تحریر : اقبال زرقاش جس معاشرے میں فحاشی و عریانی راہ پا جائے وہ معاشرہ نیکیوں سے خالی ہو جاتا ہے، عدل و انصاف رخصت ہو جاتا ہے، بصیرت و عبرت سے نگاہیں ہٹ جاتی ہیں، ایسا معاشرہ جو اپنی ذات سے بے نیاز ہوتا ہے وہ وطن سے محبت کب کر سکتا ہے۔کسی بھی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اس کی نوجوان نسل کو فحاشی و عریانی کا دلدادہ بنا دیا جائے تو وہ قوم اپنی موت آپ مرجاتی ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھ لیں جب بھی مسلمان حکمران جنسی بے راہ روی کا شکار ہوئے تباہی ان کا مقدر بن گئی۔ اسلامی معاشرے میں فحاشی و عریانی کا بیج ہونے کے لیے اہل مغرب نے ہر محاذ پر اپنی سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیں ۔ الیکڑانکس میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے جس طرح ہماری نوجوان نسل کے اخلاق کو تباہ کیا جا رہا ہے، اس کا نتیجہ آج پاک سرزمین میںآئے روز جنسی تشدد کے واقعات ہیں جو نہ رُکنے کا نام لے رہے ہیں۔ اسلام دشمن طاقتیں چاہتی ہیں کہ مسلمان سراپا عمل نہ رہیں وہ فکری اور جسمانی طور پرکھوکھلا ہو جائیں ۔وہ ایک مرتب نظام کے تحت مسلمانوں کو جنسی بے راہ روہ کا عادی بنا رہے ہیں۔ اس میں اپنوں کی منافقت بھی شامل ہے اور غیروں کی سازش بھی ۔ ہمارے ذرائع ابلاغ اک طرف جنسی تشدد کے واقعات پر سراپا احتجاج ہیں اور دوسری طرف فحاشی و عریانی پھیلانے میں غیروں سے بھی چار قدم آگے ہیں۔ایسی منافقت اور دوعملی ایک ایسا روگ ہے جس سے قومیں تباہ وبرباد ہو جایا کرتی ہیں۔
ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہمارے دشمن فحاشی و عریانی کو ہمارے معاشرے میں پھیلا کر ہمیں اخلاقی طور پر ناکارہ بنا رہے ہیں جبکہ اپنے منافقت کے ذریعے فحاشی و عریانی کے زہر کو خوشنما لبادے میں پیش کرکے ہماری نوجوان نسل کو اس جانب راغب کر رہے ہیں۔ آج ہمارے ملک کے ٹی وی چینلز کے پروگرام ماں باپ اور بہن بھائی اکھٹے نہیں دیکھ سکتے۔ یہ ہمارے ہاںاک المیہ ہے کہ آج مغرب زدہ ذہنیت کے حامل قلمکاروں کے ایسے ڈرامے پیش کیے جا رہے ہیںجو معاشرتی بگاڑ کا باعث بن رہے ہیں۔ رہی سہی کسر ٹی وی چینلز پر چلنے والے اشتہارات نکال رہے ہیں جو آگ پر پیڑول کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔ ایسے میں نوجوان نسل سے یہ کیسے امید لگائی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی نگاہوں میں شرم و حیاء قائم رکھتے ہوئے اخلاقی بے راہ روی کا شکار نہیں ہونگے۔ بدقسمتی سے معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ ہمارے عالم دین بھی آج خاموشی سادھ کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ جیسے انہوں نے مغربی معاشرے کی تقلید میں فحاشی و عریانی کو ذہنی طور پر قبول کر لیا ہے۔اور کچھ اس کو روشن خیالی کا نام دے رہے ہیں۔ یہ روشن خیالی آج ہمیں کالجوں اور یورنیورسٹیوں میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے جہاں آئے روز جنسی بے راہ روی کے ایسے واقعات زبان ِزدعام ہیں کہ بیان نہیں کیے جا سکتے۔
جب معاشرہ اخلاقی طور پر تباہ ہو جاتا ہے تو زینب جیسے دل دہلا دہنے والے قیامت خیز واقعات معاشرے کا معمول بن جاتے ہیں جس پر وہی لوگ اب شور مچا رہے ہیں جو فحاشی و عریانی پھیلانے کے ذمہ دار نظر آتے ہیں۔جنسی تشدد کے واقعات کی سب سے بڑی وجہ معاشرے میں پھیلائی جانے والی وہ بے غیرتی ہے جو الیکڑانکس میڈیا اور سوشل میڈیا پر پھیلائی جا رہی ہے۔ جب تک ملک میںفحاشی وعریانی پھیلانے والے مغرب زدہ بے غیرتوں کو لگام نہیں دی جاتی، جو آج کلیدی عہدوں پر بُراجمان ہیں اور ایک ایسے مخصوص طبقے کو آگے لا رہے ہیں جن کو ہمارے پرانے بزرگ “کنجر”کے القاب سے پکارتے تھے مگر آج کا معاشرہ انہیں فنکار کہہ کر عزت وتوقیر دے رہا ہے وہ بدکردار خواتین جو معاشرے میں فحاشی اور عریانی کو فروغ دے رہی ہیں انکو سیکس ورکر کے القاب سے پکار کر معاشرے کے معززین میں شامل کیا جا رہا ہے۔
