تحریر : عتیق الرحمن اللہ جل شانہ نے تخلیق و بعثت انسانی کا ذکر کرنے کے ساتھ اسلام کا بنیادی تصور انسانی حقوق کا مفہوم واضح الفاظ میں بیان فرمادیا ہے کہ بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی و تری میں سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنادیا۔گویا کہ انسان کو زمین پر خلافت و سرداری عنایت کی گئی اور اس کیلئے رزق حلال کا انتظام کیا گیا اور دیگر مخلوقات پر فضیلت بھی عنایت کردی ۔اسی کو ہادی اعظم ۖ نے خطبہ حجة الوداع کے موقع پر بیان کیا کہ” ائے لوگو!آگاہ ہوجاؤکہ تمہارا رب ایک ہے اور بے شک تمہارا باپ (آدم)ایک ہے کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عرب ی پر کوئی فضیلت نہیں اور کسی سفید کو سیاہ پر اور کسی سیاہ کو سفید پر فضیلت نہیں سوائے تقویٰ کے”اسی مفہوم کو قرآن کریم کی سورہ حجرات میں بھی بیان فرمایا گیا۔
مغرب کا تصور انسانی حقوق: فحص و تمحیص کے بعد یہ معلوم ہوتاہے کہ مغرب کے نزدیک سترہویں صدی عیسوی سے قبل انسانی حقوق کا کوئی تصور موجود نہیں تھا تاہم وہ اس بات کو بیان کرتے نظر آتے ہیں کہ ہم نے ہی دنیا میں حقوق انسانی کو متعارف کروایا ہے میگنا کارٹامیں(جو کہ بعثت اسلام کے چھ سوسال بعد)حقوق انسانی کا تصور دیا مگر حقیقت تو یہ ہے کہ مغرب نے واقعیت میں برطانیہ و فرانس اور امریکہ میں تصور انسانی حقوق کا اہتمام 17ویں صدی سے شروع ہوا ۔جس میں ایک بنیادی خامی موجود رہی ہے کہ مغرب کایہ تصور انسانیت مفروضات و تصورات پر مبنی ہے امر واقعی اور زمینی حقائق پر وہ حقوق عنقا ہیں۔موجودہ دنیا میں جو کچھ بھی فتنہ و فساد اور کشت و خون کی ہولناک ہولی و تباہی و بربادی کا بازار گرم ہے اس کے سرِ نہاں میں خود مغرب کا ہاتھ پنہاں ملتاہے۔
١۔زمانہ جاہلیت میں انسانی حقوق تاریخ انسانی کی ابتدا ء کے بعد اس میں ظہور ہونے والی خرابیوں اور بیماریوں کے تدارک کیلئے سلسلہ بعثت انبیاء کاآغاز ہوا تاکہ انسانیت صراط مستقیم پر کاربند رہے۔حضرت عیسیٰ کے انتقال سماء کے بعد انسانی معاشرے میں بدترین انحراف سامنے آیا جس کی تصویر کشی حسب ذیل اس وقت کی مقتدر اور مہذب سمجھی جانے والی تہذیبوں کے احوال کو مطالعہ کرنے سے بخوبی سمجھ میں آسکتی ہے کہ دور زوال و انحطاط کی ارذل ترین شکل کیسی تھی۔
رومی سلطنت:رومی سلطنت کی حالت و کیفیت سے متعلق مشہورمؤرخ گبن لکھتاہے کہ ”چھٹی صدی عیوتی میں سلطنت روما کا زوال اور اس کی پستی عروج پر تناور اور گھنے درخت جو دنیا کو سایہ فراہم کرتاتھا اب سوکھتا چلا گیا”رومی تہذیب میں اخلاقی انحطاط و بے راہ روی انتہا کو پہنچی۔خزانے خالی ہونے کی وجہ سے ناجائز ٹیکس لگائے گئے۔ذمہ داریوں سے پہلو تہی کی خاطر تجرد پسندی کی زندگی کو ترجیح دی جانے لگی۔اس جیسے بے شمار مسائل کے نتیجہ میں روم زوال پذیر ہوگیا۔
