انصاف کا حصول کیسے ممکن ہے

Justice

Justice

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
جدہ سے طائف اور الباحہ تک اڑھائی سو کلو میٹر فاصلے میں اکثر علاقہ پہاڑی اور غیر آبا دہے۔ ایک مرتبہ اس غیر آباد علاقے میں ایک سعودی کبھی بوڑھے اور کبھی لنگڑے معذور سفید ریش کا بھیس بدل کر رات کو سفر کرنے والی گاڑی والوں کو رات کے پچھلے پہر لوٹتا ۔ پستول دیکھا کر خواتین کے زیورات اتارتا اور مزاحمت کرنے والوں کو زخمی کر دیتا۔ ایک رات جدہ کے ایک شیخ جو کہ اپنی خواتین کے ساتھ جی ایم سی گاڑی میں الباحہ کے لئے سیاحتی سفر کو جا رہے تھے رات بارہ بجے وہ سفید ریش معذور بن کر روڈ پر آگیا سعودی آگے بڑھنے لگا مگر خواتین نے ترس کر کے یہ معذور ہے۔ گاڑی میں بیٹھا لیا۔ تھوڑا آگے جا کر اس نے پستول نکال لیا۔ داڑھی اتار لی کمر سیدھی کر لی گاڑی کھڑی کروا ئی اور خواتین کے زیورات اور نقدی لوٹ کر نو دو گیارہ ہو گیا۔ سعودی شیخ کے بڑا صدمہ پہنچا وہ خاموشی سے الباحہ شہر پہنچا ۔ ہوٹل میں کمرہ لے کر خواتین کو ٹھہرا کر ایک رسی لے کر واپس اپنی گاڑی بھگاتا۔ اسی راستے واپس چل پڑا پہلے حادثے کے ایک کلومیٹر دور وہ ڈاکو ایک نئے روپ میں نئے شکار کے لئے کھڑا تھاکہ اس سعودی نے اس کو سبھلنے سے پہلے ہی دبوچ لیا۔رسی سے جکڑا زیورات کی تھیلی برآمد کر کے الباحہ تھانے میں صبح صادق کو جا پہنچا ۔ جہاں پہلے بھی اس کی کئی حادثات کی روپورٹس درج تھیں۔

سعودی شیخ کو ایسی دلیری مجرم کو قابو کرنے پولیس کے حوالے کرنے پر مقامی ایس ایچ او نے مبارک دی اس کے زیورات نقدی واپس کئے اور ہٹے کٹے مجرم کو نظر بند کر دیا۔ایک ماہ تک تحقیق و تفتیش کر کے چالان عدالت میں پیش کر دیا۔ ساتھ ایک مکمل رپورٹ جس میں اس پڑھے لکھے دین دار ایس ایچ او نے سفارش کی کہ جس مسلمان کے ہاتھوں دوسرے مسلمان کی جان مال عزت محفوظ و مامون نہیں اسے اس دنیا میں رہنے جینے کا کوئی حق نہیں۔ قارئین پھر وہاں کی شرعی عدالت نے صرف تین ماہ میں عدالتی کاروائی مکمل کر کے اس مجرم کو جمعة المبارک کے دن بعد از صلاة شہر کے چوک میں جلاد کے حوالے اور اس دنیا سے رخصت کر دیا۔یہ ہوتا ہے عدل و انصاف جو عوام کی دہلیز پر دکھتا بھی ہے۔ اور نظر بھی آتا ہے۔ بدقسمتی سے جو ہمارے وطن میں دیکھائی دیتا ہے اور نہ ہمارے معاشرے میں عام شہری کو میسر ہے۔

