تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی میں نے کار کا فرنٹ دروازہ کھولا اور سیٹ پر بیٹھ گیا کار میں پہلے سے میرا ملا قاتی پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ سیٹ پر بیٹھتے ہی میں نے موبائل سکرین پر پیغامات دیکھنے شروع کئے ‘اسی دوران رسمی فقرہ بولا جناب میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں۔ پیچھے بیٹھے شخص کی غم میں ڈوبی آواز آئی جناب میری مدد کو ئی نہیں کر سکتا جس جہنم میں جل رہا ہوں بیس کروڑ پاکستانی اِس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
میں عرصہ دراز سے موت کی تلا ش میں زندگی کی آخر ی سانسیں گن رہا ہو ں میں مو ت کی دہلیز پر ہوں میں اس لیے بالکل بھی تیار نہیں تھا مو بائل بند کیا تیزی سے گھو م کر پچھلی سیٹ کے ملا قاتی کو دیکھا لیکن پیچھے جو منظر تھا اُسے دیکھ کر مجھے لگاکسی نے میری سانس کی نالی پر ہاتھ رکھ دیا ہے یا چھت میرے اوپر آگری ہے میں حسب معمو ل آئے ہو ئے ملا قا تیوں سے مل رہا تھا کہ ایک جانا پہچانا چہرہ شفیق مسکراہٹ اور التجائیہ لہجے کے ساتھ میرے پا س آیا اور بولا سر میرا دوست امریکہ سے پاکستان آیا ہے وہ بہت پر یشان ہے آپ پلیز اُس کو مل لیں میں حسب معمو ل روٹین کا مسئلہ سمجھ کر کارمیں آکر بیٹھ گیا لیکن جب امریکہ پلٹ شخص بو لا اور میں نے پیچھے دیکھا تو مجھے لگا پچھلی سیٹ پر زندہ لا ش بے حس و حر کت بیٹھی ہے جس کی دھند لا ئی آنکھوں سے آنسوئوں کی لکیریں جا ری تھیں ساٹھ سال سے زائد عمرشخص جو ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا کھال نے اُس کی ہڈیوں کو سنبھا ل رکھا تھا اُس کے انگ انگ سے غم درد کرب اضطراب بے چینی بے قراری نشر ہو رہی تھی وہ سراپا ماتم تھا کو ئی جان لیوا غم اُس کے با طن تک سرایت کر گیا تھا وہ کسی لا علا ج مر ض کا شکا ر لگ رہا تھا اُس کا چہر ہ اورآنکھیں زندگی کے اثرات سے محروم تھیں زندگی اُس سے روٹھ چکی تھی وہ غم کی امر بیل میں جکڑ انظر آرہا تھا میں روزانہ سینکڑوں لوگوں سے ملتا ہوں صحت مند بیمار نوجوان بو ڑھے لیکن ایسا زندگی سے مبرا چہرہ پہلی باردیکھ رہا تھا اُس کے کپڑوں سے لگ رہا تھا کہ وہ امیر آدمی ہے لیکن حالات اُس کو اس نہج پر لے آئے تھے جہاں روپیہ پیسہ اُس کے لیے پانی بن چکا تھا جہاں زندگی موت سے بد تر بن چکی تھی۔ میں اُسے دیکھنے کے بعد شدید جھٹکے سے اب آہستہ آہستہ نارمل ہو رہا تھا۔
