تحریر : عقیل خان پاکستان میں سیاسی بحران پیدا کرنے کی کوشش تو اس وقت سے شروع ہوگئی جب سے یہ حکومت اقتدار میں آئی ہے۔ نشیب و فراز سے گزرتے گزرتے یہ حکومت اپنے مدت پوری کرنے کے قریب پہنچ چکی ہے مگراسکے مخالفین ابھی تک چین سے نہیں بیٹھے۔ عمران خان اور طاہرالقادری نے دھرنے دے کر بھی حکومت کو مصیبت میں ڈالے رکھا مگر حکومت سے زیادہ مصیبت عوام پر رہی جن کی زندگی اجیرن کی۔بچوں کو سکول جانے اور ملازم پیشہ افراد کودفاتر جانے میں مشکلات پیش آتی رہیں۔
سیاستدانوں کی جنگ میں ہمیشہ نقصان عوام کا ہوا۔ دھرنے کی اس سیاست نے ملک کو کافی نقصان پہنچایا ہوا ہے۔ دھرنے کی یہ ریت سیاستدانوں سے نکل کر اب عام لوگوں تک پہنچ چکی ہے۔ کبھی کسان دھرنا دیکر روڈ بند کررہے ہیں تو کہیں فیکٹریوں میں تنخواہ نہ ملنے پر۔ کہیں لوڈشیڈنگ کے نام سڑکیں بند کی جارہی ہیں تو کہیں انصاف نہ ملنے پر ۔ اس دھرنے اور ٹریفک بلاک کرنے میںاب تک سیکنڑوں افراد ایمبولینس اور گاڑیوں میں دم توڑ گئے ہیں۔ بہت سے افراد اپنے پیاروں کے جنازے میں نہ پہنچ سکے۔ بہت سی بچیوں کی بارات بارہ سے چوبیس گھنٹے تک لیٹ ہوتی رہیں۔ کیا روڈ بند کرکے عوام کو پریشان کرنا ہمیں زیب دیتا ہے؟ اگر دھرنا دینا ہے تو پھر اس کے لیے روڈ کے بجائے ایک گراؤنڈ کو مخصوص کیا جائے تاکہ دھرنے دینے والوں کوبھی تنگی نہ ہو اور عوام بھی سکھ سے اپنی زندگی بسر کر سکے۔
حکومت مخالف انفرادی احتجاجی سلسلہ چلتے چلتے یہاں تک پہنچ گیاکہ وہ اپوزیشن جو کبھی آپس میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے تھے آج ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوگئے۔سانحہ ماڈل ٹاؤن پر عوامی تحریک نے لاہور میں احتجاجی جلسے کا پروگرام بنا یا جس کو پروان چڑھانے کے لیے تمام اپوزیشن جماعتوں نے ساتھ دینے کا وعدہ کیاتھا۔ آخر کار 17جنوری کو لاہور کے مال روڈ پر متحدہ اپوزیشن نے پاور شوکی۔اس جلسے میںعوامی تحریک، ق لیگ، سرزمین پارٹی، تحریک انصاف ،پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی۔ میڈیا کے مطابق متحدہ اپوزیشن اس جلسے سے وہ نتائج حاصل نہ کرسکی جس کی ان کو توقع تھی۔ جہاں کبھی ایک جلسے میں لاکھوں افراد جمع کرنے کے کادعویٰ کرتے تھے آج وہ سب ملکر بھی اتنے زیادہ افراد جمع نہیں کر سکے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام نے ان کال پر کان نہیں دھرے۔ ویسے بھی جلسے میں متحدہ اپوزیشن بھی بکھری ہوئی نظر آئی کیونکہ جولوگ ایک ساتھ اکٹھے سٹیج پر بیٹھ نہیں سکتے وہ ایک ساتھ چل کیسے سکتے ہیں؟ عوام اتنی ناسمجھ بھی نہیں کہ وہ ایسے لیڈرز کی باتوں پر کان دھرے ۔جو خود ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہوں وہ محبت کا درس کیا دیں گے؟
