تحریر : عقیل خان تعلیم انسان کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ تعلیم کے بغیر انسان ادھورا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق تعلیم کا حاصل کرنا ہر ایک پر لازم ہے۔تعلیم کے بغیر انسان ایسا ہے جیسے آنکھیں ہونے کے باوجود اندھا ہو۔ تعلیم اب کسی ایک گھر کی باندی نہیں رہی بلکہ یہ امیروں کے محلات سے نکل کر غریبوں کے جھونپڑوں تک پہنچ چکی ہے۔پچھلے کئی سالوں سے ہونے والے امتحانات کے نتائج پرنظر ڈالی جائے تو بورڈکی پہلی تین پوزیشنوں میں کسی ایک پوزیشن پر غریب کا بچہ ہوتا ہے۔ تعلیم کو گھر گھر پہنچانے کے لیے وفاق کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتیں بھی بھرپور ساتھ دے رہی ہیں۔ محکمہ تعلیم نے تعلیم کو عام کرنے کے لیے جہاں بہت سے احسن اقدام کیے ہیں ان میں کچھ اقدام ایسے بھی ہیں جن سے تعلیم حاصل کرنے والے کو فائدے کی بجائے نقصان پہنچ رہا ہے۔
سب سے پہلے تو ان کاذکر کروں گا جنہوں نے تعلیم دینے والوں کو ان کے اغراض و مقاصد سکھانے میں بھرپور مدد کی۔جن کی بدولت سکولوں کے اساتذہ کو اپنے فرائض منصبی صحیح معنوںمیں اداکرنے کا درس ملا۔ پنجاب حکومت نے محکمہ تعلیم میں ڈائریکٹریٹ آف سٹاف ڈویلپمنٹ (DSD)کے تحت سی پی ڈی کے نام سے کام شروع کیا ۔ ہر ضلع میں چار ٹیچر ایجوکیٹرز بھرتی کیے جن کی بھرتی کا عمل ہی اتنا شفاف اور اعلیٰ تھا کہ اس پر کوئی دوسری رائے نہیں۔ ریکروٹمنٹ کمیٹی میں پبلک سروس کمیشن، ایس اینڈ جی اے ڈی کے نمائندے اور سپیشل سیکرٹری سکول ایجوکیشن جیسے لوگ شامل تھے اور پھر ان کے ماتحت ڈسٹرکٹ ٹیچر ایجوکیٹرز بنائے گئے جو اپنے اپنے متعلقہ سکولوں کا معیار تعلیم چیک کرنے کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو موقع پر رہنمائی دیا کرتے تھے جس کی بدولت معیار تعلیم بہتر ہونا شروع ہوا۔ وہ اساتذہ جو سکول نہیں آتے تھے۔ کتابوں کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے وہ لیسن پلاننگ اور ٹیچر ڈائری بنانے لگے۔ انہی ٹیچر ایجوکیٹرزکی راہنمائی کی بدولت سکولوں کے اساتذہ کوبچوں کو پڑھانے میں دلچسپی بھی پیدا ہوئی۔ ایکٹیویٹی بیسڈ اور چائلڈ فرینڈلی ماحول سکولوں میں پیدا کیا گیا۔
میں نے اپنے عنوان کا نام تعلیم سے کھلواڑ کیوں رکھا ہے ؟ حکومت لوگوں کو مزید روزگار دینے کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن اس کے برعکس بے روزگاری اور تعلیمی انحطاط کی ابتداء انہی لوگوں سے کی ہے جن کو اب نہ صرف ان کے عہدوں سے فارغ کردیا بلکہ جو ان پر کروڑوں کا خرچہ کیا وہ سب بیکار کردیا۔ ان کے استعمال کے لیے خرید ی گئی کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیاں اور دیگر اثاثہ جات اب سکریپ بنتے جارہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے عدالت عالیہ نے مارچ 2017 میں ان ٹیچر ایجوکیٹرز کو ریگولر کرنے کا حکم دیا لیکن محکمہ نے مئی2017 میں عدالتی احکامات کو ہوا میں اڑاتے ہویء ان ٹیچر ایجوکیٹرزکو گھر کی راہ دکھا دی ۔حالانکہ عدالت کے فیصلے کی روشنی میں کئی اداروں کے ملازمین کو مستقل کر دیا گیا۔ یوں محکمہ تعلیم کے حکام بالا کی خصوصی محبت کی بدولت یہ لوگ اپنا حق مانگنے کے لیے عدلیہ اور وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ان کا قصور کیا تھا ؟ یہی نہ کہ انہوں نے ہر سکول میں معیار تعلیم کو بہتر کروایا ۔ کم وسائل میں سفر کے اخراجات اور ٹی اے ڈی اے کی عدم سہولت کے باوجود اساتذہ کی راہنمائی کی مگر پاکستان میںیہی دیکھا گیا ہے کہ جو بھی کوئی اچھا کام کرتا ہے اس کوباہر نکال دیا جاتا ہے۔شاید یہی ان کی محنت کا صلہ ہوتا ہے۔