حیرت اورخو ف کے اثرات سے میں نکل رہا تھا اب مجھے اُ س پر تر س آرہا تھا میرا فطری جذبہ مُجھ پر غالب آرہا تھا کہ کس طرح اِس زندہ لا ش کو زندگی کی طر ف لایا جا سکے اِس کے غم کا مداوا کس طرح ہو گا اِس کے چہرے کی زردی سر خی میں کیسے تبدیل ہو گی اِس کے بے جان جسم میں زندگی کی حرارت کیسے جاگے گی اِس کے اندر غم کے جو آتش فشاں پھٹ رہے تھے انہیں کس طرح ٹھنڈا کیا جا سکے غم جان لیوا امر بیل کو کس طرح اِس کے وجود سے الگ کیا جا ئے ‘میں دنیا جہاں سے بے خبر شفیق نظروں سے اُس کی طرف دیکھ رہا تھا وہ کا فی دیر تک ہچکیاں لے کر روتا رہا میں نے جان بو جھ کر اُسے رونے کا مو قع دیا غم کی شدت سے اُس کے جسم پر لر زا طاری تھا بیما ری ما تم کدہ بنی ہو ئی تھی جس کے غم میں لپٹا ایک بو ڑھا شخص زارو قطار رو رہا تھا کا فی دیر رونے کے بعد پانی پینے کے بعد جب وہ کچھ نا رمل ہوا تو بو لا پروفیسر صاحب کیا اسلام میں خو د کشی کی بالکل بھی گنجا ئش نہیں ہے کو ئی ایسا طریقہ یا وظیفہ نہیں ہے کہ میں پڑھوں اور مو ت کے اندھے غا رمیں اُتر کر دنیا کے تمام غموں سے آزاد ہو جائوں یا آپ میری موت کے لیے ہا تھ اٹھا ئیں میرے غمو ں اور کرب کا ایک ہی علا ج ہے وہ ہے مو ت لیکن موت مجھے مل نہیں رہی میرے پاس روزانہ سینکڑوں لو گ زندگی کی بقا اور خو شیوں کے لیے آتے ہیں زندگی کی بقا اور خو شیوں کے حصول کے لیے دن رات عبا دات اور سو سوجتن کرتے ہیں لیکن یہ انو کھا شخص تھا جو مو ت کی تلا ش میں میرے سامنے جھو لی پھیلا ئے بیٹھا تھا۔
میرے شفیق لہجے اور حو صلہ دینے پر اُس نے حال غم اِس طرح سنا یا جناب 35سال پہلے جب میں 25سال کا نوجوان تھا طا قت جوانی زندگی میری رگوں میں نشہ بن کر دوڑتی تھی میں کھا تے پیتے گھرانے کا چشم و چراغ تھا دولت اور اثر و رسوخ کے بل بو تے پر دما غ خراب تھا جو دل میں آتا کر دیتا میں اور میرا ایک دوست اچھا ئی برائی کی تمیز سے محروم تھے طا قت اقتداراور جوانی کے نشے میں دھت دوسرے انسانوں کو کیڑے مکو ڑے سمجھتے تھے دوسروں پر اپنا حکم چلانا اگر کسی نے بات نہ ماننی یا گستا خی کی کو شش کی تو اُسے کیڑے مکو ڑوں کی طرح مسل دینا ‘ہما را پسندیدہ ترین مشغلہ لڑکیوں سے چھیڑ خانی تھی روپے پیسے کی ریل پیل تھی بڑی مہنگی کا ریں اُس وقت میں بھی ہما رے پا س تھیں لڑکیوں کو حسین خواب دکھا کر اُنہیں اپنے جال میں پھنسا نا اُن کے جسموں سے کھیلنا اور پھر جی بھر جا نے پراُنہیں چھو ڑ کر دوسری لڑکیوں کی طرف بڑھ جا نا لڑکیوں سے خطوط لکھوانا اُن کے ساتھ قابل اعتراض تصوریریں بنانا پھر اُن کو بعد میں بلیک میل کر نا کئی شریف لڑکیوں اوراُن کے ماں باپ نے ہما ری منتیں کیں ہا تھ جو ڑے پا ئوں پکڑے لیکن ہم جنسی درندوں کی طرح معا شرے کو پا مال کر نے پر لگے ہو ئے تھے اِس مکروہ دھندے میں ہما رے کچھ اور دوست بھی شامل تھے اِسی دوران میرے دوست کو ایک نیک لڑکی جو نقا ب کر تی تھی پسند آگئی اِس نے اُس کو گلی میں جا تے ہو ئے چھیڑا اُس نے بہت بد تمیزی کی اور گا لیاں دیں اب میرے دوست کی عزت بے عزتی کا مسئلہ بن گیا اب وہ روزانہ اُس کا پیچھا کر تا اُسے تنگ کر تا لیکن لڑکی ہر بار اُس کی بے عزتی کر دیتی جیسے لڑکی انکا ر کر تی ویسے ہی ہما رے دوست کے اندر جھو ٹی محبت کی آگ اور جلتی اور چند دنوں بعد ہی وہ لڑکی ہما رے دوست کی ضد بن گئی۔