ایران و سلطنت فرس ایرانی تہذیب جس میں مانی و مزدک اور زردشت مشہور مذاہب و مکاتب فکر تھے کی صورت حال بھی دوسری قوموں سے کچھ مختلف نہ تھی بلکہ اس میں لاتعداد سرطان تھے کہ جن پر انسانیت تادم زیست شرمندہ ہے کہ ماں،بہن اور بیٹی کی کوئی تمیز نہ کی جاتی تھی کہ جس کا جس پر زور چلا اس نے اس کو اپنے تصرف میں لے لیا یعنی مال و عورت کو سب کیلئے بلاتفریق حال قرار دیا گیا تھا۔آرتھر کرسٹن سین ایرانی تہذیب کے بارے میں لکھتاہے کہ ” سوسائٹی کے مختلف طبقوں کے درمیان ناقابل عبور فاصلہ تھا۔عوام امراء کی جائیداد نہ خرید سکتی تھی۔ازروئے نسب ملنے والی حیثیت کے اضافہ اور برتری حاصل کرنے کی کوشش پر زک لگ چکی تھی۔ پیشہ اختیار کرنے میں حدبندی۔حکومت کا کوئی بھی کام کم تر ذات کو نہ سونپا جاتاتھا۔سماج میں بدترین تفاوت تھی کہ ہر شخص کیلئے معاشرے میں ایک حیثیت مختص کردی گئی تھی۔
ہندوستان و چین:چھٹی صدی عیسوی میں ہندودستان کی حالت بھی دگر گوں تھی کہ وہاں ہندو راشٹ اور برہمنوں کا راج تھا مگر وہ بھی نوع انسانی کے حقوق کو پامال کرنے میں پیش پیش تھے اور سماج میں حد بندیا ں کررکھی تھیں۔اس کے بارے میں پنڈت جواہر لال نہرو لکھتاہے کہ”برہمنیت نے بودھ کو اوتار بنادیا تھا۔بدھ مت نے بھی یہی کیا۔سنگھ بہت دولت مند ہوگئے۔تمام تعلیمات ایک جماعت کے مفاد تک محدود۔عبادت میں اوھام و سحر غالب۔ایک ہزارسال بودھ مذہب نے بھارت پر حکومت کی۔خطہ عرب میں بھی تاریکی و ظلمت کی چادر اوڑھ چکی تھی کہ تعلیمات انبیاء سے منحرف ہوکر آباؤاجداد کے باطل تصورات کے ساتھ وابستگی و بت پرست کو اختیار کرچکے تھے۔ اقوام ِ مغرب :رابرٹ بریفالٹ یورپ و مغربی تہذیب کے بارے میں لکھتاہے کہ وہ 5 ویں صدی سے 10 ویں صدی تک یورپ میں گھٹاٹوپ اندھیرے چھائے ہوئے تھے اور مغربی تہذیب مثل لاش تھی جو متعفن ہوکرگل سڑ چکی تھی۔بعد میں مغرب کو نشاة ثانیہ کا احیاء مسلمانوں کے اندلس علمی مراکز سے ملا کہ اس سے قبل تو مغرب کے مقتدر ملک فرانس،اٹلی اور جرمنی میں طوائف المواکی،ویرانی کا دور دورہ تھا۔
٢۔ بعثت محمدیۖ اور انسانی حقوق علم کی تحصیل :ایسے مشکل و صعب حالات میں اللہ عالیٰ نے حضورسرور کونینۖ کو مبعوث کیا اور پہلی ہی وحی میں واشگاف الفاظ میں بیان کردیا کہ دین اسلام کا تادم زیست علم کے ساتھ رشتہ جوڑ دیا گیا ہے اور یہ علم صرف مسلمانوں کیلئے ہی نہیں لازم و ضروی بلکہ امت محمدیہ پر فرض ہے کہاور یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ امت محمدیہ میں مسلم و غیر مسلم دونوں شامل ہیں۔