تحریر : چودھری عبدالقیوم مکرمی؛ مال روڈ پر شہدائے ماڈل ٹائون کے ملزمان کے خلاف احتجاجی جلسہ میں پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری کی کوششوں سے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، تحریک انصاف کے عمران خان سمیت اپوزیشن کی اکثریتی جماعتوں کے قائدین سمیت بڑی تعداد میں کارکنوں نے شرکت کی۔
یہ احتجاجی جلسہ حاضرین کی تعداد اور دیگر کئی حوالوں سے منتظمین کی توقعات کے برعکس رہا ۔کیونکہ ماضی میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی جماعت کے احتجاجی جلسے اس اجتماع سے کہیں زیادہ بڑے ہوتے تھے لیکن اپوزیشن کی تمام بڑی جماعتوں کی شرکت کے باوجود مال روڈ کا احتجاجی جلسہ بڑا ؛شو؛ نہ بن سکا تھااس کی کی کئی وجوہات ہیں۔لیکن یہ جلسہ اس حوالے سے اہم بن گیا کہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے اپنے جذباتی خطاب کے دوران پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتے ہوئے اپنی جماعت کی اکلوتی قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہونے کا اعلان کیاجس پر ڈاکٹر طاہرالقادری نے انھیں مین آف دی میچ قرار دیا۔بعدازاں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایسی پارلیمنٹ پر لعنت ہے جو ایک نااہل شخص کو پارٹی سربراہ بنائے اور ختم نبوتۖ میں ترمیم کرنے کی کوششیں کرے۔
پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ وہ اپنی جماعت میں مشاورت کریں گے کہ پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی بھی استعفے دے دیں.جس پر قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں نے عمران خان اور شیخ رشید کے خلاف نہ صرف مذمتی قرارداد پاس کی بلکہ ان پر بھی جوابی لعنت بھی بھیجی۔ اس طرح ہماری سیاست میں ایک دوسرے پر لعنتیں بھیجنے کی غلط روایت کا آغاز ہوا جسے کسی طور بھی اچھا نہیں کہا جاسکتا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ غلط روایت یہں پر ختم ہوجاتی ہے یا یہاں سے آگے کہاں تک جاتی ہے۔شیخ رشید نے پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتے ہوئے ہی قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دے دیا تھا ۔لیکن اس کے برعکس عمران خان کی طرف سے پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے کے بعد ابھی تک ان کی جماعت کے ممبران اسمبلی مستعفی نہیں ہوئے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف جس کی قومی اسمبلی میں پینتیس نشستیں ہیں اس کے ارکان قومی اسمبلی لعنتی قرار دی گئی پارلیمنٹ میں جاتے ہیں کہ نہیں لیکن تاحال انھوں نے استعفے نہیں دئیے ۔لیکن یہ امکان ضرور برقرار ہے کہ عمران خان کی طرف سے پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے کے بعد ان کی جماعت کے ممبران قومی اسمبلی اپنی نشستوں سے استعفے دے دیں گے۔کیونکہ گذشتہ روز وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے بھی دورہ فیصل آباد میں خطاب کے دوران چیلنج کیا ہے کہ اگر ان میں ہمت ہے تو یہ لوگ اسمبلیوں سے استعفے دیں بلکہ انھوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر ان میں ہمت ہے تو کے پی کے میں اسمبلیاں توڑ کر دکھائیں۔
ایسی صورتحال میں غالب امکان ہے کہ یہ استعفے جنوری کے بعد آئیں گے۔اگر ایسا ہو جاتا ہے تو یقینی طور پر ملک کا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہو جائیگا ۔اس کے نتیجے میں سینٹ کے الیکشن ہونا بہت مشکل ہوگا۔اگر قبل از انتخابات نہیں ہوتے تو پھر ایک قومی یا ٹیکنوکریٹ حکومت بننے کا زیادہ امکان ہے۔اور یہ سب کچھ فروری کے پہلے دو تین ہفتوں میں ہو گا ۔کیونکہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں بشمول پیپلزپارٹی کی خواہش ہو گی کہ برسراقتدار جماعت مسلم لیگ ن سینٹ کے الیکشن جو مارچ میں ہونا ہے ان میں اکثریت حاصل نہ کرسکے۔اس کے لیے سب سے اہم کردار پاکستان تحریک انصاف کا ہوگا جس کے سربراہ جلسہ عام میں پارلیمنٹ پر لعنت بھیج چکے ہیں اس وجہ سے تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کا استعفے دینا طے نظر آتا ہے۔
پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی میں پینتیس نشستوں کیساتھ خیبرپختونخواہ میں حکومت بھی ہے اگر کسی وجہ سے اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے اراکین اسمبلی استعفے نہیں بھی دیتے تو بھی تحریک انصاف کے پی کے میں اسمبلی تحلیل کرکے اور قومی اسمبلی سے استعفے دے کرمسلم لیگ ن کے لیے سینٹ میں اکثریت حاصل کرنے کی کوشش کو ناکام بنا سکتی ہے جو مسلم لیگ ن کی سیاست کو بڑا دھچکا ہوگا ۔ملک کی سیاست کیا رخ اختیار کرتی ہے اس کے لیے فروری کا مہینہ نہایت اہم ہے جس میں آئندہ کی سیاسی صورتحال کے خدوخال کافی حد تک واضح ہونگے۔