تحریر : شیخ خالد زاہد ہر کوئی اپنی بات ، اپنا نظریہ ، اپنا فلسفہ اور اپنی منطق منوانا چاہتا ہے۔ منوانے والوں کے طریقے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ یہ منوانے کا سلسلہ ہمارے بچپن میں ہمارے گھر سے شروع ہوتا ہے ،مدرسہ، اسکول ، کالج ، یونیورسٹی سے ہوتا ہوا ہمارے دفتر اور واپس ہمارے گھر تک ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے یہاں تک کے قبر میں پہنچنے کا وقت آن جھپٹتاہے۔ یہ نسلِ آدم کی ارتقا ء سے چلا آرہا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ علم، تجربہ اور ذہانت؛ منوانے والے کی میراث تصور کی جاتی ہے جبکہ ہم اپنے چھوٹوں کو ڈرا کر دھمکا کر کچھ بھی منوالیتے ہیں جیسے ہمارے بڑوں نے ہم سے منوایا ہوتاہے۔ سیاست و معاشرت کچھ الگ الگ سمجھانا چاہتے ہیں ۔ دورے جدید کی رعنائیوں میں میڈیا نے خوب چار چاند لگائے ہیں اور منوانے کی پوری کی پوری ذمہ داری اٹھانے کی بھرپور کوشش میں مصروف عمل ہے جبکہ یہ کچھ بہت ہی الگ سمجھانے پر کمربستہ ہے ۔ اب بھٹکے ہوئے بلکہ اتنے سمجھانے والوں سے زچ ہوئے لوگوں کی کیا کیفیا ت ہونگی، جنہیں سمجھنا مجھ سمیت کسی کیلئے بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے کیونکہ ہم بھی اسی گلے سڑے اور بدبو دار معاشرے کا حصہ ہیں۔ کبھی وہ زمانے تھے جب لوگوں کی اپنی سوچ ہوتی تھی اور اس سوچ کی بنیاد پر دنیا انہیں جانتی تھی ۔ آج لفظوں کا شور ہے اور منوانے والوں کہ ہاتھوں میں ڈھول ہیں ۔ امریکہ پوری دینا پر اپنی سوچ ہی نہیں اپنی طرز معاشرت بھی مسلط کرنا چاہتا ہے اور اس کے لئے اس نے ایسے عالمی قوانین بنا دئیے ہیں جنہیں یہ کہا جاتا ہے کہ قانون خود قاتل ہوا چاہتا ہے۔
یہ تو سب خوب سمجھتے ہیں کہ منوانے کا قانون سے گہرا تعلق ہے۔ قانون کا کام جرم کی روک تھام ہی نہیں بلکہ معاشرے میں ایک ایسی فضاء قائم کرنا ہے جس سے عوام میں قانون اور قانون کے محافظوں پر بھروسہ اور اعتماد قائم ہوسکے اور وہ معاشرے میں رونما ہونے والے جرائم کے سدباب کیلئے قانون کے شانہ بشانہ کام کرنے میں فخر محسوس کریں۔ یقیناًدینا کے ترقی و تہذیب یافتہ ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ قانون کا کام مجرم کو قرار واقع سزا دینے کے ہیں نا کہ اسے خطرناک مجرم قرار دے کر سڑک پر کھڑا کرکے گولیوں سے وہیں سزا دینے کے ہیں۔ کیا یہ ادارے کسی خوف جیسی بیماری میں مبتلا تو نہیں ہوگئے انکی یہ کیفیت دہشت گردی سے نمٹنے کی رات دن کی محنت کے نتیجے میں تو نہیں ہے بات غور طلب ہے۔ ہمارے ذہنوں میں اکثر ایسے سوالات اٹھتے ہیں کہ کیا ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اتنے مجبور اور لاچار ہیں کہ ایک قاتل کو گرفتار نہیں کرسکتے اور ہمارا قانون اتناکمزور ہے کہ اسکے کہ فیصلوں کو کوئی بھی کہیں بھی زیر بحث لاسکے جلسے اور جلوسوں میں ان فیصلوں کا مذاق بنا سکے۔ ایک تو قانون کی بالادستی ہی نہیں ہے اور رہی سہی قدر و منزلت قانون نافذ کرنے والوں نے پوری کر رکھی ہے۔
