تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی موجودہ دور بلاشبہ مشینی دور ہے موجودہ انسان مادیت پرستی کی شاہراہ پر اندھا دھند دوڑا چلا جا رہا ہے آج کے انسان کو ضروریات زندگی اور اپنی بقا کے لیے زیادہ محنت کی ضرورت ہے شدید مصروفیات کے اِس دور میں اگر انسان بھولے سے کبھی کسی ٹی وی چینل پر موجودہ حکمرانوں اور نام نہاد لیڈروں کی تقریر سن لے تو رہی سہی کسر پو ری ہو جا تی ہے لیڈر چاہے کسی بھی پا رٹی کا ہو اُس کی جھوٹ میں لپٹی با تیں سن کر انسان کے دما غی کیمیکل ابنا رمل ہو نا شروع ہو جا تے ہیں اِن کے جھوٹ اِس قدر قابل نفرت ہیں کہ پگھلے ہو ئے سیسے کی طرح قطرہ قطرہ کانوں کو جھلساتے ہیں ایک ایک لفظ اندرائن کی طرح حلق سے اُترتا ہے اِن کے جھوٹوں سے طبیعت بو جھل اور سما عت میں سوراخ ہو جا تے ہیں دماغ کا ناریل چٹخنے لگتا ہے نو از شریف آصف زرداری عمران خان ایم کیوایم مو لا نا فضل الرحمان اے این پی مسلم لیگ ق کس پارٹی نے اقتدار کے جھو لے نہیں جھولے کس کی زبان اقتدار کے ذائقے سے تر نہیں ہو ئی کیا پنجاب میں جرا ئم کم ہو ئے کیا کے پی کے میں ہسپتالوں کی حالت زار اور نظام تعلیم بہتر ہوا کیا سند ھ میں عوام کش نظام بہتر ہوا کیا بلو چستان میں تر قی کا پہیہ تیزی سے گھو ما ‘اِن مصنو عی لیڈروں نے بلند وبا نگ دعوے کئے کس ڈھٹا ئی سے یہ جھوٹ بو لتے ہیں اپنے صوبے میں جر م ہو تو چھپا یا جا تا ہے دوسرے صوبے میں ہو تو اُس کا گریبان پکڑاجاتا ہے بے حسی کا یہ لیول ہے کہ کسی کی جان چلی جا تی ہے اور یہ بے شرموں کی طرح سیا ست کر تے نظر آتے ہیں جس کو دیکھو وہ ملک میں خلافت راشدہ کا نظام قائم کر نے کے دعوے کر تا نظر آتا ہے ہر کو ئی فاروقی عدل کی میزان کھڑی کر نا چاہتا ہے۔
غریب عوام کی عقیدت کا استحصال کر نے کے لیے خلفا ء راشدین یا پھر پا کستا نیوں کو متا ثر کر نے کے لیے امریکہ یو رپ کا تذکرہ کر تے نظر آتے ہیں لیکن جب اِن کا حقیقی طرز عمل دیکھیں تو حیرت کے جھٹکے لگتے ہیں کہ نہ تو خلفا ئے راشدین کے پیروکار نظر آتے ہیں اور نہ ہی مغر ب کے انداز و اطوار دکھائی دیتے ہیں اصل میں ہما را ہر لیڈر خو د کو قا نون سے با لاتر سمجھتا ہے اِن کو افیون کے نشے کی طرح جس چیز کا نشہ ہے وہ اِن کی اپنی ذات سے نما ئشی سفارشی پروٹوکول کا کلچر اِن کی ہڈیوں تک سرایت کر چکا ہے یہ کرو فر اور ظاہری شان وہ شوکت کو ہی مقصد حیات سمجھتے ہیں جہا زی گا ڑی فارم ہائوس سینکڑوں ایکڑ یا کنا ل پر مشتمل گھر ہی اِن کی منزل ہو تی ہے تا ریخ میں زندہ رہنے کے لیے یہ دولت اور اقتدار حاصل کر نا ضرو ری سمجھتے ہیں لیکن یہ لو گ یہ بھو ل