تحریر : محمد عبداللہ پاکستان داخلی اور خارجی طور پرایک آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ جس کی اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسیاں ہیں۔دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان بھی اپنی تعمیر و ترقی کے لیے مختلف داخلہ و خارجہ پالیسیز ترتیب دیتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان دوسرے ممالک کے ساتھ درست اور پرامن تعلقات کا خواہاں بھی ہے اور دنیا کی اجتماعی تعمیر و ترقی کے لیے صف اول میں کردار کا حامل بھی۔اس بات کے اندر کوئی شک نہیں کہ پوری دنیا اس وقت سیکیورٹی مسائل سے دوچار ہے۔ دہشت گردی کے جال نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور دنیا اس دہشت گردی کے خلاف مسلسل جنگ لڑنے میں مصروف عمل ہے۔ دہشت گردی کی اس لپیٹ سے براہ راست متاثر ہونے والوں اور سب سے آگے بڑھ کر اس جنگ کامقابلہ کرنے والوں میں ایک نام پاکستان کا بھی ہے۔اس بات کا اعتراف دنیا کے سبھی دیگر ممالک کرتے ہیں کہ دہشت گردی کی اس جنگ میں پاکستان نے بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں۔حالانکہ یہ جنگ ہماری تھی ہی نہیں پاکستان پر مسلط کردی گئی اور پاکستان مسلسل سولہ سترہ سال سے براہ راست یہ جنگ لڑ رہا ہے۔
اگر ہم تھوڑا سا ماضی میں جاکر دیکھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ کس طرح دہشت گردی کی اس اندھی جنگ میں پاکستان کو دھکیل دیا گیا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورا پاکستان آگ اور خون کی لپیٹ میں آگیا۔ پاکستان کا کوئی بھی شہر اور علاقہ محفوظ نہیں تھا۔انسانیت کے سفاک دشمن جہاں چاہتے دھماکہ کرتے، جیکٹیں پھاڑتے،اندھا دھند گولیاں چلاتے اور تڑپتے لاشوں کو چھوڑ کر کوئی نیا ٹارگٹ منتخب نکل کھڑے ہوتے۔ایک طرف پاکستان کے اندر ان دہشت گردوں میں خوف و ہراس پھیلایا ہوا تھا دوسری طرف ہماری سرحدیں بھی محفوظ نہیں تھیں۔ مشرقی سرحد پر بھارت مسلسل اشتعال انگیز فائرنگ میں مصروف تھا تو مغربی سرحد کے پار سے سلالہ چیک پوسٹ جیسے حملوں اور ڈرون حملوں کا ایک سلسلہ تھا جو جاری تھا۔امریکہ اپنے بھائی بند بھارت کے ساتھ مل کر اپنے فرنٹ لائن اتحادی پاکستان کو بقاء اور سالمیت کے مسائل سے دوچار کرنے پر تلا ہوا تھا۔ دوسری طرف بھارت کی ایماء پر دنیا بھر کے اطلاعات و نشریات کے ادارے پاکستان کو ایک ناکام ریاست ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔اس اندھی جنگ میں پاکستان نے پچاس ہزار سے زائد سیکیورٹی اور سویلینز کی قربانی دی، مالی نقصانات کا تخمینہ اس کے علاوہ ہے۔
اس چومکھی لڑائی میں پاکستان نے اپنے حواس قائم رکھے اور اپنے دوستوں اور دشمنوں میں تمیز کو برقرار رکھتے ہوئے اس جنگ کو لڑنے اور ارض پاک کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کرنے کا مشکل ترین فیصلہ کیا۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات جو دہشت گردوں کے لیے ایک مثالی جنت بن چکے تھے وہاں افواج پاکستان نے دنیا کے مشکل ترین آپریشنز کا سلسلہ شروع کیا اور الحمدللہ کامیابیاں حاصل کیں مگر ایک بہت بڑا مسئلہ یہ تھا کہ افواج پاکستان جہاں آپریشنز کرتی وہاں سے دہشت گرد نکل کر مغربی سرحد کو پار کرکے افغانستان میں جاکر بیٹھ جاتے جہاں ان کو ہمارے نام نہاد دوست امریکہ اور اس کے حواری ان کو پناہ کے ساتھ ساتھ تربیت اور اسلحہ فراہم کرتے۔ پاکستان کی مغربی سرحد کے ساتھ ساتھ افغانستان کے علاقوں میں قائم بھارتی قونصل خانوں کا پاکستان کی ان مشکلات بڑھانے میں بہت کردار رہا ہے۔