مشہور داعی و مبلغ مولانا سید سلمان حسینی ندوی فرماتے ہیں کہ ایک امت ایجابت ہے (جس نے اسلام قبول کرلیا)اور دوسری امت دعوت ہے(جو حلقہ بگوش اسلام نہیں ہوئے اور مسلمانوں پر لازم ہے کہ انہیں حکمت و دانشمندی کے ساتھاسلام کی طرف بلائیں)۔ فرمایاسورہ اقرأ کی پہلی پانچ آیات میں”پڑھ اپنے رب کے پاکیزہ نام سے جس نے پیدا کیا،پیدا کیا انسان کو لوتھڑے سے(گوشت کے ٹکڑے سے)،تو پڑھ عزت و عظمت والے رب کے نام سے،جس نے علم دیا قلم کے ذریعہ سے،انسان کو وہ علم سکھلایا جس کو وہ نہ جانتا تھا”اسی طرح سورہ ابراہیم میں بھی بیان فرمادیا گیا کہ آپۖ کی بعثت کا مقصدیہ ہے کہ ”ہم نے کتاب نازل کی آپ پر کہ لوگوں کو ظلمت سے روشنی کی طرف نکال لائیں”۔
فضیلت و برتری:ایک موقع پر حضرت ابوذر غفاری سے آپۖ سے فرمایا کہ ”دیکھو تم کسی سے نہ بہتر ہو نہ بڑے ہاں اگر تقویٰ میں بڑھ جاؤ”آپۖ تہجد کے وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے یہ فرمایا کرتے تھے کہ تمام بندے بھائی بھائی ہیں۔حضرت جابر بن عبداللہ نے بیان کیا ہے کہ ایک بار ایک انصاری صحابی اور ایک مہاجر صحابی کے درمیان جھگڑا ہوا جس پر انہوں نے اپنے اپنے قبیلہ والوں کو پکارا اے انصاریو!،اے مہاجر! تو نبی آخرالزمانۖ نے فوراً منع کیا اور فرمایا کہ یہ عصبیت کے نعرے جاہلیت کی نشانیاں ہیں ان سے باز رہو۔
احترام انسانیت:نبی کریمۖ نے ایسی روشن تعلیمات عنایت کی ہیں کہ ایک کافر خاتون قید ہوکر آئی تو آپۖ نے ارشاد فرمایا کہ اس کو چادر اوڑھاؤ! صحابہ کرام نے فرمایا کہ وہ کافرہ ہے تو آپۖ نے فرمایا بیٹی بیٹی ہوتی ہے کافر کی ہو یا مسلم کی۔یہی تعلیمات نبویۖ کا اثر ہے کہ صحابہ کرام نے خلافت اسلامیہ میں مسلم و غیر مسلم کے حقوق کا برابر تحفظ کیا کہ سیدنا عمر فارو ق کے زمانے میں ایک یہودی بھیک مانگتا نظر آیا تو اس سے پوچھا کیوں بھیک مانگتے ہو تو اس نے کہا کہ میں ذمی ہوں اور جزیہ دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا بھیک مانگ کر جزیہ ادا کرتا ہوں تو آپ نے فرمایا ہم نے تمہارے ساتھ انصاف نہیں کیا فوراً خازن بیت المال کو حکم دیا کہ اس کو اور اس جیسے ذمیوں کو بیت المال سے مال عنایت کرو۔خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق نے جیش اسامہ بن زید کو روانگی کے وقت مثالی ہدایات دی ہیں جو اسلامی اخلاقیات جنگ کا زریں باب ہیں ۔ اسلام میں معاشرے کے جمیع طبقات کو بلا تفریق رنگ و نسل اور مذہب کے حقوق عنایت کیے گئے ہیں ماعدا ان لوگوں کے جو عدوان و سرکشی کو شعار بناکر مدمقابل ہوجائیں۔گویا اسلام نے محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا۔
