تحریر : پروفیسر رفعت مظہر جوں جوں عام انتخابات قریب آ رہے ہیں، سیاسی درجہ حرارت اپنی رفعتوں کی طرف گامزن ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ جب بھی انتخابات کا موسم آتا ہے ،لہجوں میں بتدریج تلخی گھلتی چلی جاتی ہے۔ اب کی باراِن تلخیوں میں یہ نامعقول اضافہ ہو چکا کہ قوم کی رہبری و رہنمائی کے دعویداروں کی زبانیں تھوک کے حساب سے غیرپارلیمانی الفاظ اُگلتی رہتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ یہی کچھ ہماری پارلیمانی سیاست میں بھی ہوا۔ اکتوبر 2011ء میں تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خاں نے مینارِ پاکستان کے سائے تلے ایک عظیم الشان سیاسی شو منعقد کرکے یہ ثابت کردیا کہ اُن کے چاہنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں لیکن عمران خاں کو یہ مقبولیت ہضم نہ ہوسکی۔اُن کے جلسے تو عوامی تعداد کے لحاظ سے محیرالعقول تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ اُن کی زبان بھی غیرپارلیمانی ہوتی چلی گئی اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ غیرپارلیمانی زبان ہی اہلِ سیاست کا وتیرہ ٹھہری جس کی ایک جھلک ہم نے 5 فروری کو موچی دروازے میں ہونے والے پیپلزپارٹی کے جلسے میں دیکھی۔ یوں محسوس ہو رہا تھی کہ جیسے آصف زرداری کے اندر عمران خاں کی روح حلول کر گئی ہو۔
پاکستان پیپلزپارٹی، جس کی حکومت کا پرچم کبھی پورے پاکستان میں لہراتا تھا، اب صرف دیہی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ سیاسی بساط کے ماہر کھلاڑی آصف زرداری نے محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد محترمہ کی ایک جعلی وصیت کے بَل پر پیپلزپارٹی کی قیادت سنبھالی۔ اُس جذباتی ماحول میں اُنہوں نے دو کام کیے۔ پہلا یہ کہ ”پاکستان کھپے” کا نعرہ بلند کر د یا اور دوسرا اپنی اولاد کی نسل ہی بدل ڈالی ۔ بلاول ،آصفہ اور بختاور کے ناموں کے ساتھ ”بھٹو” کا لاحقہ بھی لگا دیا گیا اور یوں یہ تینوں بھٹو بن کر سامنے آئے۔ بینظیر کی شہادت کی بنا پر ہمدردی کا کثیر ووٹ پیپلزپارٹی کے حصّے میں آیا اور ایک دفعہ پھر اقتدار کا ہُما اُس کے سَر پر بیٹھ گیا۔
بینظیر بھٹو کے پہلے دَور میں زرداری صاحب کو مسٹر ٹین پرسینٹ کا خطاب ملا اور دوسرے دَور میں ”مسٹر سینٹ پرسینٹ” کا۔ تب زرداری صاحب کی کرپشن کی کہانیاں زبان زدِ عام تھیں اور لوگ حیران کہ بمبینو سینما میں ٹکٹیں بلیک کرنے والا شخص یکایک ارب پتی کیسے بن گیا؟۔ سوئس اکاؤنٹ اور سرے محل اُسی دَور کے قصّے ہیں۔ 2008ء میں جب پیپلزپارٹی کو حکومت ملی تو زرداری کو کھُل کھیلنے کا موقع بھی میسر آگیا۔ اِس پانچ سالہ دَورِ حکومت میں ”غضب کرپشن کی عجب کہانیاں” زبان زَدِعام ہوئیں۔ یہ اُسی دَور کی بات ہے جب مشاہد حسین سیّد نے کہا کہ پیپلزپارٹی کا تو نعرہ ہی ”لُٹّو تے پھُٹّو” ہے۔ اُنہی دنوں خادمِ اعلیٰ نے زرداری صاحب اور اُن کے حواریوں کو ”زَربابا چالیس چور” جیسے خطاب سے نوازا۔ وہ ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کرکہا کرتے تھے کہ اگر نوازلیگ کو حکومت مل گئی تو اِن لوگوںکو سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام بدل دینا۔ نوازلیگ کو حکومت ملی اور خوب ملی لیکن کسی نے ”زَر بابا” کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ اب خادمِ اعلیٰ پھر وہی باتیں دُہرا رہے ہیں لیکن ہمیں یقین کہ اگر 2018ء میں اُنہیں حکومت مل بھی گئی تو پھر بھی وہ ”زَر بابا” سے صَرفِ نظر ہی کریں گے۔