اب ذرا اک نظر محکمہ تعلیم کے دوسرے کارنامے کی طرف بھی ۔ لگتا ہے کہ تعلیم کے ساتھ مذاق کیا جارہا ہے۔ محکمہ تعلیم نے پیک (PEC) کے نام سے ایک ادارہ بنایا ہے جو پنجم اور ہشتم کے امتحانات لیتا ہے۔ پہلے پہل تو پورے پنجاب کا ایک ہی پیپر ہوتا تھا مگر شاید پیک کے مشیروں نے مشورہ دیا کہ اس طرح تو بچے نقل کرکے پاس ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد ایک بار چھ مختلف اور اب چار مختلف پیپرز ان بچوں کو دیے جاتے ہیںتاکہ نقل نہ کر سکیں۔ یوں لگتا ہے کہ یہ معصوم بچے پنجم اور ہشتم کا امتحان نہیں سی ایس ایس کا امتحان دے رہے ہیں۔ اگر پیک کے طریقہ کار کی خوبیاں لکھیں تو قارئین داد دیے بغیر نہ رہے ہیں۔ پہلے تو بچوں کو کلاس وائز رولنمبر ایشو کردیے جاتے تھے پھر بچوں کو حروف تہجی کے حساب سے رولنمبر سلپ ایشو کی گئیں اور اب نہیں معلوم کس پیمانے پر رول نمبر سلپ جاری کی گئیں کہ ایک سکول کے بچے آگے پیچھے نہ بیٹھ سکیں ۔ اسطرح کرنے سے نقل کا رجحان کم ہوجائے گا۔
اب پیک کے کرتا دھرتا اس طرف بھی اپنی نظر کرم کریں اور سوچیں کہ یہ کیا ہورہا ہے؟امتحانی سنٹر تو کلسٹر والے اپنی مرضی سے بناتے ہیں جس سے پیک کی قلعی کھل جاتی ہے۔ گورنمنٹ سکولز نہ صرف اپنی مرضی کا امتحانی سنٹر بنواتے ہیں بلکہ سپرنٹنڈنٹ اور دیگر نگران عملہ بھی من پسند لاتے ہیں۔ یہی نہیں پیک کی طرف سے جو ڈیوٹی بن کر آتی ہیں ان کو بھی بغیرکسی وجہ کے تبدیل کردیا جاتا ہے۔ پھر نقل بھی ایسے کرائی جاتی ہے کہ سوال حل کرکے بچوں تک پہنچائے جاتے ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ پرائیویٹ سکولوں کے بچوں کا گورنمنٹ سکولوں کے بچوں سے علیحدہ امتحانی مرکز بنایا جاتا ہے تاکہ ان بچوں اور اداروں کو ان کلسٹرزکی کارروائیوں کی ہوا نہ لگ سکے ۔ ان سب حرکات کی وجہ یہ ہے کہ کلسٹر ہیڈز بھی چونکہ اساتذہ ہیں اس لیے وہ بھی چاہتے ہیں کہ گورنمنٹ سکولز کا رزلٹ اچھا آئے تاکہ کوئی ماسٹر یا ہیڈماسٹر محکمانہ کاروائی کا سامنا نہ کرسکے۔ ایسے کرنے سے رزلٹ تو ضرور اچھا آجائے گا اور اساتذہ بھی محکمے کی گرفت سے بچ جائیں گے مگر بچے کا مستقبل ضائع ہو جاتا ہے۔
محکمہ تعلیم کا سب سے اہم کارنامہ جس نے تعلیم کا معیار گرانے میں کافی مدد کی ہے وہ ”مار نہیں پیار ” کا نعرہ ہے ۔ جب سے مار نہیں پیار کا نعرہ لگا ہے تب سے تعلیم کا گراف اور نیچے آگیا ہے کیونکہ تعلیم خوف یا شوق سے حاصل کی جاتی ہے اور جس بچے کو تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہوتا ہے اسے پٹائی کا کوئی خوف نہیں ہوتا اور جو بچہ تعلیم میں دلچسپی نہیں لیتا اسے خوف ہی ہے جوا س کو اُس طرف راغب کرسکتا ہے ۔ آج بھی بڑے بڑے عہدوں پر براجمان افسران اعلیٰ و بالا کو اپنے اساتذہ کی مار اور ڈانٹ ڈپٹ یاد ہو گی جس کی بدولت وہ آج افسری کر رہے ہیں ۔ جب سے مارنہیں پیار شروع کیا ہے اب تو بچوں سے اساتذہ ڈرنا شروع ہوگئے ہیں کیونکہ جب بھی بچے کو تھوڑا بہت ڈرایا یا دھمکایا وہ فوراً اساتذہ کو بلیک میل کرنا شروع کردیتے ہیںکہ ہم آپ کے خلاف شکایت کریں گے اور استاد بھیگی بلی بن کر بیٹھ جاتا ہے۔ رہی سہی کسر میڈیا میں ایسی خبر آنے سے پوری ہو جاتی ہے۔ یہ تو نہیں کہ بچوں پر ظلم کیا جائے مگر استاد کے اتنے بھی ہاتھ پیر نہ باندھو کہ وہ مجبور اور لاچار ہو جائے۔
اگر حکومت کو تعلیم گھر گھر پہنچانا مقصودہے تو پھر اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ ہرسال نصاب میں تبدیلی کرنے سے بھی تعلیم کا معیار گررہا ہے۔ تربیت کے لیے اسلام بھی کسی حد تک سختی کی اجازت دیتا ہے۔ تربیت کے لیے اسلام اور اسلامی تاریخ سے مواد نصاب میں شامل کیا جائے نہ کہ مادر پدر آزاد ماحول کا نصاب بنایا جائے ۔ نصاب میں تبدیلی کے بعد نئی کتابیں چھپوانے سے حکومت اپنا کمیشن تو پورا کرلیتی ہے مگر بچوں کی ذہنی صلاحیت کمزور ہوجاتی ہے۔ خدارا تعلیم کو تعلیم سمجھو اس سے کھلواڑ نہ کروکیونکہ یہ بچے ہی پاکستان کامستقبل ہیں۔ کل کو انہوں نے ہی پاکستان کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