٣۔ مغربی مفکرین کی نظر میں انسانی حقوق مشہورتعریفات/اصطلاحی مفہوم:انسانی حقوق بنی نوع انسان کے حقوق اور آزادیوں سے عبارت ہیں۔اصطلاحی طور پر انسانی حقوق کا استعمال نسبتاً نیا ہے اور یہ دوسری جنگ عظیم اور 1945میں اقوام متحدہ کی تاسیس میں متداول ہے۔(جبکہ دین اسلام نے چودہ سوسال قبل انسانوں کے حقوق بیان فرمادیے ہیں البتہ اسلام حقوق کی طلبی سے کہیں زیادہ فرائض کی ادائگین کی اہمیت و ضرورت پر زور دیتاہے کہ ان کی بجاآوری کے بعد حق مانگنے کی حاجت نہیں ہوتی)انسانی حقوق کی اصطلاح فطری حقوق کے مقابل میں استعمال کی گئی۔ مغربی مفکر لاسکی کے نزدیک انسان کے فطری حق آزادی کا اظہار بھی حامل بنیادی حقوق سے ہی ہوتاہیوہ لکھتاہے”کسی ریاست میں شہریوں کے سماجی حقوق جتنے مساوی ہونگے وہ اظہار آزادی کے مختلف دائروں میں اتنا ہی زیادہ آزادی سے متمع ہوسکیں گے۔لیوائن کہتاہے کہ حق یہ ہے کہ ایک فرد یا گروہ کسی چیز کا دعویٰ کریں خواہ وہ مثبت ہو یا منفی (جیسے نشہ آور چیزوں کی طلب)اسی طرح مزید یہ بھی کہتاہے کہ یہ حق کا تقاضا لازمی بات ہے سماج و ریاست یا کسی گروہ سے کیا جائے گا۔ویزلے نیوکامب کہتاہے کہ اپنے آپ کو روکے رکھنے کا مفہوم ایک حق پر حد لگادیتاہے یا حقدار کو اس حق کے بروئے کار لانے سے روک دیتاہے۔اس روک دینے کے عمل کاآزادی سے باہمی طورتعلق گردانا جاتاہے ہوبز، روسو، اور کانٹ کا کہنا ہے کہ ”آزاد ہونا سب پابندیوں سے رہاہونے کا نام ہے”تاہم کسی قانونی یا اخلاقی پابندی اور روک تھام کا اطلاق عوامی مفاد کو ملحوظ خاطررکھ کر کیا جاتاہے۔اسی طرح افراد کے دعوؤں کو انسانی حقوق کے مفہوم میں جائز ہی گردانا جاتاہے بشرطیکہ وہ اجتماعی مفاد کے اصولوں اور ان کے تحت قائم کردہ معیار سے متصادم نہ ہوں۔ اقسام حقوق :انسانی حقوق کو مختلف انداز سے پکارا جاتاہے:اول:بنیادی حقوق۔بنیادی حقوق سے بالعموم وہ حقوق مراد لیے جاتے ہیں جو ناقابل تنسیخ ہوں اور ان سے کسی کو محروم نہ کیا جاسکے۔ثانی:شہری حقوق۔ثالث:شہری آزادی۔ان دونوں اصطلاحات کو بمشکل ایک دوسرے سے متمیز کیا جاسکتاہے۔اگر آپ کو کسی حکومتی کارروائی سے تحفظ حاصل ہے تو آپ شہری آزادی سے استفادہ کررہے ہیں جبکہ جائیداد رکھنا شہری حق تصور کیا جائے گا۔انسانی حقوق ظالم و جابر معاشرے میں مصلح کا کردار ادا کرتا ہے۔
حقوق کی درجہ بندی : روایتی حقوق کی درجہ بندی اخلاقی و قانونی اعتبار سے کی جاتی ہے۔اخلاقی حق کسی قوم کی جانب سے عائد کیا جاتاہے اور حکومت اس میں گرفت نہیں کرتی۔جبکہ قانونی حق وہ ہیں جن کی ادائیگی پر حکومت مجبور کرے گی۔قانونی حق کی دوقسمیں ہیں ایک دیوانی حقوق اور دوسرا سیاسی حقوق۔دیوانی حقو ق میں زندگی، عزت و آبرو اور جائداد کی حفاظت لازم ہے۔سیاسی حقوق یہ ہیں کہ کوئی بھی مردوزن ریاست کے امور میں بغیر کسی رکاوٹ کے حصہ لے سکتے ہیں۔