انہی قونصل خانوں سے کلبھوشن جیسے بھارتی را کے ایجنٹ پاکستان میں دہشت گردی کے نیٹورکس کو کنٹرول کرتے تھے۔ مگر پھر بھی پاکستان مسلسل اس جنگ کے خلاف لڑتا چلا گیا اور بفضل اللہ تعالیٰ آج اس قابل ہوا ہے کہ دشمن کے سبھی مہروں کو شکست دیتا ہوا بہت تیزی سے امن کی طرف بڑھ رہا ہے۔پاکسان نے اپنے حصے کا کام کامیابی سے مکمل کرلیا ہے جبکہ دوسری طرف امریکہ اور اس کے ساتھ ناٹو کی افواج ابھی تک افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں قطعی طور پر ناکام رہی ہیں اور کیفیت یہ ہے کہ افغانستان کے پچاس فیصد سے بھی زائد حصے پر افغان طالبان عملاً قابض ہیں۔گزشتہ روز افغانستان کے دارالحکومت کابل کے کانٹی نینٹل ہوٹل میں ہونے والادہشت گردانہ حملہ امریکہ کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق امریکہ اپنی اس ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے تاکہ دہشت گردی کی اس جنگ میں پاکستان کی قربانیوں اور کامیابی کو دھندلایا جا سکے۔ امریکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حواس باختہ بیانات اس بات کی عکاسی کر رہے ہیں کہ امریکہ کو اپنے اس فرنٹ لائن اتحادی کی کامیابی ایک آنکھ نہیں بھائی۔ لہذاء امریکہ وبھارت پاکستان کی اس کامیابی کو ناکامی میں بدلنے کے لیے طرح طرح کے الزام پاکستان پر عائد کر رہے ہیں اور انہی الزامات کی آڑ میں پاکستان سے مضحکہ خیز مطالبے کیے جا رہے ہیں۔اس وقت امریکہ اور بھارت کا پاکستان سے سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین پر حقانی نیٹ ورک اور حافظ سعید کیخلاف کاروائی کرے۔ جبکہ پاکستان بارہا یہ باور کراچکا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کا کوئی بھی وجود یا ٹھکانہ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں نہیں ہے اور جہاں تک بات ہے حافظ سعید کی تو پاکستانی حکومت نے امریکی اور بھارتی ایماء پر ان کو مسلسل دس ماہ تک نظر بند رکھا مگر پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے عدم ثبوت کی بناء پر ان کو باعزت بری کردیا ہے۔ اس بات کو لے کر بھارت اور اس کی سفارش پر امریکہ بھی پراپیگنڈا کر رہے ہیں اور پاکستان سے حافظ سعید کی حوالگی یا اس کے خلاف سخت کاروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
حالانکہ پاکستان نے بارہا امریکہ اور انڈیا سے حافظ سعید کے خلاف دہشت گردی کی کسی بھی کاروائی میں ملوث ہونے کے ثبوت مانگے ہیں جو وہ دونوں پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ پھر بھی پاکستانی حکومت حافظ سعید اور ان کی جماعت پر پابندیاں اور نظربندیاں عائد کرتی رہتی ہے جو انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حافظ سعید پاکستان کے ایک معزز اور پرامن شہری ہیں جو پاکستان بھر میں خدمت انسانیت کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔ یہی حافظ سعید ہیں جنہوں نے آپریشن ضرب عضب کی سب سے پہلے حمایت کی تھی اور ان دہشت گردوں کو خوارج قرار دیا تھا کہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے جو معصوم شہریوں کی جان و مال سے کھیلتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق کا خیال رکھے اور اپنے فیصلے وآزادنہ طور پر کرے کیونکہ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے اور دنیا کو بھی پاکستان کی اس آزادی اور خودمختاری کا احترام کرنا چاہیے۔