ڈھونڈتے ہیں چارہ گر دردِ لادوا لے کر اپنی بد نصیبی کا کوئی تذکرہ لے کر اب کبھی نہ آئیں گے حرفِ التجا لے کر ہم نے تیری محفل میں وہ سماں بھی دیکھا ہے آئے تھے جزا پانے چل دِیے سزا لے کر اب بھی اس زمانے میں چاہتوں کے سودائی ڈھونڈتے ہیں چارہ گر دردِ لادوا لے کر یوں نہ ہو خفا ہم سے بس چلے ہی جائیں گے ساقیا تیرے در سے ہوش کا پتا لے کر آج بھی سرِ مقتل حیرتوں نے گھیرا ہے ہم لڑے ہیں دنیا سے کس کا آسرا لے کر ہم نے ساری دنیا کو روشنی ہے دکھلائی ڈھونڈتے ہوئے تجھ کو ہاتھ میں دِیا لے کر آئے ہیں تیرے در پہ دیکھ کس مسرت سے دردِ لامکاں لے کر دردِ بے بہا لے کر