سانسوں کو تیرے نام کی گردان کیا جائے چپکے سے کسی روز تو مہمان کیا جائے آجا کہ کبھی پورا یہ ارمان کیا جائے اِک شام تیرے وصل کی دنیا سے چُرا کر یادوں کی گزرگاہوں کو آسان کیا جائے ہونٹوں پہ سدا پیار کی اس نغمہ گری سے سانسوں کو تیرے نام کی گردان کیا جائے ہر وقت غمِ ہجر کو سینے سے لگا کر اُس زود فراموش کو حیران کیا جائے دیکھا نہ کبھی لوٹ کے جس شخص نے اُس پہ سوچا ہے دل و جان کو قربان کیا جائے رغبت ہے بہت اس کو نئے موسمِ گُل سے گلشن نہ میرے شوخ کا ویران کیا جائے دامن یہ امیدوں کا کیا تار ہے جس نے اس شخص کا بھی چاک گریبان کیا جائے