تحریر : ڈاکٹر سید احمد قادری یوم جمہوریہ کے موقع پر اس بات کا اعتراف کرنے میں یقینی طور پر ہمیں یہ فخر محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک جمہوری ملک کے شہری ہیں۔ دنیا کے بہت سارے ممالک میں، ہمارے ملک کے جمہوری طرز حکومت کو مثال کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے کہ بھارت ایک ایسا ملک ہے ،جہاں مختلف زبان، مذاہب،ذات، رسم و رواج کے چاہنے اور ماننے والے لوگ شیر و شکر کی طرح رہتے ہیں۔ صدیوں سے یہاں گنگا ، جمنی تہذیب و تمدن کی فضا رچی بسی ہے ۔دوستی، محبت، بھائی چارگی،یکجہتی ، مساوات ، اخوت یہاں کی شناخت ہے اور بھارت وہ ملک ہے ، جہاں جمہوریت قائم ہے ۔ جمہوریت کے لغوی معنیٰ لوگوں کی حکمرانی یعنی Rule of People کے ہیں اور آزادیٔ ہند کی حصولیابی کے بعد 26جنوری 1950 ء سے بابا صاحب امبیدکر، کے ذریعہ تیار کئے جانے والے آئین کے تحت اس ملک میں جمہوریت اپنی پوری مضبوطی اور استحکام کے ساتھ قائم ہے۔
لیکن افسوس کہ ہمارے ملک کی شاندار اور مثالی جمہوریت ، گزشتہ چند برسوں سے بری طرح پامال ہو رہی ہے ۔ ملک کی جمہوریت کو یہاں کی فرقہ پرست طاقتیں برباد کرنے کے در پئے ہیں۔ جس کے باعث یہاں کے سیکولر اور امن پسند لوگوں کی تشویش دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ جب سے مرکز میں آر ایس ایس کی سیاسی تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی بر سراقتدار آئی ہے، اسی وقت سے بہت ساری تشویشوں کے ساتھ ساتھ اس تشویش کا بھی اظہار کیا جا رہا تھا کہ یہ حکومت جس منصوبہ بند اور منظم طور پر اقتدار پر قابض ہوئی ہے ۔ وہ ضرور اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے ملک کے آئین میں تبدیلی لائے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ پہلے لوگ دبی دبی زبان سے اس خدشے کا اظہار کیا کررہے تھے ، لیکن آر ایس ایس نے اپنے کیڈرکے رگ وپئے میں اس طرح آئین کے خلاف زہر بھر ا ہے کہ کچھ لوگ ایسا سمجھنے پر مجبور ہیں کہ اس ملک کو ہندو راشٹر بننے یا بنانے میں با با صاحب بھیم راؤ امبیدکرکی رہنمائی میں تیار کیا جانے والا اور نافذ کیا جانے والا آئین ہی رکاوٹ بن رہاہے ، اس لئے جتنا جلد ہوسکے ، اسے تبدیل کر کے اپنے موافق بنایا جائے۔
آئین بدنے کی بات، سنگھ کے چھُٹ بھین نیتاؤں کی زبان سے اکثر سنی جا رہی تھیں ، لیکن ایک دن بی جے پی کے ایک وزیر مملکت اننت کمار ہیگڑے ،کی زبان پر دل کی بات زبان پر آ ہی گئی ۔یہ وزیر آئین کا حلف لے کرپارلیمنٹ میںداخل ہوئے اور وزارت کی کرسی پر براجمان ہوئے ، انھوںنے کرنا ٹک میںہونے والے اسمبلی انتخاب کے پیش نظر منافرت کا زہر گھولنے کے لئے بنگلور کے ایک عوامی جلسہ میں یہ بات کہی کہ دراصل بی جے پی کی حکومت ملک کا آئین بدلنے کے لئے ہی اقتدار میں آئی ہے ، اور مستقبل قریب میں اس پر عمل کیا جائے گا ۔جب ایک مرکزی حکومت کے ایک ذمّہ دار وزیر کی زبان سے ایسی خطرناک اور ملک مخالف بیان عوامی طور پر سامنے آیا ، تو لوگ چونک پڑے۔ اس بیان کی مخالفت میں خوب خوب احتجاج اور مظاہرے ہو ئے ۔ پارلیمنٹ سے سڑکوں تک پر لوگ اتر ے ۔ کانگریس پارٹی کے صدر راہل گاندھی نے بھی اپنے خدشے اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بابا صاحب امبیدکر ،نے ملک کو جو آئین دیا تھا ، اس پر آج خطرہ منڈلانے لگا ہے ۔ وزیر مملکت اننت کمار ہیگڑے کے اس متنازعہ اور غیر آئینی بیان پر شدید رد عمل سامنے آنے لگا اور اس تنازعہ پر کانگریس نے بہت اچھا سوال اٹھایا کہ وزیر ہیگڑے ،جس آئین کا حلف لے کر پارلیمنٹ میں داخل ہوئے ہیںاور وزیر بنے ہوئے ہیں ، جب انھیںاس پر اعتماد نہیں رہا اور وہ کھلم کھلا اسے بدلنے کی بات کر رہے ہیں ، تو ایسے وزیر کو وزارت میں رہنے کا کوئی حق نہیں ، انھیں فوری طور پرمستعفی ہو جانا چاہئے اور اگر یہ وزیر استعفیٰ نہیں دیتے ہیں تو انھیں وزارت سے فوری طور پر بر خواست کیا جانا چاہئے ۔ اپنے ان مطالبات کے ساتھ کانگریس پارٹی سمیت حزب مخالف پارٹیوں نے زبردست احتجاج کیا۔کانگریس نے دونوں ایوانوں کی کاروائی ہونے نہیں دی اور پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں بابائے قوم مہاتما گاندھی کے مجسمہ کے قریب ، آئین بچاو، ملک بچاو،آئین کی توہین برداشت نہیںکرے گا ملک،وزیر کو برخواست کرو،آئین پر حملہ بند کرو، ملک کو ٹوڑنا بند کرو وغیرہ جیسے نعروں کی تختیاں لئے ہوئے زبردست احتجاج اور مظاہرہ کیا۔ ان احتجاج اور مظاہروں کا اثر یہ دیکھنے کو ملا کہ لوک سبھا کی اسپیکر سمترا مہاجن نے اپنی پارٹی کے وزیر کے بے جا اور بہت ہی واضح طور پر آئین مخالف بیان پر ذومعنی انداز میں اننت کمار ہیگڑے سے لوک سبھا کے اندر معافی مانگنے کی گزارش ان الفاظ میں کی کہ ہمیں زندگی میں کبھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ صحیح ہے، لیکن پھر بھی لوگوں کو اس سے ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔ سمترا مہاجن کی اس معنی خیز گزارش پر وزیر ہیگڑے نے بظاہرسپر ڈالتے ہوئے وہی کہا ، جو عام طور کہا جاتا ہے کہ میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے ، اس سے کسی کو تکلیف پہنچی ہے ، تو میں معزرت خواہ ہیں۔
مرکزی وزیر مملکت اننت کمار ہیگڑے کے اس متنازعہ بیان کے بعد بظاہر آئین کی تبدیلی کے لئے دئے گئے بیان کا معاملہ سرد پڑ گیا ، ایسا نہیں ہوا، بلکہ اپنے اس ایجنڈے پر آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں بہت ہی منظم اور منصوبہ بند طور پر مسلسل کام کر رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کے اندر ہندوتو اور ملک کو ہندو راشٹر بنانے کے لئے موجودہ آئین میں کوئی گنجائش نہیں ، اس کے لئے ہر حال میں موجودہ آئین میں تبدیلی ناگزیر ہے ، جس کے لئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی اور حلیف پارٹیوں کی اکثریت ضروری ہے ۔ لیکن ابھی پارلیمنٹ کے ایک ایوان لوک سبھا میں تو انھیں اکثریت حاصل ہے ، راجیہ سبھا میں یہ اکثریت سے تھوڑے ہی فاصلے پر ہیں،جس کی وجہ سے یقینی کامیابی میں دشواری آ سکتی ہے ، جیسا کہ ابھی تلاق ثلاثہ کے بل پاس کرانے کے سلسلے میں دیکھنے کو ملا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں انھیں اکثریت ہو جاتی ہے تو یہ فرقہ پرست سیاسی جماعتیں ملک کے 80 فی صد سے زائد سیکولر لوگوں کی مخالفت کے باوجود موجودہ آئین میں تبدیلی کا بل لے آئیں اور ملک کو ہندو راشٹر بنانے کے اپنے عزم ،خواب اور ایجنڈہ کو پورا کر ینگے ۔ لیکن فی ا لحال ایسا ہوتا نہیں نظر آ رہا ہے ۔ اس لئے اب ان کی پوری توجہ2019 کے عام انتخابات پر ہے ، ہر سوچ، ہر فکر، ہر بیان اور ہر قدم ان لوگوں کا اسی طرف اٹھ رہا ہے ۔ اس سلسلے میں جسٹس راجندر سچر نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ابھی حال ہی میں کہا ہے کہ ہندو راشٹڑ کے خلاف ، سیکولر طبقات کا متحد ہونا بے حد ضروری ہے ۔ ہندو راشٹر بنانے کی کوشش ملک کی سالمیت کے لئے بڑا خطرہ ہے ۔ اس تشویش اور خوف سے عاری ملک کی فرقہ پرست جماعتیں اب بات بات پر ملک کے ہندو اکثریت کو یہ احساس کرانے کی کوشش کر رہے ہیںکہ اس وقت ہندو ستان میں ہندو مذہب خطرے میں ہے ، اٹھو آگے بڑھو، دھرم کی رکچھا کرو ۔ ایسے پوسٹر ابھی نانجدھام (مہاراشٹر) میں بہت نمایاں طور نظر آ رہے ہیں۔ ایسے بڑے بڑے بینر، پوسٹر ، ہینڈبلز، کتابیں اور کتابچے وغیرہ کی بہتات دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ ا س ملک میں اسّی فی صدآبادی ہندوؤں کی ہے صدر ، نائب صدر، وزیر اعظم ، بیشتر وزرأ ہندو ، پارلیمنٹ میں ہندوؤں کی اکثریت، کشمیر کو چھوڑ کر ملک کی تمام ریاستوں میں وزیر اعلیٰ ہندو، گورنر ہندو ، سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن، سی بی آئی، را، این آئی اور اس طرح جتنی بھی ایجینسیاں ہیں ، ہر جگہ ہندو ہی ہندو ہیں ، پھر یہ مذہب خطرہ میں کیسے آگیا ۔ یوں بھی اس وقت جمہوریت کے جو چار اہم ستون ہیں، ان چاروں ستون پر موجودہ حکومت کی گرفت مضبوط ہو چکی ہے ، یہ الگ بات ہے ان کی گرفت مضبوط ہونے سے جمہوریت کمزور پڑ گئی ہے۔
حکومت نے بہت چالاکی سے پہلے جمہوریت کے بہت اہم ستوں رابطہ عامّہ کو اپنا ہمنوا بنانے کے لئے ملک کے میڈیا کو دولت کے انبار پر بٹھا کر اس صحافتی گویائی اور سچائی کے اظہار کو سلب کر لیا ۔ ان کی دولت کے آگے میڈیا ، اپنے فرائض بھول ہی چکا اور یہ بھی بھول گیا کہ صحافت ، تجارت نہیں ہوتی بلکہ عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ عدلیہ کو جس طرح یرغمال بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ، اس کے متعلق دبی دبی زبان میں لوگ اظہار کر رہے تھے ، لیکن سپریم کورٹ کے چار معزز ججوں نے عوام کے سامنے آ کر جس طرح کی باتیں، بہت ہی دکھی من کے ساتھ رکھی ہیں ، ان باتوں نے تو ایک طوفان ہی لا دیا ہے ۔ یعنی اب یہی کہا جا سکتا ہے کہ اپنے عزم ، ارادے ، ایجنڈہ اور خواب کو پورا کرنے کے لئے سنگھ کے لوگ کسی حد تک جا سکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ملک کے اندر جو کچھ بھی ہو رہا ہے ، وہ بہر حال ملک کی سا لمیت کے لئے کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں ہے ۔ جس طرح معصوم لوگوں کے ذہن کو پراگندہ کیا جا رہا ہے ، وہ ملک کے مستقبل کے راستے میں کانٹے بو رہے ہیں ۔اب دیکھئے کہ اکھل بھارتیہ ہندو پرچار سنگھ ، وارانسی کی جانب سے ایک بہت ہی ” گوپنئے” (خفیہ) کتابچہ اتفاق سے کسی طرح سامنے آیا ہے ۔اس کتابچہ میں اس قدر زہر بھرا ہو ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد ایک عام انسان جوش و جنوں سے بھر جائے گا ۔ ایسی بہت ساری باتوں کے ساتھ اس کتابچہ کے صفحہ 14 پر موجود شمار نمبر 23 پر کی ایک مختصر تحریر ملاحظہ کریں ، اور دیکھیں کہ منافرت کی کیسی فضا تیار کی جا رہی ہے ۔ اس صفحہ پر لکھا ہے کہ ” ہم نے مسلمانوں کو کھدیڑنے کے لئے جس پرکار بابری مسجد گرائی ، سکھوں کو نینترت کرنے کے لئے آتنک وادی گھوشت کر کے ہم نے گھر گھر میں قتل عام کروایا ۔ انوسوچت جاتی/ جن جاتیوں، انئے پچھڑے ورگ ، او بی سی کے آرکچھن کو سپریم کورٹ کے ججوں کی مدد سے آرکچھن کو سماپت کروایا ۔ اب ہمارا ایک ہی اودیشئے ہے کی امبیدکر کے سنویدھان کو پورنتہ نشٹ کر کے دیش میں لوک تنتر کے استھان پر رام راجیہ کی استھاپنا ۔ بھارت کو ہندو راشٹر گھو شِت کرنے ، سنسکرت کو راشٹر بھاشا بنانے تتھا منو اسمرتی کے آدھار پر سنویدھان کی نئی رچنا کرنے ، سنسد میں امبیدکر کی مورتی کو نشٹ کر کے اس کے استھان پر منو کی وشال پرتیما استھاپِت کرنا …..” اسی کتابچہ کے صفحہ نمبر 2 پر ” ہندو دھرم سنسد دوارا انومودِت ، گوپنئے دستاویز” کے بعد لکھا گیا ہے کہ ”جئے شری رام ، ہندوتو کی پوتر نگری پریاگ میں ہم راشٹریہ سویم سنگھ، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، ایوم اکھل بھارتیہ برھمن مہا سبھا، ایک ساموھک ہندو دھرم سنسد کے روپ میں ایک جُٹ ہو کر یہ سنکلپ کرتے ہیں کہ بھویشیہ میں ہمارا ایک مت سنگٹھت پریاس ایوم لکچھ آرکچھن کی سماپتی، بھارتیہ سنویدھان کو نشٹ کرنے ، بودھ دھرم ، عیسائی دھرم ایوم مسلم دھرم کے بڑھتے پربھاؤ کو سماپت کرنے اور دلت آندولن میں پھوٹ ڈالنے اور انھیں وبھاجِت رکھنے کا ہوگا ۔ اس لکچھ کی پراپتی کے لئے نمن لِکھت استر۔شستر، دھرم ۔کرم، ادھرم تتھا کوٹ نیتی اپنائی جائے ۔ اس میں ہی اپنی بھکتی ، نسٹھا ایوم کرتبئے ہی ہمارا دھئے ہوگا ۔” اس تحریر کے بعد نمبر ایک سے سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ جس کے سلسلہ نمبر 23 کا ایک اقتباس درج بالا سطور میں، میں نے پیش کیا ہے ۔ اس کتابچہ کے آخر میں ایک نوٹ بھی دیا گیا ہے ، جس میں لکھا گیا ہے کہ ‘ ‘ یہ پورنتہ گوپنئے دستاویز ہے۔ کسی بھی حالت میں انوسوجِت جاتی / جن جاتی/ انئے پچھڑا ورگ او بی سی یا ہندو دھرم کے ورودھ کام کرنے والے ویکتی کے ہاتھوں میں نہیں لگنا چاہئے۔ ”