انسانی حقوق کی تاریخ :ایتھنز و یونانی ریاستوں میں عام درجہ کے افراد انتظام ریاست میں حصہ لے سکتے تھے۔اہل روم کا قانون فطری قانون کے تابع تھا۔سسرو کہتاہے کہ فطری قانون کے مطابق تمام انسان برابر ہیں۔الف:برطانیہ1215ء میں برطانیہ میں بادشاہوں کے غیر قانونی تصرف کی روک تھام کیلئے شہری آزادی کا حق متعارف کرایا گیا۔ برطانوی طبقہ امراء کے پانچ مساوی اراکین کے قانونی تصفیہ کے بغیر آزاد انسانوں کو مستوجب سزا نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ب:امریکہ :تھامس جیفرسن نے لاک اور مانٹیسکو کے نظریات کا مطالعہ کرکے امریکہ کی ریاستوں میں یہ اعلان 4جولائی 1776ء میں مشتہر کروایا کہ ”ہم اس صداقت کو اظہر من الشمس سمجھتے ہیں کہ تمام انسان برابر پیدا ہوئے ہیں اور ان کے خالق نے انہیں بعض ناقابل انتقال لاینفک حقوق عطاکررکھے ہیں جن میں آزادی، حریت، اور مسرت و شادمانی کے حصول کا حق ہے۔ج:فرانس”فرانس میں 26 اگست 1789ء میں اعلان کیا گیا کہ انسان آزاد پیدا ہوتے ہیں اور وہ اپنے حقوق میں آزاد و برابر ہیں۔ابراہم لنکن کے فرمان کی رو سے انسانیت سے اس امر کا وعدہ کیا گیا کہ وقت گزرنے کے ساتھ انسانی کندھوں سے سارا بوجھ اٹھا لیا جائے گا اور سب کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا یکساں موقع بہم پہنچایاجائے گا۔(امر واقع و حال اس کے مخالف ہے)۔د:اقوام متحدہ:اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے 1945ء سے کام شروع کیا اور 1948ء میں انسانی حقوق کا عالمی ڈیکلریشن جاری کیا اور اس کے بعد 1979میں بھی سیاسی و شہری حقوق اور بعد میں معاشی و معاشرتی اور ثقافتی حقوق کا چارٹر جاری کیا۔ان کا معتدل مؤرخ کی حیثیت سے جائزہ لیا جائے تو اول تو یہ تمام حقوق انسانی خاتم النبینۖ نے خطبہ حجة الوداع کے موقع پر انسانوں کو حقوق عنایت کردیے تھے۔اور جہاں ترمیم و اضافہ ہے تو اس میں بھی مجموعی طورپر انسانی حقوق کا بدترین استحصال موجودہے کہ چند ممالک کو دنیا بھر کی حکومتوں پر بالا دستی تفویض کی گئی ہے۔