محافظ اداروں پولیس آفیسروں اور شیطان کی آنت کی طرح لمبی عدالتی کاروائیوں کی نظر ہو کر متاثر اور انصاف کیت طالب شہریوں کی نہ دکھتا ہے نہ ملتا ہے۔ اور نہ نظر آتا ہے۔ سالوں ہمارے مجرموں ملزموں کو جیل میں نظر بند رکھ کر آخر کار رہائی کا پروانہ ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے۔ اس طرح بے گناہ ملزموں اور ان کے خاندانوں کی زندگیاں ہی نہیں انصاف کے طالب خاندان بھی تباہ و برباد ہو کر سفر عدم کو سدھارتے ہیں مگر قارئین حال ہی میں ہمارے موجودہ چیف جسٹس جناب نثار احمد نے ایک دو اپنی پریس کانفرنسوں میں بڑے پر خلوص درد مند لہجے میں جہاں معاشرے کے ان ناسوروں کا ذکر کیا وہاں اپنے ادارے کی خامیوں کوتائیوں او ر انصاف کے ہوتے خون کا بڑی فراخ دلی کا ذکر کیا۔ وہاں ملکی اداروں میں قاضیوں کی کمی قانون کی پیچیدگی وکیلوں کی چالبازی ۔ مدعیوں کی سستی گوائیوں کی چستی او ر شہریوں کے عدم تعاون کا بھی فراخدلانہ انداز میں ذکر کیا۔ یہ ان کی فراخدلی ہے درد مندی ہے احساس ذمہ داری ہے۔

عام شہری کو ان کی ان سچی باتوں سے بڑا حوصلہ ملا ۔ امید بندی جو انہوں نے اپنے اداروں کے تمام ججز کی یہ حکم بھی صادر کیا کہ سالوں کے مقدمات مہینوں میں اور خصوصا تین مہینے میں مقدمات کو سمیٹنے نمٹانے اور متاثرین پاکستان کے شہریوں عدل و انصاف مہیا کرنے کا عہد کیا اور حکم دیا ۔ قارئین یہ وہ حقائق ہیں جن کی موجودگی میں ہمارے ملک کی زینبوں ، فاطمائوں ، عائشائوں کو اور انکے خاندانوں کو بروقت انصاف نہیں ملتا ۔ ہمارے ملکی قانون اور آئین میں اور نام نہاد ہماری جمہوریت بھی ایسے درندوں ، ظالموں لٹیروں دہشت گردوں کو فوری انجام تک پہنچانے میں کسی قدر رکاوٹ ہے۔ اگر ہم اپنے ملک میں اللہ او ر اللہ کے رسول کا قانون کم از کم شرعی سزائوں کو ہی انصاف کا حصول بنائے ۔ ناک کے بدلے ناک کان کے بدلے کان ہاتھ کے بدلے ہاتھ اور قتل کا قصاص چوکوں چوراہوں میں عملدرآمد کراتے ۔ جو کہ ہر مسلمان ملک مسلم معاشرے پر لاگو کرنا نافذ کرنا فرض عین ہے۔ تب آج ہماری یہ بے حسی بے بسی اور اقوام عالم میں بدنامی اور سب کی نہ ہوتی ۔ آج ہر ایرا غیرہ ہمیں دہشت گرد سٹیٹ کا طعنہ نہ دیتا۔ اور نہ ہی ہمارے ملک میں اسقدر جانوں کا ضیاء لوٹ مار کرپشن بدیانتی بدکرداری لا قانونیت ہوتی۔

سعودی مملکت کی طرح ہمارا وطن و معاشرہ بھی پر امن پر سکون اور عدل و انصاف کا گہوارہ ہوتا۔ فجو کہ آج ہمارے روشن خیال حکمرانوں آزاد خیال لبرل سیاستدانوں مخلوط اداروں اسلامی حدود و قیود سے آزاد نوجوان نسل کی مہربانیوں سے ابتری اور لا قانونیت کا شکار جنگل کا سا معاشرہ بنا ہوا ہے۔ ایسے میں ایک قصور کی زینب کے قاتل کو ہی نہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہر چور بدیانت بدکردار راشی اور دہشت گرد افراد کو شرعی سزائوں کی روشنی میں عبرت ناک انجام تک پہنچایا جائے۔ تب انشاء اللہ ہمارا خداداد پاکستان ایک مثالی اسلامی جمہوری امن کا گہوارہ ملک بن کر ابھر سکے گا یہی ہماری پہچان اور شناخت بھی ہے۔

Haji Zahid Hussain

Haji Zahid Hussain

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
ممبر آل پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ
hajizahid.palandri@gmail.com