ایسے ملک مخالف ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لئے اور ہندو مذہب کو بدنام کرنے کے لئے کیسے کیسے ہتھکنڈے اپنا ئے جا رہے ہیں ، ایسے حالات پیدا کرنے والوں میں ایک زمانے میں ہمارے پروین توگڑیا جی بھی تھے ، لیکن آج وہ روتے پھر رہے ہیں ۔ دراصل ایسی ذہنیت کے لوگوں کو اپنے ملک سے محبت ہے اور نہ ہی برسہا برس سے چلی آ رہی یہاں کی گنگا جمنی تہذیب و تمدن سے ، جو ملک کی شان اور پہچان ہے ۔ ملک کے حالات کو بگاڑنے والوں کے سامنے جو ایجنڈہ ، ہندوتو کا ہے ، جس کے لئے وہ ملک کے آئین کی تبدیلی اور جمہوریت کو ختم کرنے کے خواہاں ہیں ، وہ دراصل شدید طور پر اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ ملک کی آزادی میں ان کا کوئی رول نہیں رہا ۔ اسی شرمندگی کو چھپانے کے لئے یہ لوگ اس طرح کے غیر جمہوری اور غیر آئینی حرکات کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ بی جے پی کی ”ہندوتو” پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے مغربی بنگال کے وزیر تعلیم پارتھو چٹرجی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ جو لوگ رام جی کے نام پر ہتھیاروں کی ریلی کریں اور منافرت پھیلائیں ، ان سے ہندوازم سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ پارتھو چٹرجی نے یہ بھی کہا کہ بی جے پی دراصل ہندوازم کی منفی تصویر یش کر رہی ہے ۔ ان کے پاس بنیادی اور تعمیری پروگرام ہے ہی نہیں ، بلکہ ان کی حرکتوں سے ہندوازم کی توہین ہو رہی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی تحریک آزادی میں ہندوتو حامیوں کی جد وجہد کی کوئی تاریخ نہیں ہے ۔ ملک کے مٹھی بھر فرقہ پرستوں کے ذریعہ مسلم ، دلت مخالف فضا جس منظم طور پر تیار کی جارہی ہے او ر ملک کے آئین کے تقدس کو جس طرح پامال کیا جارہا ہے ، وہ دن بدن خطرناک صورت حال اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسی صورت حال کی شکایت کس سے کیا جائے ۔ تم ہی قاتل ، تم ہی منصف ٹھرے؟ ہر طرف خوف و دہشت کا ماحول ہے ۔ اب دیکھئے کہ ابھی ابھی آر ایس ایس کا ایک بیان سامنے آیا ہے کہ 2019 ء میں سنگھ کی طاقت نظر آئے گی ، 15 فروری سے موہن بھاگوت اتر پردیش میں ڈیرہ ڈالیں گے اور میرٹھ میں دو لاکھ سویم سیوک اکٹھا ہونگے۔
ایسے ناگفتہ بہ حالات میں بس اب یہی کہا جا سکتا ہے کہ ملک کے سیکولر لوگ پوری طاقت سے سامنے آئیں اور ملک کو، ملک کے آئین اور اس کی جمہوریت کو فرقہ پرستوں سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں ۔ ملک اس وقت ایک ایسے دو راہے پر کھڑا ہے ، جہاں سے اسے صحیح راہ کی طرف موڑنے کی بہت سخت ضرورت ہے ۔ اگر فرقہ واریت اور منافرت کی راہ پر مُڑ گیا تو ہم کف افسوس ملتے رہ جائینگے اور اس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے جتنی قربانیاں دے کر ہمارے بزرگوں نے حاصل کیا ہے اور جمہوریت قائم کی ہے، یہ سب ختم ہو جائیگا ۔ اس لئے آج کے یوم جمہوریہ پر ہم یہی ارادہ کریں کہ ملک کی بقا اور اس کی سا لمیت کے لئے ہر قیمت پر ہم یہاں کی جمہوریت کی حفاظت کرینگے۔