ماورائے عدالت قتل۔ انصاف کب ملے گا

Justice

Justice

تحریر : حلیم عادل شیخ
جب کوئی حکومتی ادارہ غیر قانونی انداز میں اقدام قتل کرے تو اسے ماورا عدالت قتل کہا جاتا ہے مگر جب تمام ثبوتوں کے باوجود کسی بے گناہ کو پھنسادیا جائے اور اصل مجرم کو رہا کردیا جائے تو پھر اسے کیا نام دیا جاسکتا ہے ؟کیا یہ بات بتانے کی ضرورت ہے؟ کہ جب ایک بے گناہ کو ناکردہ گناہوں کی سزامیں عمر بھر کے لیے جیلوں میں جھونک دیا جاتاہے تو اس کے پورے خاندان اور معصوم بچوں پر کیا گزرتی ہوگی ،؟ کراچی ابراہیم حیدر ی کے ایک مقامی اسکول میں جنسی واردات کی ایک کوشش میں جب ایک جنسی درندے کو رنگے ہاتھوں پکڑا گیاتو وہاں کی پرنسپل ،بچی کے والدین اور دیگر اسکول اسٹاف کے لوگ خود ہی گواہی دے رہے تھے کہ اس شخص کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے اس پر مشتعل افراد نے اس شخص کو مارا پیٹا میں خود اس واقع کی اطلاع پر پہنچا ماحول ایسا تھا کہ میں اگر اس شخص کو مشتعل عوام سے چھڑا کر پولیس کی وین میں نہ لیکر جاتا تویقینا عوام اس آدمی کو آگ لگادیتی کیونکہ ابراہیم حیدری میں اس قسم کے جنسی واقعات تسلسل کے ساتھ ہونا معمول بنا ہوا تھااس پر قصور میں زینب بچی کے ساتھ ہونے والا واقعہ بھی لوگوں کے زہنوں میں بری طرح سے سلگ رہا تھا،مگر مجھے میری نیکی کا یہ فائدہ ملا کہ اس شخص کے خلاف کارروائی تو کیا خاک ہونی تھی الٹا مجھ پر دومقدمات بنادیئے گئے۔

پولیس کی جانب سے پہلے سے موجود عوام کی جانب سے توڑ پھوڑ اوراس شخص کی مارپیٹ کا سارا الزام مجھ پر لگا کردیا گیا۔اس واقعہ کے بعد جب مقامی پولیس کی جانب سے نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت جعلی پولیس مقابلے کاپول کھلا تو تب بھی مجھے ہی نشانہ بنایا گیا کہ ایسے میں ایک ویڈیوانکاوئنٹر اسپیشلسٹ رائو انوار کی منظر عام پر آئی جس میں وہ میڈیا کو بتارہا ہے کہ میں نے حلیم عادل شیخ کیخلاف دومقدمات درج کیئے ہیں اس لیے سوشل میڈیا والے میرے خلاف پروپیگنڈہ کررہے ہیں،رائو انوار کی جانب سے گو کہ یہ ویڈیو مختصر سی ہے جس کا یقیناً پورا جواب لینا ضروری تھا اور یہ پوچھنا ضروری تھا کہ حلیم عادل شیخ پر آخر دومقدمات درج کیئے گئے ہیں تواس کا جرم کیا تھا ؟۔ اس لیے کہ وہ معصوم بچے اور بچیوں کو درندگی کا نشانہ بنانے والوں کے خلاف آوازاٹھارہاتھا،یہ پوچھناچاہیے تھا کہ ابراہیم حیدری میں ہونے والی درندگی کی کوشش کرنے والے کو کیوں رہا کردگیا اس شخص کے خلاف بچی کے والد اور والدہ اسکول کی پرنسپل سمیت پورا اسٹاف ہی اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ سب نے ہی اسے اس حرکت کو کرتے دیکھا اس کے باوجودنتیجہ کیا نکلا۔ ایسے پولیس افسران حساس ادارو ں کا نام لیکر انہیں بدنام کررہے ہیں جبکہ ہماری فورسز ہر محاز پر اپنی جانوں کا نزرانہ دیکر ہماری حفاظت کررہی ہے۔پاکستان میں قانون نافز کرنے والے اداروں پر بھی یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کا پتہ لگائیں اور انہیں قوم کے سامنے بے نقاب کریں جو لوگ اس طرح کی کارروائی کرتے ہیں یعنی جو منظرمیں کچھ اور پس منظر میں کچھ ہوتے ہیں۔کریمنل مائنڈ پولیٹیشن ایسے لوگوں سے بہت فائدہ اٹھاتے ہیں جو ایسے افسران یا اثرورسوخ والے لوگوں کو اپنے سیاسی وزاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

