تحریر : وقار النساء اگرچہ موروثی اثرات بچے کی شخصیت پر لازم اثر انداز ہوتے ہیں تاہم تربیت شخصیت کی تکمیل میں جزو لا نیفک ہے تعلیم و تربیت کی ابتدا ماں کی گود سے شروع ہو جاتی ہے جو وقت اور عمر کے ساتھ بڑھتی رہتی ہے جس کے لئے تعلیمی ادارے بنائے جاتے ہیں۔ تعلیمی ادارے علم کے ساتھ بچے کی شخصیت کو بنانے میں معاون ہوتے ہیں۔ تعلیم کے معنی ہدایت کے ہیں تربیت کی ابتدا پرورش سے شروع ہوتی ہے پھر تعلیم اس کو جلا بخشتی ہے گویا پرورش اور تعلیم مل کر تربیت سازی کرتے ہیں۔
تربیت میں تین عوامل کلیدی کردار ادا کرتے ہیں پہلا گھر دوسرامدرسہ او رتیسرا ماحول ۔جب یہ تینوں اچھے ہوں تو بچہ ان سے کماحقہ، مستفید ہو سکتا ہے اور اسکی کردار سازی ہوتی ہے۔نصابی کتب کچھ فائدہ نہیں دیتں جب تک ماحول ساز گار نہ ہو کیونکہعلم صرف کسی ڈگری یا سرٹیفکیٹ کا نام نہیں بلکہ علم و ہ ہے جو انسان کے دل میں اللہ کی خشیت اور تقوی پیدا کرے ۔ جو مذھبی تعلیم سے ممکن ہے اسی طرح تربیت کا مفہوم صرف بچے کی جسمانی تربیت کو ہی نہیں سمجھ لینا چاہیے بلکہ اس میں روحانی اور مذھبی تربیت بھی شامل ہے تاکہ وہ رشتوں کا تقدس اور انکی حدود وقیود کوسمجھ سکے ۔اسکی ذات کسی کے لئے فائدے کا باعث ہو ایسی اولاد ہی والدین کے لئے صدقہ جاریہ ہوتی ہے نیک اولاد قلب ونظر کی تسکین کا سبب بنتی ہے اور بگڑی اولاد کی بد اعمالیاں والدین کا چین وسکون غارت کر دیتی ہے۔
اس لئے بچوں کی تعلیم و تربیت کو نظر انداز کر کے اسے غفلت اور لا پرواہی کی نذر نہیں کیا جا سکتا اچھی تربیت یعنی پرورش اور تعلیم برے ماحول کے اثر کو زائل کر سکتی ہے جبکہ اچھے موروثی اوصاف بھی ناقص تربیت کے باعث فنا ہو جاتے ہیں۔اس لئے مناسب تربیت نہ ہو تو معاشی خوشحالی انہیں بے راہ رو کرسکتی اور عیاشی کے سبب معاشرتی برائیوں کے زہریلے ناگ کبھی بد فعلی کی صورت تو کبھی نشے کی لت میں گرفتار ہو کرانسانی قدروں کو نگلتے نظر آئے اس زہر نے رشتوں کی حرمت کو بھی پامال کر دیا ہے۔
اس صورتحال سے بچنے کے لئے بچیوں کی تربیت تو کرنی ہو گی تاکہ وہ اپنی عزت اور زندگی کو محفوظ رکھ سکیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ابن آدم کو تربیت کی ضرورت نہیں؟ حالانکہ معاشرے کو تباہ کرنے میں ایسے بگڑے ہوئے لوگوں کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔آج ملک میں ہر سمت پھیلا ہوا خوف وہراس ان کا ہی مرہون منت ہے۔ کہیں اس نے بنت حوا کو اپنی ہوس کا شکار کیا تو کبھی اس کا کاروبار کیا کہیں بیچا اور کہیں خریدا اورکبھی کوٹھے کی زینت بناکر اس کو دل بہلانے کا ذریعہ بنایا اور اس عیاشی کو اپنا حق سمجھ لیا۔کبھی قتل وغار ت گری سے ملک کا سکون تہ وبالاکرکے دہشت پھیلا دی جب ابن آدم شرکشی پر اتر آئے گھر کے کسی بڑے کو خاطر میں نہ لائے تو یہ والدین کے لئے لمحہ فکریہ ہے اسکی صحبت کن لوگوں سے ہے اور اسکے کیا معمولات ہیں جاننا ضروری ہے کہ کہیں پڑھائی کی آڑ میں کسی کی دنیا تو نہیں اجاڑ رہے۔
اپنے سکول کالج کے بجائے گرلز سکول کالج کے چکر کاٹنے والے راتوں کو گھر سے باہر اور پسماندہ علاقوں میں گلی محلے میں کھڑے ہو کر علاقے کی بچیوں کو اپنی غلیظ نظروں کا نشانہ بناتے ہیں اور پھر یہی عادت پختہ ہوکر ان سے بد فعلی کا ارتکاب کرواتی ہے اور اس جرم کو چھپانے کے لئے قتل جیسا سنگین جرم بھی کر گزرتے ہیں۔ ہر طبقے میں ان بگڑے نوجوانوں کے سدھرنے کے لئے ان کے گھر والے شادی تجویز کرتے ہیں انکا خیال ہوتا ہے کہ انکا لاڈلا شادی کے بعد ٹھیک ہو جائے گا۔
