لاہور (جیوڈیسک) سانحہ قصور میں ملوث ملزم عمران علی ارشد کو جائے واردات سے ملنے والی جیکٹ کے دو بٹنوں کی مدد سے شناخت کیا گیا۔ پولیس کو موصول ہونے والی سی سی ٹی وی فوٹیج میں بھی ملزم نے وہی جیکٹ پہن رکھی تھی جو اس کے گھر سے برآمد ہوئی تھی۔
پولیس نے قصور شہر میں 70 ہزار کے قریب لوگوں سے تفتیش کی لیکن اس سے بھی کیس میں کوئی خاطر خواہ مدد نہ ملی، بعد ازاں ان میں سے 1100 افراد کو نامزد کر کے ان کا ڈی این اے کروایا گیا۔ ان نتائج کی بنیاد پر ایسے افراد کی تلاش کا کام شروع کیا گیا جن کے ڈی این اے ملزم کے ڈی این اے سے مطابقت رکھتے تھے۔
فہرست ملنے کے بعد پولیس نے چھاپے مارنے کا عمل شروع کیا۔ جے آئی ٹی میں شامل ڈی پی او وہاڑی عمر سعید نے ملزم کے گھر کی تلاشی لی اور وہاں سے ملزم کی جیکٹ برآمد کر لی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم عمران علی ارشد نے گرفتاری کے وقت زیادہ مزاحمت نہیں کی اور تفتیش کے ابتدائی مرحلے میں ہی تمام جرائم کا اعتراف کر لیا۔ اس نے بتایا کہ ان نے پانچ لڑکیوں کو زیر تعمیر گھروں میں لے جا کر اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور اس کے بعد انہیں قتل کر دیا۔
ان کی لاشیں قتل کے دن ہی ٹھکانے لگا دیں جبکہ زینب کی لاش کو جلد بازی میں کوڑے کے ڈھیر پر پھینک کر فرار ہونا پڑا ۔ ملزم کا کہنا تھا کہ اس نے لڑکیوں کو اپنی شناخت چھپانے کے خوف سے قتل کیا۔