الحاق کشمیر سے یوم یکجہتی کشمیر تک

Kashmir Solidarity Day

Kashmir Solidarity Day

تحریر : محمد مظہر رشید چودھری
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلہ پرتین بڑی جنگیں لڑی جا چکی ہیں 1947 میں ریاستوں کے الحاق کے بارے میں بنایا گیا فارمولا جموں و کشمیر اور چند دیگر ریاستوں پر لاگو نہ ہوسکنے کا سب سے بڑا سبب انگریز اور ہندوں رہنمائوں کی مکاریاں تھیں وائسرائے ہندوستان لارڈ مائونٹ بیٹن ،نہرو اور مہاراجہ کشمیر کے گٹھ جوڑ نے جو غیر منصفانہ فیصلہ کیا اِس کا خمیازہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمان گزشتہ ستر سال سے بھُگت رہے ہیں مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر جبر ظلم وزیادتیوں کا لا متناہی سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے تقسیم ہند کے وقت یہ فیصلہ ہوا تھا کہ مسلم آبادی والے علاقے پاکستان اور ہندو آبادی والے اکثریتی علاقے بھارت میں شامل کیے جائیں گے اور ریاستیں دونوں ملکوں پاکستان اور بھارت سے الحاق کے فیصلہ میں آزاد ہونگی لیکن وائسرائے جو کہ برطانوی حکومت کا نمائندہ اور ہندوں کے لیے نرم گوشہ رکھتا تھا اس نے جموں و کشمیر کے مہاراجہ اور نہرو کے ساتھ ساز باز ہو کر جموں و کشمیر بھارت کی جھولی میں ڈال دیا جبکہ حقیقت میں وہاں مسلمانوں کی اکثریتی آبادی تھی اس بنیاد پر کشمیر کی وادی کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہونا چاہیے تھا لیکن غیر منصفانہ فیصلہ نے کشمیری مسلمانوں کے لیے آزادی کی تحریک شروع کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہ چھوڑا کشمیریوں کے ساتھ مظالم کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے 16 مارچ 1846 کو معاہدہ امرتسر ہوا گلاب سنگھ نے انگریز سے 75 لاکھ میں جموں و کشمیر اور ہزارہ ،گلگت بلتستان، کارگل اور لداخ کے علاقوں پر قبضہ جمایا مہاراجہ کشمیر نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردی 1846 کے بعد ڈوگرہ حکمرانوں کے ظلم و ستم کی وجہ سے مسلمان بالکل بے بس ہو چکے تھے کشمیر کی وادی پر گلاب سنگھ 1846 تا1857 ،رنبیر سنگھ 1857تا 1885 ،پرتاب سنگھ 1885تا1925 ،ہری سنگھ 1925تا1949 تک حکمران رہے تقسیم ہند کے وقت ڈوگرہ حکمرانوں کی خواہش تھی کہ ریاست کو بھارت کا حصہ بنایا جائے یا اس کی خود مختار حیثیت کو بحال رکھا جائے جبکہ وہاں کے مسلمانوں کا مطالبہ ریاست کو پاکستان کا حصہ بنانا تھا۔