جلسہ شروع ہوا تو اس میں حسب روایت وہی پرانی رام کہانی سنائی گئیں جو بہت پہلے سے ہم سنتے آرہے ہیں اگر نئی بات سنی تو وہ صرف شیخ صاحب کی تھی جو پہلے کبھی نہیں سنی گئی۔بقول شخ صاحب ” جب نوازشریف پیدا ہوا تو نجومی نے میاں شریف کا ہاتھ دیکھ کر کہا کہ تیرے گھر جھوٹا اور مکاربیٹا پیداہوگا، یہ جس دن سچ بولے گا وہ آخری سال ہو گا۔ یہ مال لگا کر سیاست کرتے ہیں، یہ پیسہ پھینکتے ہیں اور تماشا دیکھتے ہیں۔ انہوں نے اکانومی میگزین سے خبر لگوائی کہ نواز شریف مقبول لیڈر ہیں۔میں وزیر اطلاعات رہا ہوں پتا ہے کیسے خبر لگوائی جاتی ہے۔” شیخ رشید نے نہ صرف قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دے دیااور ساتھ ہی پارلیمنٹ پرایک بار نہیں کئی لعنت بھیج ڈالی۔شیخ رشید کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خانصاحب نے بھی پارلیمنٹ پر لعنت بھیج ڈالی۔طاہرالقادری نے اس احتجاجی جلسے کا مین آف دی میچ شیخ رشید کو قراردیا۔
سوال یہ پیداہوتا ہے کہ جس شاخ پربیٹھتے ہواس شاخ کو کاٹتے کیوں ہو؟پارلیمنٹ ایک خالی عمارت کانام نہیںاور نہ ہی کسی شخص کا نا م ہے جس پر لعنت بھیجی جارہی ہے بلکہ اس پارلیمنٹ میں ملک کے اہم فیصلے اور قانون سازی کی جاتی ہے ۔ کیا اس طرح لعنت بھیجنا پارلیمنٹ کی توہین نہیں؟ اگر پارلیمینٹ لعنت کے قابل ہے تو پھر اس سے حاصل ہونے والی رقم کی بھی حرام ہے۔ پچھلے چار سال سے زائد جو مراعات اور تنخواہیں حاصل کی ہیں وہ سب واپس جمع کرائیں تاکہ حرام سے بچا جا سکے مگر ایسا کرنے کی جرأت کسی میں نہیں ۔متحدہ اپوزیشن کے دو قائدین نے خفت سے بچنے کے لیے میڈیا میں دو اہم باتیں کی۔ خانصاحب نے نے کہا کہ یہ جلسہ نہیں بلکہ ہمارا مقصد احتجاج ریکارڈکرانا تھا تو پھر اتنا شور شرابا کیوں کرایا گیا؟ میڈیا پر تو ایسے باتیں کررہے تھے کہ جیسے میاں برادران اورن لیگی حکومت کے اقتدار کاوہ آخری دن ہوگا؟اس سے بہتر تھا کہ تمام قائدین ملکر ایک پریس کانفرنس کرلیتے تو تب بھی یہ احتجاج ریکارڈ ہوسکتا تھا اور اس سے ان کی ساکھ بھی متاثر نہ ہوتی۔ دوسری طرف قادری صاحب نے فرمایا کہ ہم لاہور کے علاوہ دیگر شہروں کے کارکنوں کو آنے سے منع کردیا تھا تو یہ صاف جھوٹ ہے ۔ لاہور ہی نہیں بلکہ بہت سے شہروں سے گاڑیوں کی صورت میں قافلے آئے تھے۔ اس کے باوجود وہ نتائج اخذ نہیں ہوئے جس کی توقع کی جارہی تھی ۔ تجزیہ نگار اور اینکر پرسن بھی یہ ہی بول رہے ہیںکہ متحدہ اپوزیشن کا یہ شو فلاپ رہا۔سیاسی حالات کسیے بھی ہوں مگر ملکی وقار کا خیال رکھنا ہم سب پر فرض ہے۔ اقتدارآنی جانی چیزہے مگر اداروں کا احترام کرنا بھی ضروری ہے۔