مولانا طاہر القادری پھر پاکستانی یاترا پر

Tahir-ul-Qadri

Tahir-ul-Qadri

تحریر : پروفیسر مظہر
کینیڈین مجمع باز اپنے غیرملکی آقاؤں کے حکم پرایک دفعہ پھر پاکستان یاترا پر ہیں۔ اب کی بار یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا بم ”سلطنتِ شریفیہ” کو تہس نہس کر دے گا کیونکہ چالیس اپوزیشن جماعتیں اپنی اپنی ڈفلیاں اُٹھائے مولانا کے ہمراہ تھیں۔ بزرجمہر 17 جنوری 2018ء کی احتجاجی ریلی پر نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ افواہ ساز فیکٹریوں کی چمنیاں گاڑھا سیاہ دھواں اُگل رہی تھیں۔ صحافتی آڑھت کی جابجا بکھری دُکانوں پر بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والوں کا جمِ غفیر اظہار کے سارے ضابطے، قرینے اور سلیقے بھلا کر ”شریفین” کو رگیدنے میں مصروف کہ ممدوحین کا حکم یہی تھا۔ فکری افلاس میں غرق بصارتوں اور بصیرتوں سے محروم اِن بزرجمہروں کے ورقِ خیال میں بُو تھی نہ باس۔ اُدھر بابا رحمت بھی عصائے عدل اُٹھائے ”اِن ایکشن”۔ نیب بھی مقدور بھر شریفین کے گرد گھیرا تنگ کیے ہوئے اور میاں خاندان احتساب عدالتوں کے دَر پر۔ ایسے میں یہی محسوس ہوتا تھاکہ اب کی بار جو بادِ سموم چلی ہے ،وہ بادِ نسیم وشمیم میں ڈھل نہ پائے گی لیکن

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دِل کا
جو چیرا تو اِک قطرۂ خوں نکلا

مال روڈ پر سجی سٹیج پر قائدین کا ہجوم لیکن عوام ندارد۔اگر سٹیج پر بیٹھے لگ بھگ 500 قائدین سو ،سو بندے بھی ساتھ لاتے تو مجمع پچاس ہزار سے بڑھ جاتا لیکن وہاں تو 10 ہزار لوگ بھی نہیں تھے اور خالی کرسیاں قائدین کا مُنہ چڑا رہی تھیں۔ ”سیاسی کزنز” کی موجودگی تو ضروری لیکن چشمِ فلک نے یہ عجب نظارہ دیکھا کہ آصف زرداری پارلیمنٹ پر حملہ کرنے والوں کے پہلو میں براجمان اور جماعت اسلامی کی نمائندگی کرتے ہوئے لیاقت بلوچ بھی ۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ حبِ علی نہیں بغض ِ معاویہ کا کرشمہ تھا کیونکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذکر اگر ہوا بھی تو سہواََ البتہ ”شریفین ہٹاؤ” کا جوش عروج پر۔ سرِعام کہا جا رہا تھا کہ لاٹھیاں اور ڈنڈے اُٹھاؤ، مارو مرجاؤ، جاتی اُمرا کی اینٹ سے اینٹ بجا دو۔ یوں محسوس ہوتا تھاکہ جیسے یہ کوئی سیاسی جلسہ نہیں بلکہ دَس بارہ ہزار بلوائی اکٹھے ہو گئے ہوں۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا یہ خانہ جنگی اور انارکی پھیلانے کا منصوبہ نہیں تھا؟۔ کیا بابا رحمت اِس انتظار میں تھے کہ پہلے خانہ جنگی ہو، پھر دیکھا جائے گا؟۔ اُنہوں نے بہت اچھا کیا جو حمزہ شہباز کے گھر کے سامنے سے رکاوٹیں ہٹوا دیں لیکن بصد ادب ایسی ہی رکاوٹیں ہٹانے کی سعی پر سانحہ ماڈل ٹاؤن ہوا تھا جس کا گلی گلی میں شور۔ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کی روحیں پکار پکار کے کہہ رہی ہیںکہ اُنہیں انصاف دلایا جائے اور ذمہ داروں کو قرارواقعی سزا ۔ اگر رکاوٹیں ہٹانا جرم نہیں(یقیناََ نہیں) تو پھر مجرم تو وہ ٹھہرے جو لاؤڈسپیکر پر نعرہ زَن تھے کہ شیخ الاسلام کے شیدائیو ! آگے بڑھو کہ یہی وقتِ شہادت ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا کیس ہائی کورٹ میں ہے۔ بابا رحمت سے بصد ادب سوال ہے کہ اگر کوئی کیس عدالت میں ہو تو اُس پر احتجاج کہاں تک جائز ہے؟۔ اگر فیصلے جلاؤ گھراؤ کے ذریعے سڑکوں پر ہی ہونے ہیں تو پھر عدل کے اونچے ایوانوں کی کیا ضرورت ہے۔ جہاں تک ہمیں علم ہے مال روڈ لاہور پر ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق جلسے جلوسوں پر پابندی ہے پھر عدلیہ کے اِس واضح حکم کی خلاف ورزی پر اَز خود نوٹس کیوں نہیں، عصائے عدل حرکت میں کیوں نہیں؟۔