آخر کار ڈوگرہ کے تاخیری حربے کامیاب رہے 26 اکتوبر 1947 کو مہاراجہ کشمیر نے بھارتی فوج کو مدد کے لیے پکارااور بھارت کے ساتھ الحاق کی درخواست بھی دے دی بھارت پہلے سے ہی کشمیر پر قبضہ کے لیے موقع کی تلاش میں تھا 27 اکتوبر 1947 کو بھارتی فوج کشمیر پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئی، سری نگر پر بھارتی قبضہ ہوگیا جبکہ آزاد کشمیر میں آزاد حکومت قائم ہوگئی یکم نومبر 1947 کو گلگت میں ڈوگرہ گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کر کے اسلامی جمہوریہ گلگت کی بنیاد رکھی گئی جبکہ بلتستان اور وادی گریز(تراگبل، قمری، کلشئی، منی مرگ) اور دیگر علاقوں میں 1948 تک جنگ ہوتی رہی 16 نومبر 1947 کو پاکستان نے اس پر کنٹرول حاصل کیا ،بھارت کی ہٹ دھرمی ہے کہ وہ 1947سے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو حق خودارادیت دینے سے انکاری ہے آج تک نوے ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے بھارتی درندوں نے دس ہزار سے زائد مسلمان خواتین کی عصمت دری کی ہزاروں نوجوانوں کو آزادی کی تحریک میں شمولیت کی بنا پر شہید اور جسمانی طور پر مفلوج کر دیا سینکڑوں بچے حسرت ویاس کی تصویر بنے ہوئے ہیں پانچ فروی کو ایسا کیا ہوا کہ گزشتہ ستائیس سال سے یہ دن پاکستان ،کشمیر سمیت دنیا بھر میں منایا جاتا ہے اِس روز حکومت پاکستان کی جانب سے تعطیل کا اعلان ہوتا ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ 1990کو جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد کی اپیل پر اُس وقت کے اپوزیشن لیڈر اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد نوازشریف نے اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے اپیل کی کہ جموں وکشمیر کے عوام کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کیا جائے گا لہذا پاکستان میں 5 فروری 1990ء کو کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ بھر پور طریقے سے کیا گیا ملک بھرخاص طور پر پنجاب میں زبردست ہڑتال ہوئی بھارت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ کشمیریوں کو آزادی رائے کا حق دے اورجہاد کشمیر میں کامیابی کے لئے مساجد اور بڑے بڑے اجتماعات میں دعائیں مانگیں گئیں اُس وقت کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد تشریف لے گئیں اور آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب بھی کیا پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے 5 فروری کو عام تعطیل کا اعلان کر کے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا،اُس دن سے ہر سال پانچ فروری کو کشمیریوں کو ہر ممکن اخلاقی تعاون کا یقین دلانے کے ساتھ ساتھ اس مسئلہ کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میںمکمل اخلاقی سپورٹ بھی کیا جاتا ہے۔

قارئین کرام ! کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لیے گزشتہ ستر سال سے کوششیں جاری ہیں جنوبی ایشیاء کے دو اہم پڑوسی ممالک پاکستان اور بھارت ہیںبھارت کو سمجھ جانا چاہیے کہ پاکستان ایک مسلمہ حقیقت ہے اور دونوں ملکوں کی عوام کی ترقی و خوشحالی کے لیے مسئلہ کشمیر کا فوری حل وقت کی ضرورت ہے پاکستان پہلا اسلامی ایٹمی طاقت رکھنے والا دنیا کا ملک ہے جسکا دفاع ناقابل تسخیر ہے پاکستانی فوج نے 22 اکتوبر 1947 تا1 جنوری 1949 اور1965اور کارگل کے محاذ پر دشمن کو ناک چنے چبوا دیے تھے اب بھارت کی سات لاکھ سے زائد فوج مقبوضہ وادی میں نہتے مسلمانوں کے ساتھ برسر پیکار ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ کا واحد حل وہاں کے رہنے والے مسلمانوں کو حق خود ارادیت دینا ہے وادی کشمیر کے مسلمان پاکستان سے والہانہ محبت اور الحاق چاہتے ہیں جس کا مظاہرہ پوری دنیادیکھتی اور جانتی ہے انشااللہ اب وہ دن دور نہیں جب ہزاروں کشمیری مسلمانوں کا خون رنگ لا ئے گا اورمقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو حق خودارادیت میں حائل رکاوٹیں ختم ہوجائیں گی اس کے لیے باون مسلمان ممالک کو متفقہ لائحہ عمل بنا کر اقوام متحدہ اور سپر طاقتوں کے سامنے ڈٹ جانا ہو گا تاکہ مقبوضہ کشمیر سمیت کسی بھی جگہ پر مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک نہ ہو اور زبردستی مسلمانوں کومحکوم نہ رکھا جا سکے۔

MUHAMMAD MAZHAR RASHEED

MUHAMMAD MAZHAR RASHEED

تحریر : محمد مظہر رشید چودھری
03336963372