غیرملکی فنڈنگ سے چلنے والی بعض این جی اوز کو بھی پاکستان میں سکس فری معاشرہ بنانے کے ٹاسک دیئے گئے ہیں جو درپر دہ اپنے گھنائونے جرائم کا ارتکاب کر رہی ہیں۔لہذا جب تک ملت اسلامیہ کا باہوش طبقہ خلوص نیت سے نہیں اُٹھے گافحاشی و عریانی کا طوفان تھم نہیں سکتاہمیں اسلام سے محبت اوروطن عزیز سے وفاداری نبھانا ہو گی۔منافقت کو ترک کرنا ہو گا۔ کیونکہ منافقت سے ہم کسی بھی مثبت اور تعمیری کردار کی توقع نہیں کر سکتے۔ ہر فرد کے دل میں اسلامی شعور کو اُجاگرکرنے کی ضرورت ہے تاکہ دلوں میں خوف خدا پیدا ہو اور دینی قدروں سے وابستگی اُبھرے ہمارے اندر لفظوں کے حسن کے ساتھ ساتھ اعمال کی شائستگی بھی پیدا ہو تب معاشرتی بگاڑ سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ گو کہ بُرائی اپنے اندر کشش رکھتی ہے شیطان ہمارے برے اعمال کو خوشنما بنا کر ہمارے سامنے پیش کرنا ہے۔
نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم بسا اوقات برائی کو برائی نہیں سمجھتے آوارگی تہذیب کا جھومر محسوس ہوتی ہے۔بے حیائی کی چاٹ نگاہوں سے حیا اور دلوں سے شرم کو اُڑا لے جاتی ہے۔ رقص و سرور ثقافت کا حسن بن کر رکو پے میں سما جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فطرت کی معصومیت سرشت کی نیکی اوردل کے گوشوں میں چھپی ہوئی نور کی کرن کو ماحول کے اندھیرے نکل جاتے ہیں اور انسان انسان نہیں رہتا بلکہ حیوان بھی برتر ہو جاتا ہے۔ آج ہمارے حکمرانوں کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہو چکا ہے وہ درندوں کو بھی ما ت دے چکے ہیں۔درندوں کا بھی جب پیٹ بھر جائے تووہ بھی اپنے سے کمزور کی طرف نہیں دیکھتے۔ دُوسری طرف ہمارے حکمران ہیں کہ ان کا پیٹ ہے کہ بھرنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ لوٹ مار اور کرپشن کا بازار گرم ہے ۔ مخلوق خدا ان سے سوال کرے کہ اب بتائو تمہارے دل پہ اب کیا گزر رہی ہے۔
“شرم مگر تم کو نہیں آتی”
قصورکا واقعہ ہمارے موجودہ حکمرانون کے لیے اک ٹیسٹ کیس تھا مگر انہوں نے اپنے بیانات سے ظالموں کی پشت پناہی ظاہر کی ہے کیونکہ وہ خود ظالم ہیں اور ظالم ظالم کا ہی طرف دار ہوتا ہے۔ وقت کا تقاضا تھا کہ زینب کے قاتلوں کو جلد از جلدپکڑ کر قرار واقعی سزاء دی جاتی تاکہ آئیندہ کسی کو ایسے جرائم کے ارتکاب کی جرات نہ ہوتی ۔ا س کے ساتھ ساتھ جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی فحاشی و عریانی پر فوری طور پر خصوصی اقدامات اُٹھائے جائیں اور نوجوان نسل کی اخلاقی تربیت کا ماحول پیدا کیا جائے مجلس، ماحول اور صحبت کے اثرات لاشعوری طور پر قلب و نظر کا حصہ بن جاتے ہیں۔ انسان لاکھ بچنے کی کوشش کرے ماحول کی اثر آفرینیوں سے وہ بچ نہیں سکتا۔گردوپیش کے اندھیرے خلقی صلاحیتوں کے نور کو بھی دھندلادیتے ہیں۔ یہ بات تاریخی صداقتوں میں سے ہے کہ کسی نیک انسان کے فیض صحبت سے ڈاکو اور گمراہ لوگ بھی عرفان خداوندی کے بلند مقام تک پہنچ گئے ۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ نیک انسانوں کی مجلس میں گذارہ ہوا ایک لمحہ، سالہاسال کی عبادت سے بہتر ہوتا ہے۔