٤۔ اسلامی تعلیمات و مغربی افکار و حالات کا تقابل خلیفة اللہ:اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرکے ملائکہ کو اس کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔اب انسان کسی غیر خالق کے سامنے جھکے تو اپنی تذلیل خود کررہاہے درحقیقت انسان تو اللہ کا زمین پر خلیفہ ہے۔آج انسانیت کا دشمن خود انسان ہی بن چکا ہے۔جنگی تاریخیں اس پر دال ہیں کہ ذاتی جاہ و حشمت،دوسروں کو زیر کرنے کے جذبے نے ہی جنگوں کو رواج بخشااسی امر کو قرآن حکیم نے بھی یہی بیان کیا کہ زمین میں فساد انسانوں کے اپنے ہاتھوں کی وجہ سے ہے۔یورپ میں ہزاروں خامیاں موجود ہیں مگر سطحی قسم کی چھوٹی برائیوں سے خالص مادی مصلحتوں کے پیش نظر دور ہوچکے ہیں کہ ان کی شہری و مجلس کی زندگی منظم و مربوط ہے۔معلوم ہونا چاہیے کہ مذہب مظلوم نہیں۔ سماج سے جراثیموں کے خاتمے میں حقیقی تعاون مذہب کرسکتاہے۔قانون و پابندیاں سب ہیچ ہیں۔خوف خدا۔ مذہب سے گہرا تعلق انسان کو گری ہوئی حرکات و افعال کے ارتکاب سے مانع رکھتاہے۔موجودہ یورپ زندگی سے مایوس ہوچکا ہے کہ اس کے پاس مادیت،آسائش و راحت کے سارے سامان موجود ہیں مگر زندگی کے حقیقی لطف سے محروم ہوچکاہے۔خواہشات نفس کو شہہ دی جارہی ہے جبکہ انبیاء خواہشات میں توازن پیداکرنے کے ساتھ حد بندی کردیتے ہیں کہ اس سے مزید آگے نہیں بڑھنا۔ جائز ذرائع کو اختیار کرکے نفع مندی حاصل کرنے کی اجازت و تاکید کی جاتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی خواہشات لامحدود ہیں کہ ایک کے بعد ایک کا تقاضا کیا جاتارہے گا تاوقتیکہ اس کے سامنے سد لگ جائے۔
تخلیق انسانی کا مقصد:حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا انسان کیلئے پیدا کی گئی ہے اور انسان خداکیلئے پیدا کیا گیا ہے کہ ترجمہ:اور ہم نے نہیں پیدا کیا انسان و جن کو مگر عبادت کیلئے۔انسان خدا کے سامنے جوابدہ ہے۔امین ہے اس کا استحضا ر ہونے تک خواہشات کا دھارا درست سمت رواں نہیں ہوسکتا۔ہم پر یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ پرانی تہذیبیں انسانیت کے موجودہ مسائل کو حل کرنے کی سکت نہیں رکھتیں۔یونانی، رومی اور ہندی وغیرہ سب اپنے حصہ کاکام کرچکے اب چلے کارتوس ناکارہ ہیں، مذہب روح فراہم کرتاہے اور تہذیب کلچر و ثقافت۔مذہب کو اس سے مطلب نہیں کہ بات سونے یا چاندی کے قلم سے لکھی جائے نہیں بلکہ مذہب اس پر زوردیتاہے کہ جو بھی لکھا جائے وہ حق و سچ اور مبنی بر عدل ہونا چاہیے۔ مردہ کلچر کو زندہ کرنا انسانیت کیلئے نفع مند نہیں بلکہ انسانوں کو تو غم خواروں کی حاجت ہے تمدن کی فراوانی سے اس کی حیات میں خوشی در نہیں آ سکتی۔