جا تے ہیں شہرت اور عزت میں زمین آسمان کا فرق ہے شہرت تو بد نام زما نہ ظالم کی بھی ہو سکتی ہے مگر عزت تو عادل کی ہی ہو تی ہے شہرت تو کسی دولت مند جاہل کی بھی ہو سکتی ہے مگر عزت تو صرف عالم فاضل کی ہو تی ہے شہرت تو کسی قاتل کی بھی ہو سکتی ہے مگر تا ریخ میں امر صرف رحم دل ہو تے ہیں شہرت اگر صاحب اقتدار کی ہو تی ہے مگر عزت صرف کردار کی ہو تی ہے یہ دن رات خلافت راشدہ کی نظام کی با ت کر تے ہیں لیکن شاید اِن لوگوں نے خلفاء راشدین کے مزاج کا مطا لعہ نہیں کیا اگر یہ خلا فت راشدہ کے نفوس ِ قدسیہ کا مطالعہ کر لیں تو انہیں سمجھ آجا ئے کہ وہ اقتدار کی طرف لپکنے کی بجا ئے بدکتے تھے تا ریخ انسانی کے سب سے بڑے عادل حکمران حضرت عمر کو ہی لے لیجیے دس سال سے زائد عرصہ خلا فت پر فا ئز رہے احساس ذمہ داری سے دل کی دھڑکنیں تیز چہرے کا رنگ فق آنکھیں آنسوئوں سے تر رہیں۔
اِس فکر نے ہلکا ن کئے رکھا کہ فرات کے کنا رے بکری کا بچہ بھی بھوک سے مر گیا تو اُس کا جواب دہ ہو نا پڑے گا آج کے حکمرا ن کا یہ عالم ہے کہ پرو ٹوکول کے کاروان میں سڑکوں پر جھومتے لہراتے نظر آتے ہیں عوام کش نظا م میںاپنی بقا کی جنگ لڑتے نظر آتے ہیں جبکہ اِن کے دستر خوان کی خو شبو سے علا قے مہکتے ہیں خلا فت راشدہ کا نام لینے سے پہلے کاش یہ اِن کے حالات زندگی پڑھ لیں ورنہ کہنے کو تو خلیفہ ولید بھی تھا سلمان جعفر بھی خلیفہ تھے مگر خلا فت کی حقیقی شان آگے نہ بڑھ سکی فارس کا گو رنر جب شکست کھا کر مدینہ منو رہ لا یا گیا تو اُس نے حضرت عمر سے ملنے سے پہلے خوب تیا ری کی مہنگا ترین لبا س پہنا تلوار لٹکا ئی اور بڑی شا ن سے مسجد نبو ی کے قریب آکر پو چھا امیر المومنین کدھر ہیں تو ایک بدوی نے اشارے سے بتا یا وہ مسجد کے فرش پر ہما رے امیر المومنین خاک پر لیٹے ہوئے ہیں گو رنر حیرت سے اُس شخص کو خا ک نشین دیکھ رہا تھا جس کے رعب دبدبے سے دنیا لرز رہی تھی ایک بار حضرت عمر کے کر تے میں با رہ پیوند ہو گئے تو آپ کے بیٹی ام المومنین سیدہ حفصہ نے کہا ابا جان نیا کر تا بنوا لیجئے آخر اور کتنے پیوند لگا ئیں گے تو مراد رسو ل بو لے جان پد ر میں مسلمانوں کے مال میں اِس سے زیا دہ تصرف نہیں کر سکتا یہ وہ شخص تھا جس کے دور میں قیصر کا تا ج اچھلاکسری کا تخت الٹا مال غنیمت کے ڈھیرلگ گئے مگر اِس عظیم انسان کا مزاج نہ بدلا جب خلافت کی ذمہ داری کندھوں پر پڑی تو گھر کے دروازے کے کواڑ نکال دئیے کہ عوام اور خلیفہ کے درمیان دروازہ بھی نہ آ سکے۔