زیادہ تفصیل میں گئے بغیر کراچی میں ہونے والے ایک طویل بلکہ نا ختم ہونے والے آپریشن کا تجزیہ کریں ، ایک وقت تھا جب باقاعدہ گرفتاریاں ہوتی تھیں اور باقاعدہ پولیس مقابلے ہوتے تھے۔ یہاں تک کے گرفتاری کے وقت یہ بتا دیا جاتا تھا کہ لاش فلانی جگہ سے آکر لے جانا۔ اس وقت سے لیکر آج بھی کتنی ہی مائیں اپنے جگر کے ٹکڑوں کا راستہ دیکھ رہی ہیں اور کتنی ہی راستہ دیکھتے دیکھتے کھلی آنکھوں کے ساتھ اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں ہیں۔ قانون اتنا متحرک شائد ہی کبھی اس ملک میں رہا ہو جتنا کراچی میں رہا ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ قانون اپنا تسلط جتنا کراچی میں منواتا دیکھائی دیتا ہے اتنا تو شائد وزیرستان یا بلوچستان میں بھی نہیں دیکھائی دیا۔ بہت واضح ہے کہ کراچی پرہر کوئی اپنی مرضی تھوپنا چاہتا ہے اوریہ جو کراچی ہے جو کبھی پڑھے لکھے ، تہذیب و تمدن سے آراستہ اور باشعور لوگوں کا شہر تھا اس تھوپے جانے کو کسی کو اپنے اوپر مسلط کرنے کو تیاردیکھائی نہیں دیتا۔ ویسے ہم اس بات سے خود بھی متفق نہیں کہ کراچی کے شہری ایک پوشیدہ خوف اپنے دلوں میں چھپائے گھومتے ہیں، مگر ایسا محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ اب یہ خوف ایسے قانون کا ہے جو خود ہی قتل بھی کردیتا ہے یا پھر کسی ایسی سیاسی جماعتوں کا ہے جن سے کوئی وابسطگی ہو یا نا ہوں آپ کو وابسطہ ہی تصور کیا جائے گا۔
آج وہی سوشل میڈیا قانون کی آنکھیں بنا ہوا ہے جسے کہنے والے بہت برا بھلا کہتے سنائی دیتے ہیں، اب تو یہی سوشل میڈیا معاشرے کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر ارباب اختیار کی آنکھیں کھولنے کی کوششوں میں مصروف ہے، یہی سوشل میڈیا انصاف دلوانے کیلئے سڑکوں پر نکلا ہوا ہے اور ہم سب بھی کسی نا کسی طرح اسکا حصہ بنے ہوئے ہیں ۔ وقت وقت کی بات ہے آج جب ماورائے عدالت قتل کئے جا رہے ہیں تو ساری دنیا کی توجہ سوشل میڈیا کے ہی توسط سے کسی ایسی جگہ پہنچی جہاں سے اس کے سدِ باب کیلئے پروانے جاری ہوئے، ورنہ کراچی میں ایک وہ وقت تھا کہ سوچ کر بھی خوف آتا ہے۔ کوئی اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ جس کا جرم ہو اسے سزا ملنی چاہئے کیوں اسکے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا رہا ہے ۔ آج انتظار اور نقیب کا خون رنگ لا رہا ہے لیکن کیا ابھی کچھ وقت ہی گزرا ہے جب بن قاسم باغ کے سامنے ایک لڑکے کو دن دھاڑے گولی مار کر کیا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