اس میں سب ہی سیاستدان یا بزنس میں ایسے نہیں ہوتے مگر جو لوگ ہوتے ہیں وہ ایسے افسران کو پہلے تو خوب پروان چڑھاتے ہیں اس کے بعد یہ افسران جہاں اپنے محافظوں کے زاتی و سیاسی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں وہاں یہ اپنا بھی ایک مخصوص ایجنڈا چلارہے ہوتے ہیں اور ایک گروپ بنا کر عوام سے لوٹ مار کرتے ہیں اور عوام کا تحفظ کرنے کی بجائے ان کی عزتوں سے کھلواڑ کرنا شروع کردیتے ہیں ان کو یہ احساس غالب رہتا ہے کہ کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتامثال کے طور پر رائو انوار کی ہی مثال لے لیتے ہیں غالباً ان کو چار مرتبہ ایسی ہی شکایتوں کے طفیل سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے حکم پرعہدوں سے ہٹایا جاتا رہا مگران ہی انہونی طاقتوں کی وجہ سے رائو انوار کی دوبارہ طعیناتیاں عمل میں آتی رہی اور اس کے خلاف تحقیقات کا عمل بھی کبھی یقینی نہ ہوسکا، بدلے میں جو بھی ان سیاسی طاقتوں کے لیے زمینوں کے قبضے اور ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرے تو ان کو پولیس مقابلوں میں یعنی ماورائے عدالت قتل کردیا جاتا ہے مثال کے طور پر کیااس قدر پولیس مقابلے ایک ہی شخص کے حصے میں آنے تھے ؟ایک رپورٹ کے مطابق رائو انوار کی جانب سے 7سالوں میں 745پولیس مقابلے کیے گئے192پولیس مقابلوں میں444ملزمان کو قتل کیا،لہذا ملک دشمنوں کا آلہ کاربنتے بنتے وہ خود بھی ایک ایسا مافیا بن چکا تھا،یقینا اس رپورٹ میں کچھ کمی بیشی ہوسکتی ہے مگر ایک انسانیت کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہوتا ہے۔

رائو انوار جس سے ملک کے بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے لوگ بھی ڈرنے لگے تھے جو نہ صرف ایسے لوگوں کو خوش رکھتا تھاجو انہیں تحفظ فراہم کرتے تھے بلکہ اس نے خود بھی اپنی کرائم کی ایسی سلطنت قائم کررکھی تھی جس میں چڑیا بھی پر نہیںمارسکتی تھی جو کردیا وہ ٹھیک اور جو کہہ دیا اسے ہی مان لووگرنہ انجام سب کو معلوم ہی ہے ۔یہ حال صرف سندھ یا کراچی تک ہی محدوو نہیں ہے بلکہ ملک کے دیگر صوبوں میں بھی اس طرح کے واقعات کی ایک طویل فہرست موجود ہے فرق یہ ہی ہوسکتا ہے کہ کچھ افسران کے جعلی پولیس مقابلے کم تو کسی کے زیادہ ہوتے ہیں مگر مقاصد میں رتی برابر بھی کوئی فرق نہیں ہوتا،سانحہ ماڈل میں جو کچھ ہوا وہ اس تحریر کی عمدہ مثال بن سکتی ہے جہاں ایسے خدمتگاروں نے صاحبان اقتداراور اختیار کو خوش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے ضائع جانے نہیں دیااس قسم کے واقعات میں ایسے افسران بالا قوم کو اور میڈیا کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ اس ملک کے تمام حساس ادارے اور شخصیات ان کے کاموں پران کی پشت پناہی کرتے ہیں یہ احساس دلانا اس لیے بھی ضروری ہوتا ہے کہ ملک کی حفاظت پر مامور لوگ اس ہی شش وپنج کا شکار رہیں کہ وہ ایسے لوگوں کے خلاف کریں تو کیا کریں ؟۔

اس طرح کے ہزاروں رائو انوار اس ملک میں موجود ہیں جو اس طرح کے رویئے کرنے کے عادی ہیں جنھیں اثرو رسوخ رکھنے والی شخصیات کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے جو سندھ سمیت پنجاب اور دیگر مقامات پر موجود ہیں جن کے کالے کرتوں کو روکنے کے لیے ان کی نشاندہی کے بعد ان پر زمین کو تنگ کرنا ضروری ہوگیاہے، ہم نقیب اللہ محسود کے ساتھ کراچی میں اگر انتظار کا کیس دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ اس کیس کی گھتیاںآخر کیوں نہیں سلجھنے کا نام لے رہی ہیں،معاملہ شاید اسقدر پیچیدہ نہیں مگر روزانہ نئے انکشافات لائے جاتے ہیں،میں سمجھتا ہوں کہ قصور کی زینب کواگر انصاف مل سکتا ہے تو پھر مشعال عاصمہ اور اسماء کے قاتلوں کو بھی پکڑنا چاہیے ، مگر ایسے مجرمان کی گرفتاریوں پر ارباب اختیار کی جانب سے تالیاں پیٹنے کی بجائے ان معاملات پر غور کرنا چاہئے کہ آئندہ معاشرے میں ایسے معاملات رونما نہ ہونے پائیں کیونکہ یہ لمحہ فکریہ ہے نہ کیا تالیاں پیٹنے کا وقت۔

Haleem Adil Sheikh

Haleem Adil Sheikh

تحریر : حلیم عادل شیخ سابق صوبائی وزیر ریلیف وکھیل
021.34302441,42
۔ E:Mail.haleemadilsheikh@gmail.com