پاس رہ کے بھی فاصلہ دیکھا ہم نے کیسا یہ ماجرا دیکھا پاس رہ کے بھی فاصلہ دیکھا اک دیا آج بھی سرِ مژِگاں جو جلایا تو نہ بجھا دیکھا راستوں کے غبار میں کس نے کب مسافر کوئی پڑا دیکھا جس محبت میں جیت چاہی تھی اُس میں نقشہ ہی ہار کا دیکھا غم کا اظہار یا مسرت ہو اُس کا لہجہ ہی کچھ جدا دیکھا ترکِ الفت کے بعد بھی تجھ سے جانے کیسا یہ سلسلہ دیکھا اب تلک آنکھ سے وہ اوجھل ہے عمر بھر جس کا رستہ دیکھا