شائد قانون خوف زدہ ہے اور ہر اس فرد کو جس سے قانون کو لگتا ہے کہ کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے اسے بغیر کسی وجہ کہ قتل کردیا جائے یقیناًجتنے بھی پولیس مقابلہ کرنے کے شوقین پولیس والے ہیں وہ اپنی وردی کا یا پھر ایسے قتل کرنے کا پرمٹ سمجھ بیٹھے ہیں ۔ کہیں بھی کسی کو بھی بغیر کسی وجہ کہ گولیوں سے بھون سکتے ہیں اور اس پر کسی بھی قسم کا الزام لگا سکتے ہیں۔ مذکورہ سطور میں کراچی والو ں کے خوف کی بات کی تھی مجھے امید ہے کہ اوپر لکھی ہوئی اس سطر کو ثابت کرنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔ انتظامیہ اور ارباب اختیار کو کسی بھی قسم کا قدم اٹھانے سے قبل ماضی میں کئے گئے اقدامات پر بھی ایک نظر ڈال لینی چاہئے ، پاکستان چار صوبوں میں تقسیم ضرور ہے مگر ہے تو ایک مملکتِ خداداد، کوئی بھی ایسا قدم جو کسی بھی صوبے یا شہر میں تفریق کا باعث بنے نہیں اٹھانا چاہئے بلکہ اٹھانے والوں کے پیروں پر چوٹ مارنی چاہیے درحقیقت ایسا کرنے والے ملک کی سالمیت پر حملہ کرتے ہیں، نفاق کا سبب بنتے ہیں اور سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہمارے ملک میں تھنک ٹینک ہیں تو وہ کیا کررہے ہیں کیا انہیں ایسے کسی بھی اقدام کو روکنے کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال نہیں کرنا چاہئے۔
ایک عام آدمی تو پہلے ہی کورٹ کچہری سے بھاگتا ہے اور اپنے علاقے کے بڑوں سے مل کر صلح صفائی اور معاملات حل کروانے کو ترجیح دیتا ہے مگر کیا اکیسویں صدی میں شہروں میں رہنے والوں کو بھی لاقانونیت کے دلدل میں مزید دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ابھی تو ہمارے ذہنوں سے تازہ ترین دو ایسے واقعات ہیں جن میں قانون نے قانون کا خوب تماشہ کرانے کیساتھ ساتھ عوام کے دلوں میں مزیدنفرت کا اضافہ کردیا ہے اور اس خوف کو اور تقویت دی ہے جس کا ذکر ہوتا چلا آرہا ہے ۔ قانون کے محافظوں کی یہ وردیاں کیا انہیں قانون کی بالادستی قائم کرنے کیلئے دی جاتی ہیں یا پھر یہ اسے بطور لائسنس ٹو کل کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ پولیس پر تو پہلے بھی کبھی اعتماد نہیں رہا مگر اب خوف آنے لگا ہے ۔ قانون کو سمجھانے کا کوئی اور طریقہ نہیں ملا تو قانون نے قتل کرنا شروع کردیا ہے اور اب بھلا کون سنے گی انکی۔ جبکہ قانون کے محافظ خود کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ اس قانون سے ہمیں انصاف کی کوئی امید نہیں تو میں اور آپ کون ہیں۔ چیف جسٹس صاحب کسی شجر ممنوعہ کی طرح بہت دور رہتے ہیں اب کس کو وہاں تک رسائی ہے اور وہ بندہ خدا بھی تو وقت کے فرعونوں میں گھرا ہوا ہے۔ سارے قابل احترام ادارے ایک دوسرے کو اپنے اختیارت سے تجاوز نا کرنے کا مشورہ بہت واشگاف لفظوں میں دیتے سنائی دیتے ہیں مگر کوئی ایک ادارہ بھی اپنی حدود میں رہنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ قانون خود ہی قاتل بن جائے گا تو شہر جنگل بن جائے گا۔