دوستوں نے ہما رے دوست کا مزاق اڑا نا شروع کر دیا اب اُس نے مجھے ساتھ ملا یا کہ اُس لڑکی کو اغوا کر کے اُس کی تصویریں اورریکا رڈ نگ کر کے اُسے محلے اور شہر میں ذلیل ورسوا کیا جا ئے تا کہ وہ کسی کو منہ دکھا نے کے قابل نہ ہو آخر مو قع ملنے پر ہم نے اُس نیک لڑکی کو اغوا کر لیا اور دوست کے ڈیرے پر لے گئے اُ س نیک پا کیزہ لڑکی کے ساتھ درندوں جیسا سلو ک کیا تصویریں ریکارڈنگ کر کے اُسے چھو ڑ دیا لیکن وہ نیک لڑکی ذلت غم برداشت نہ کر سکی اُ سنے خو د کشی کر کے تما م غموں سے جان چھڑا لی اغوا کا مقدمہ ہم پر بنا لڑکی کے چند با اثر رشتہ دار وں نے ہما رے گر د جب قانون کا شکنجہ کسا تو ہم دونوں امریکہ بھا گ گئے امریکہ آنے کے بعد ہم لوگوں نے یہاں پر شادیاں کیں اور رہنے لگے۔
میرے دوست کے ہاں جب کالے بچے کی پیدا ئش ہو ئی تو اُس کی بیوی مان گئی کہ اُس کے تعلقات ایک کا لے حبشی کے ساتھ ہیں لڑا ئی بڑھی تو اُس کی بیوی اُسے چھو ڑ کر کا لے کے پاس چلی گئی میرے دوست سے غم برداشت نہ ہوا شرا ب پی پی کر مر گیا میری سزا اُس وقت شروع ہو ئی جب میری دونوں بیٹیاں جوان ہو ئیں اور بیٹا تو ہم جنس پرستوں کے گینگ میں شامل ہو کر گھر چھو ڑ گیا میری ایک بیٹی نے بغیر شادی کے کا لے حبشی کے ساتھ جبکہ دوسری نے یہو دی کے ساتھ رہنا شروع کر دیا اب میری دونوں بیٹیوں کے دو دو نا جا ئز بچے ہیں یہ شادی کے بغیر اپنے خا وندوں کے ساتھ رہتی ہیں میں نے روکنے کی بہت کو شش کی لیکن عدالت نے مجھے ہی گنا ہ گا ر ٹھہرایا پھر میری بیوی ہندو کے ساتھ بھاگ گئی اب میری بیٹیاں میرے سامنے حرام بچوں کے ساتھ رہتی ہیں میں اُنہیں روک نہیں پا یا میری جوانی کی حرام زدگیوں کی سزا قدرت مجھے دے رہی ہے یہ غم میرے وجود کو دیمک کی طرح کھا تا ہے حالیہ قصو ر میں بچی زینب پر ہو نے والے ظلم کے بعد میں اقرار کر تا ہوں کہ جوانی کے نشے میں دھت انسان اگر کسی کی بیٹی کو اغوا کر تا ہے تو قدرت اُس کا بدلہ دنیا میں ہی دیتی ہے اب میں بے جان لا شے کی طرح زندگی گزار رہا ہوں مو ت کی دہلیز پر سر رکھا ہوا ہے لیکن مو ت اپنا دروازہ نہیں کھو ل رہی میں دن رات جہنم میں جھلس رہا ہوں میرے گنا ہ اتنے زیا دہ ہیں کہ معافی کے سارے دروازے بند ہو چکے ہیں پھر اُس نے دھاڑیں ما ر کر رونا شروع کر دیا اور میں کا ر کا دروازہ کھو ل کر با ہر چلا گیا۔