نہ بدلنے کی قسم کھائی ہے تو کیوں نہ ہم کوشش کرکے خود کو ہی بدل لیں ۔چھوڑ دیں ان کو ان کے حال پر اور آئندہ الیکشن میں ان سے سرعام ”معافی ”مانگ کر” ووٹ” کا حق اپنے ضمیر کو دیں ۔ذاتی سیاسی وابستگیوں سے کچھ دن پرہیز کریں اور ذرا سوچیں کہ جنہوں نے ساڑھے چار سال ہماری طرف پلٹ کر نہ دیکھا ، ہمارے دکھوں کا مداوا نہ کیا اور نہ ہمیں ”لفٹ ”کروائی ۔ ”لفٹ”تو دور کی بات ”سلام ”لینا بھی مناسب نہ سمجھا اورالیکشن قریب آتے ہی آج ایک مرتبہ پھر وہ ہماری گلیوں اور بازاروں کی ”زینت ”بنے بیٹھے ہیں ، آج وہ آتے جاتے ہمیں سلام بھی کرتے ہیں اور حال احوال بھی پوچھتے ہیں ۔آج وہ ہمارے دکھ درد میں بڑھ چڑھ کر شریک بھی ہوتے ہیں اور ان پر مرہم بھی رکھتے ہیں ۔ہمیں اپنے ضمیر کو جھنجھوڑنا ہوگا ، سوچنا ہو گا اپنے روشن مستقبل کیلئے اپنے آنیوالی نسلوں کیلئے ایک” مستحکم پاکستان” کے خواب کو شرمندہ تعبیر بنانے کیلئے ۔ہمیں اب ان چور لٹیروں سے اپنی جان چھڑوانی ہوگی ۔ہمیں ان کا ساتھ دینے کی بجائے اپنا راستہ خود تلاش کرنا ہو گا ۔ہمیں اپنی منزل کی جانب خودی کے پائوں پر گامزن ہوتے ہوئے ان کے مختصر سہاروں کو ”خیر باد” کہنا ہو گا۔
ہمیں اب ”تھڑاسیاست”سے نکل روشن پاکستان کیلئے اپنی توانائیاں بروئے کار لانا ہوں گی ۔ان نام نہاد ”محب وطنوں ” کے نعرے لگانے اور ان کے پیچھے پیچھے اپنی ”ایڑھیاں”رگڑنے سے اجتناب کرتے ہوئے قومی خزانہ لوٹنے والوں کی نشاہدی کرنا ہوگی،ہمیں سپریم کورٹ اور نیب کے احتسابی عمل کے ساتھ ساتھ اپنے” ضمیر ”کو بھی احتساب کے کٹہرے میںکھڑا کرنا ہو گا۔کہیں ہم کسی ظالم سیاسی لیڈر کی حمایت تو نہیں کررہے کسی کرپٹ کے حق میں نعرے تو نہیں لگے اور ”ووٹ”جو ہماری طاقت کسی ایسے سیاسی لیڈر کو تو نہیں دے رہے جو ملک وقوم کیلئے ”بدنامی ”کا باعث ہو، ہمیں جاگنا ہو گا ہمیں پاکستانی عوام میں شعور اجاگر کرنا ہو کہ کل تک جو اپنی موٹر سائیکل تک خریدنے کے اہل نہیں تھے سیاسی میدان میں آتے ہی بڑی بڑی گاڑیوں پر کیسے بیٹھ گئے ۔ہمیں اپنا خون چوسنے والے نام نہاد خیرخواہوں سے خود بھی بچنا ہو گا اور اپنی اپنی آنیوالی نسلوں کو بھی بچانا ہو گا ۔کیونکہ ”پاکستان”ہے تو ہم ہیں ۔۔۔ان کا کیا ہے یہ سب تو پاکستانی عوام کا خون چوسنے کیلئے پاکستان میں رکتے ہیں بعدازاں لمبی اڑان اور پھر وہی جو آج تک اس پاکستان میں ہوتا آیا ہے۔
ضروری نہیں کہ جو پہلی سیاسی پارٹی چھوڑ کر” حصول انصاف” کا نعرہ لگانا شروع کردے تو پاک صاف ہوگیا ، اس نے گنگانہالی ، پارٹی ہی بدلی نا چہرے تو سوچ تو وہی رہی نا۔ہمیں اپنی ذات سے احتساب شروع کرنا ہو گا ، دیکھنا ہو گا کونسا سیاسی لیڈر کل تک قومی خزانے کی لوٹ مار میں شامل رہااور اس سسٹم کا حصہ رہ کر اپنا ”حصہ ”وصول کرتا رہا ۔ہمیں بدلنا ہو گا، عملی طورپر بدلنا ہوگا ۔اگر نہیں تو یقینا کل کو کوئی ایسا بھی ”محب وطن ”سیاسی لیڈر آئے گا جو کسی چوراہے میں جوش خطابت کی حد رفتار کراس کرتے ہوئے پاکستانی قوم کو مخاطب کرکے کہے گا کہ ”میں لعنت بھیجتا ہوں ”ایسی قوم پر جو بار بار انہی چور لیٹروں کو ”ووٹ ”دیکر اپنے سروں پر” مسلط ”کرتی رہی ۔دعا ہے اللہ رب العزت وطن عزیز پاکستان کو تاقیامت شاد و آباد رکھے اور ہمیں نیک و صالح حکمران نصیب فرمائے (آمین)