پنجاب میں اپنے قدم جمانے کے لیے آصف زرداری ایک دفعہ پھر متحرک ہوچکے۔ 5 فروری کو موچی دروازے کی تاریخی گراؤنڈ میں جیالوں کا اجتماع ہوا ۔ اِس جلسے میں لاہورئیے کم اور پنجاب کے دیگر شہروں سے زیادہ لوگ شامل ہوئے۔ بقول رانا ثناء اللہ یہ جلسہ نہیں ”جلسی” تھی۔ زرداری صاحب کے لیے تو پنجاب میں یہ اکٹھ بھی غنیمت تھا شاید اِسی لیے اُن کی زبان سے غیرپارلیمانی الفاظ کے فوارے چھوٹنے لگے۔ یوں تو یہ جلسہ کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے منعقد کیا گیا لیکن کشمیر کا تو محض تَڑکہ ہی لگا۔ آصف زرداری نے کہا ” نوازشریف عوام کا چور، قومی چور، ہاریوں کا چوراور مزدوروں کا چور ہے۔ یہ عوام کی ہر چیز پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ اِس کو نکالنا پڑے گا۔ اگر اب اِس کو چھوڑ دیا تو اللہ بھی ہمیں معاف نہیں کرے گا۔ یہ دھرتی کا ناسور ہو چکا ہے، اب دھرتی اِس کو معاف نہیں کرے گی”۔ اُنہوں نے جوشِ خطابت میں میاں نوازشریف کو ”درندہ” بھی قرار دے دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ کچھ لوگ اپنی جگہ کا نام جاتی اُمرا پر رکھتے ہیں لیکن کشمیریوں کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ اُن کے دِل میں کشمیریوں کے لیے غم ہے نہ پاکستان کے غریب عوام کے لیے۔ چھاج بولے تو بولے ،چھلنی بھی بولنے لگی۔ کرپشن کے حوالے سے پاکستان کے بدنام ترین شخص کا نام آصف علی زرداری ہے جن کا اپنا ایک ”مافیا” جو اُن کے دَورِ حکومت میں ہر ادارے کو خون چوسنے والی جونکوں کی طرح چمٹا رہا۔ اُن کی بہن فریال تالپور نے بھی کرپشن کی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔ یہ لوگ خود تو معاشرے کا ناسور ہیں لیکن حیرت ہے کہ الزام دوسروں پر دھرتے ہیں۔ میاں نوازشریف کا کیس احتساب عدالت میں ہے جس کا فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔ نیب اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود تاحال اُن پر کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہیں کر سکی۔ اِس لیے اُنہیں چور کہنا کسی بھی صورت میں مناسب نہیں۔ ویسے بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سابق صدر کی زبان سے ایسے غیرپارلیمانی الفاز نکلنا انتہائی شرمناک ہے۔
آصف زرداری نے میاں نوازشریف پر بھارت دوستی کا الزام دھرتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب نے کشمیریوں کے لیے کچھ نہیں کیا جبکہ حقیقت اِس کے برعکس ہے۔ پیپلزپارٹی نے اپنے کسی بھی دَورِحکومت میں کشمیر کا مسٔلہ نہیں اُٹھایا ،ہاں یہ ضرور ہوا کہ اعتزاز احسن نے بھارت کو آزادی کی تحریک کے لیے سَرگرم سکھوں کی لسٹیں ضرور فراہم کیں۔ میاں نوازشریف تو خود بھی کشمیری ہیں جنہوں نے 5 فروری کو مظفرآباد میں موچی دروازے سے کئی گُنا بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اُن کا دِل کشمیر کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ مریم نواز نے ”کشمیر بنے گا پاکستان” کے نعرے لگواتے ہوئے کہا کہ انشاء اللہ وہ دِن جلد آئے گا جب ہم سِرینگر میں ایسا ہی جلسہ کر رہے ہوںگے۔ ۔۔۔۔ یہ تو خیر جذباتی باتیں تھیںلیکن عملی طور پر بھی نوازحکومت نے کشمیر کاز کے لیے بہت کچھ کیا۔ اقوامِ متحدہ میںمیاں نوازشریف کا خطاب آج بھی لوگوں کو یاد ہوگا جس میں اُنہوں نے بھرپور اندازمیں کشمیر کا مسٔلہ اُٹھایااور اقوامِ متحدہ کے درودیوار کشمیری مجاہد بُرہان وانی شہید کے نام سے آشنا ہوئے۔ اِسی دَورِ حکومت میں بھارتی دہشت گردی اور ریشہ دوانیوں کے خلاف ڈوزیئر اقوامِ متحدہ اور سابق امریکی صدر بارک اوباما کو پیش کیے گئے اور کشمیر کا مسٔلہ اُبھر کر سامنے آیا۔ اِس لیے یہ کہنا کہ میاں نوازشریف نے کشمیر کاذ کے لیے کچھ نہیں کیا ،بالکل لغو اور بے بنیاد ہے۔
زرداری صاحب نے اپنے خطاب میں جو غیرپارلیمانی زبان استعمال کی، اُس کی ایٹمی پاکستان کے سابق صدر سے کسی کو بھی توقع نہ تھی۔ کپتان کی تو کوئی تقریر بھی ایسے الفاظ کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی لیکن اب آصف زرداری بھی اُسی راہ پہ چل نکلے ہیں جو کسی المیے سے کم نہیں۔ ہم تو یہی عرض کر سکتے ہیں کہ ہمارے محترم سیاستدان سیاست کریں، گالی گلوچ نہیں۔