ایک با ر شام کے سفر کے دوران ایک بیوہ بڑھیا کے خیمے کے پاس رکے اور پو چھا بی بی آپ کو معلوم ہے کہ امیر المو منین اِس وقت کہاں ہیں تو بی بی بہت بے رخی سے بو لی سنا ہے وہ شام سے چل پڑاہے تو آپ نے پو چھا امیر المومنین کے حالات سے اتنی بے خبری تو بڑھیا بو لی جب امیر المومنین کو ہما ری خبر نہیں تو ہمیں اُس کے حالات سے کیا غرض بڑھیا کی با ت سن کر آپ نے فورا اُس کی ضرو ریا ت پو ری کیں اور متعلقہ حکام سے اُ سکی خیر گیر ی کا کہا آپ سار ی عمر فرمایا کر تے تھے کہ خلافت کا مفہوم تو مجھے شام کی بڑھیا نے سمجھا یا یعنی جو امیر اپنی رعا یا کے حالات سے بے خبر ہو اُسے اما رت کا کو ئی حق نہیں پہنچتا حضرت عمر کے دور حکو مت میں اسلامی سلطنت کی سرحدیں لاکھوں مر بع میل پر پھیل گئیں لیکن آپ مضبو طی سے غلا می رسو ل ۖ کے رنگ میں رنگے رہے ایک دن حضرت ابو مو سی اشعری نے بیت الما ل کا جا ئزہ لیا تو صرف ایک درہم نکلا انہوں نے وہ درہم سید نا عمر فاروق کے فرزند کو تھما دیا حضرت عمر فاروق کو جب اِس بات کا پتہ چلا تو سید ابو مو سی اشعری کو بلا کر کہا تمہیں سارے مدینے میں آل عمر سے زیا دہ کو ئی مستحق نظر نہیں آیا تم چاہتے ہو قیا مت کے دن تما م اُمت مسلمہ کا ہاتھ میرے گریبان پر ہو یہ کہہ کر درہم واپس بیت المال میں جمع کرا دیا۔
ایک دن بیت الما ل کا ایک اونٹ رسی تڑوا کر بھا گ نکلا آپ خو د اُس اونٹ کی تلا ش میں نکلے احنف بن قیس نے دیکھا کہ امیر المومنین بے چینی بے قراری میں کسی کو تلا ش کر تے پھر رہے ہیں پو چھنے پر بتا یا کہ بیت المال کا اونٹ گم ہو گیا کسی نے کہا امیر المومنین آپ کیوں تکلیف اٹھا رہے ہیں کسی غلام کو حکم دیجئے وہ ڈھونڈ لا ئے گا تو حضرت عمر بو لے مجھ سے زیا دہ بڑھ کر کو ئی غلام ہو گا ایک بار شدید بیما رہو گئے طبیب نے شہد تجویز کیا گھر میں شہد نہیں تھا بیما ری کے عالم میں مسجد نبو ی تشریف لا ئے لو گوں کو اکٹھا کیا اور کہا تم لوگ اجا زت دو تو میں بیت المال سے تھوڑا سا شہد لے لوں یہ ستا سی لاکھ مربع میل کا حکمران بو ل رہا تھا جب وقت شہا دت قریب آیاتو صحابہ نے کہا اپنا کو ئی جا نشین مقرر کر دیجئے اور نہیں تو اپنے بیٹے عبداللہ کو ہی جانشین بنا دیجئے آپ نے انکار کر تے ہوئے کہا میں اسے مسلمانوں کا امیر بنا دوں جسے اپنی بیوی کو طلا ق دینے کا بھی ڈھنگ نہیں آتا ( یاد رہے کہ حضرت عبداللہ نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلا قیں دے دیں تھیں یہ طریقہ شریعت میں نا پسندیدہ سمجھا جا تا ہے ) ایک صحابی حضرت عمر کے کارناموں کی خو ب تعریف کر رہا تھا تو حضرت عمر نے ٹوکا اورکہا میرے بھا ئی میرے لیے بس اتنی دعا کرو کہ خدا مجھے کو ئی بڑا انعام نہ دے فقط برابر برابر چھو ڑ دے میرے لیے یہی کا فی ہے۔