یہ انکی خام خیالی ہوتی ہے اور وہ حقیقت سے نظریں چرا کر اپنے اس فرزند ارجمند کے لئے کسی غریب کی بیٹی کی زندگی تباہ کر دیتے ہیں آخر کیوں بنت حوا کوانکے ظلم اور زیادتیوں کے لئے تختہ مشق بنایا جاتا ہے؟ گناہوں کی دلدل میں دھنسے یہ لوگ کبھی اس سے نکل نہیں پاتے ۔ ساری زندگی دوسروں کی ماں بہن بیٹی پر بری نظر رکھنے والے اپنی ازدواجی زندگی میں اپنے رشتوں کا تقدس بھی برقرار نہیں رکھ پاتے۔یہی لوگ معاشرے کا ناسور ہیں جن کے ھاتھوں انکی اپنی بہنیں اور بیٹیاں محفوظ نہیں۔ پہلے محرم رشتے نانا دادا چچا ماموں باپ بھائی کے پاس بھی بچیاں محفوظ سمجھی جاتی تھیں اور وہ رشتوں کے تقدس کی پاسداری کرتے تھے مگر آج بیٹی بہن اپنے گھر میں ان محرم رشتوں سے محفوظ نہیں خدارا ابن آدم کی تربیت کو پس پشت نہ ڈالیں۔
آج آپ کے بیٹے اور بھائی ہیں کل کسی کے خاوند اور باپ ہوں گے اور ہر دور میں یہ اپنی عادت سے مجبور ہو کر ہررشتے کو پامال کریں گے ۔نہ انکے شیطانی افعال سے ماں بہنیں بچ پائیں گی نہ ہی کل ان کی بیٹیاں ہو سکتا ہے سب کی اپنے گھروں میں توجہ اور تربیت کسی حد تک بنت حوا کو اسں خوف سے آزاد کر کے زندگی میں سکون کا باعث بن جائے اسکے کیا معمولات ہیں جاننا ضروری ہے کہ کہیں پڑھائی کی آڑ میں کسی کی دنیا تو نہیں اجاڑ رہے اپنے سکول کالج کے بجائے گرلز سکول کالج کے چکر کاٹنے والے راتوں کو گھر سے باہر اور پسماندہ علاقوں میں گلی محلے میں کھڑے ہو کر علاقے کی بچیوں کو اپنی غلیظ نظروں کا نشانہ بناتے ہیں اور پھر یہی عادت پختہ ہوکر ان سے بد فعلی کا ارتکاب کرواتی ہے اور اس جرم کو چھپانے کے لئے قتل جیسا سنگین جرم بھی کر گزرتے ہیں۔
ہر طبقے میں ان بگڑے نوجوانوں کے سدھرنے کے لئے ان کے گھر والے شادی تجویز کرتے ہیں انکا خیال ہوتا ہے کہ انکا لاڈلا شادی کے بعد ٹھیک ہو جائے گا ۔ یہ انکی خام خیالی ہوتی ہے اور وہ حقیقت سے نظریں چرا کر اپنے اس فرزند ارجمند کے لئے کسی غریب کی بیٹی کی زندگی تباہ کر دیتے ہیں آخر کیوں بنت حوا کوانکے ظلم اور زیادتیوں کے لئے تختہ مشق بنایا جاتا ہے؟ گناہوں کی دلدل میں دھنسے یہ لوگ کبھی اس سے نکل نہیں پاتے ۔ ساری زندگی دوسروں کی ماں بہن بیٹی پر بری نظر رکھنے والے اپنی ازدواجی زندگی میں اپنے رشتوں کا تقدس بھی برقرار نہیں رکھ پاتے۔یہی لوگ معاشرے کا ناسور ہیں جن کے ھاتھوں انکی اپنی بہنیں اور بیٹیاں محفوظ نہیں۔
Education
پہلے محرم رشتے نانا دادا چچا ماموں باپ بھائی کے پاس بھی بچیاں محفوظ سمجھی جاتی تھیں اور وہ رشتوں کے تقدس کی پاسداری کرتے تھے مگر آج بیٹی بہن اپنے گھر میں ان محرم رشتوں سے محفوظ نہیں خدارا ابن آدم کی تربیت کو پس پشت نہ ڈالیں ۔آج آپ کے بیٹے اور بھائی ہیں کل کسی کے خاوند اور باپ ہوں گے اور ہر دور میں یہ اپنی عادت سے مجبور ہو کر ہررشتے کو پامال کریں گے ۔نہ انکے شیطانی افعال سے ماں بہنیں بچ پائیں گی نہ ہی کل ان کی بیٹیاں ہو سکتا ہے سب کی اپنے گھروں میں توجہ اور تربیت کسی حد تک بنت حوا کو اسں خوف سے آزاد کر کے زندگی میں سکون کا باعث بن جائے۔