انسان ایندھن نہیں:امر واقع ہے کہ یورپ نے انسان کو ایندھن سمجھ لیا۔امریکہ شمالی کوریا چین کا خاتمہ چاہتاہے۔روسی قوم پرست چین کو تباہ کرنے کی ٹھان چکے۔پورایورپ مشرق وسطیٰ کو میدان جنگ بنا چکاہے۔ انسانیت کا درد، احساس اور احترام نہیں کیا جاتا اور نہ ہی خدا کا نائب و متولی کوئی نہیں بنتا ہے بلکہ صرف اور صرف مالی وسائل اور آمدنی کے اضافہ کیلئے کوشاں ہیں اس کے بدلے میں دوسرے ملک یا قومیں غارت ہوجائیں تو اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔قوموں کی اخلاقی حالت۔انسانوں کے حقیقی مسائل سے اعراض و احتراز کیا جاتاہے۔ایشیاء و افریقہ کی حکومتوں کی بنیاد بھی مغربی افکار کے طرز پر رکھی جاچکی ہے۔ وسائل کی فراوانی ہے مگر نیک مقاصد کی خواہش اور انسانیت کا درد و جذبہ خدمت ختم ہوچکا ہے۔ بزبان شاعر:
جس نے سورج کی شعاؤں کو گرفتار کیا زندگی کی شب تاریک کو سحر کرنہ سکا ڈھونڈنے والا ستاروں کی گذرگاہوں کا اپنی افکار کی دنیا میں سفر کرنہ سکا
اسلام ہی مسیحا حقیقی ہے: قدیم مذاہب زندگی سے کٹ چکے ہیں۔تا ابد اگر کوئی دین انسانوں کی خدمت کرسکتاہے تو وہ صرف اسلام ہے کہ اس کو چار اعتبار سے سابقہ ادیان و مذاہب پر فوقیت و امتیاز حاصل ہے۔(1)امت مسلمہ کے پاس اللہ کی محفوظ ترین کتاب ہدایت قرآن مجید موجود ہے جس میں ہدایت کے واضح اصول بیان ہوچکے ہیں۔(2)سنت نبویۖ:حضور پرنور، احمد مجتبیٰۖ کی سیرت طیبہ موجودہے جس کو بطور نمونہ اختیار کرنے کا حکم قرآن نے دیا ہے(3)اسلامی شریعت کا ذخیرہ جو حضورۖ نے چھوڑا احادیث کی صورت میں اس کو صحابہ و تابعین اور اسلاف و اخلاف نے محفوظ ہاتھوں کے ذریعہ ہم تک پہنچا دیا ہے۔(4)مسلمانان عالم میں آج بھی دین متین کے ساتھ والہانہ محبت و عقیدت اور مانوسیت موجود ہے کہ اس کو عمل میں لانے اور اس کی تبلیغ و اشاعت کا جذبہ اور اس کی تاثیر کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔
خیر امت:آخر میں حضرت ربعی ابن عامر کا یہ قول فیصل نقل کرکے بات کو ختم کرتاہوں کہ انہوں نے پراگندہ حالت میں حضرت سعد بن ابی وقاص کے حکم پر سپہ سالارفرس رستم کے سوال کہ تمہیں کونسی بات ہمارے ملک تک لے کر آئی ہے کہ آیا تم مال و متاع کے خواہش مند ہو یا پھر حکومت حاصل کرنے کے؟تو آپ نے جو جواب دیا وہ تاقیامت تک دنیا بھر کے انسانوں پر اسلام کی دعوت کو غالب کرنے کیلئے کافی ہے کہ ”ہمیں اللہ نے بھیجا ہے لوگوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر ایک خداواحد کی بندگی میں لائیں اور دنیا کی تنگی سے نکال کر دنیا کی وسعت کی طرف نکالیں اور مذاہب کے ظلم و جور سے نکال کر اسلام کے عدل و انصاف کی طرف لے کر آئیں”اسی لیے ہم کہتے ہیں خیر و بھلائی کے کاموں کا رجحان پیدا کرنا انبیاء کا کام تھا۔آج بھی زندگی کے دھارے کی رہنمائی مذہب ہی کرسکتاہے مادی ترقی و آزادی کسی طور پر بنی نوع انسان کو راحت و سکون فراہم نہیں کر سکتی۔
Atiq ur Rehman
تحریر : عتیق الرحمن (اسلام آباد) 0313-5265617 atiqurrehman001@gmail.com