پارلیمنٹ آئین ساز ادارہ ہے جس کی تشکیل عوام کے ووٹوں سے ہوتی ہے ۔ اسی لیے پارلیمنٹ کو اداروں کی ماں کا درجہ حاصل ہے۔ ججز اور جرنیل آئین کے تحفظ کی قسم اٹھاتے ہیںلیکن جب سرِعام اِس آئین ساز ادارے کو گالیاں بکی جاتی ہیں تو کسی کے کانوں تک جوں تک نہیں رینگتی، کوئی اَز خود نوٹس نہیں لیا جاتا اور کوئی ”شٹ اَپ کال” نہیں آتی۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ کسی بھی ادارے کو مطعون کرنے کی صورت میں قانونی کارروائی ہوتی ہے لیکن پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے کی کوئی سزا ہی مقرر نہیں۔ کپتان صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیاکہ وہ اِس سے بھی بڑی گالی دینا چاہتے تھے،وہ اپنا یہ شوق بھی پورا کر لیں لیکن اتنا یاد رہے کہ اِس گالی کا نشانہ اُن کی اپنی ذات بھی ہے کیونکہ تاحال وہ اِسی پارلیمنٹ کا حصہ ہیں۔ حیرت ہے کہ تحریکِ انصاف کا چیئرمین پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتا ہے اور وائس چیئرمین (شاہ محمود قریشی) اِسی پارلیمنٹ کواپنا ”سیاسی قبلہ” قرار دیتا ہے۔ عمران خاں اسی پارلیمنٹ کی سربراہی کی آرزو میں2002ء سے دھکے کھا رہے ہیںاور پچھلے ساڑھے چار سالوں سے تو وہ سڑکوں کی خاک چھان رہے ہیںلیکن گوہرِ مقصود ہے کہ ہاتھ ہی نہیں آتا اِس لیے ”لعنت” تو بنتی ہے۔کیونکہ عمران خاں کی عادت ہے کہ وہ ہر اُس شے پر لعنت بھیج دیتے ہیں جو ہزار کوشش کے باوجود اُن کی پہنچ سے دور رہتی ہے۔ویسے ہمارے خیال میں سب سے بڑی لعنت تو نرگسیت ،ہٹ دھرمی، ضِد اور ہوسِ اقتدار ہے۔

عام خیال تو یہی تھا کہ تحریکِ انصاف کے ارکان عمران خاں کے اِس بیان پر خاموشی اختیار کریں گے یا لاتعلقی کا اظہار لیکن نہ صرف یہ کہ ایسا نہیں ہوا بلکہ مراد سعید نے تو سو مرتبہ لعنت بھیج دی۔ جس پارلیمنٹ پرلعنت بھیجی گئی ،اُسی پارلیمنٹ سے تحریکِ انصاف کے ارکان قومی اسمبلی اب تک تنخواہوں کی مَد میں 20 کروڑ روپے سے زائد رقم وصول کر چکے ہیں۔ فضائی سفر کی رعایت اور واؤچرز کی مَد میں 12کروڑ روپے الگ ہیں۔ 126 روزہ دھرنے کے دِنوں کی غیرحاضریوں کی تنخواہیں اور مراعات وصول کرنے والے اِن ارکانِ اسمبلی میں اگر تھوڑی سی شرم ،تھوڑی سی غیرت بھی باقی ہے تو وہ عوام کے خون سے کشید کی گئی یہ رقم تو واپس کر دیں کیونکہ وہ تو پارلیمنٹ کو لعنتی قراردے چکے۔ عمران خاں کا معاملہ ذرا مختلف کہ وہ تو پارلیمنٹ کے منعقدہ 443 اجلاسوں میں سے صرف 20 میں شریک ہوئے لیکن تنخواہ اور مراعات باقاعدگی سے وصول کر رہے ہیں۔ ہمیں یقین کہ آمدہ عام انتخابات میں قوم اُن سے پائی پائی کا حساب لے گی۔

17 جنوری کے اِس اکٹھ کا سب سے زیادہ فائدہ اگر کسی جماعت کو ہوا تو وہ نواز لیگ تھی کہ اگست 2014ء کا موسم لوٹ آیا۔ پارلیمنٹ کی توہین کرنے پر قومی اسمبلی میں سوائے تحریکِ انصاف کے تمام سیاسی جماعتیں ایک صفحے پر تھیں۔ ہر کسی نے مقدور بھر مذمت کی اور مذمتی قرارداد بھی منظور ہوئی لیکن یہ کافی نہیں ۔اداروں کی ماں کو گالی دینے والوں کا کڑا احتساب ہونا چاہیے کیونکہ یہ براہِ راست عوام کی توہین بھی ہے۔ پارلیمنٹ عوام ہی کے ووٹوں سے معرضِ وجود میں آتی ہے اِس لیے اِس لعنت کی زد میں ووٹرز بھی آتے ہیں۔ اب دیکھنا ہوگا کہ عمران خاں ووٹرز کا سامنا کیسے کرتے ہیں۔

Prof Mazhar

Prof Mazhar

تحریر : پروفیسر مظہر