تحریر : عابد علی یوسف زئی زندگی میں بعض دفعہ انتہائی تلخ حقائق سے سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گذشتہ روز اپنے آفس میں بیٹھا ہوا تھا کہ عصر کے وقت پولیس ٹیم وارد ہوگئی۔ آنے کا استفسار کیا تو فرمانے لگے کہ آپ نے آفس کے باہر سیکیورٹی کیمرے کیوں نہیں لگائے؟ قومی شناختی کارڈ لے کر متعلقہ تھانے میں حاضر ہونے کا کہا۔ مغرب کے بعد جب تھانے پہنچا تو معلوم ہوا کہ ١٢ سیکیورٹی ایکٹ کے تحت پرچہ کٹ گیا ہے۔ اب یا تو رات تھانے میں گزارنی ہوگی یا ضمانت کے لیے کسے کو تھانے بلواو۔ بہر حال رات تو تھانے میں گزارنا محال تھا اس لئے شخصی ضمانت پر گھر آگئے۔ اگلی صبح 8:30 پر تھانے دوبارہ حاضری تھی۔ تھانہ پہنچے تو 3 گھنٹے وہاں انتظار کرایا گیا۔ وہاں سے ایک سپاہی کے ساتھ کچہری پہنچے۔ پہلے سپرٹنڈنٹ کے دفتر حاضری ہوئی۔ وہاں سے ایک اور دفتر لے جایا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ صاحب میٹنگ میں ہے۔ گھنٹہ بھر انتظار کے بعد وہاں سے اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر بھیجا گیا۔ کمشنر صاحب بھی میٹنگ میں تھے اور کافی دیر بعد وہ بھی اپنے دفتر پہنچ گئے۔
پھر خدا خدا کرکے اے سی صاحب کے سامنے حاضری ہوئی ۔ اے سی صاحب اور پولیس طبقے میں بالکل بھی مطابقت محسوس نہیں ہوئی۔ ان کا لہجہ ، ان کا رویہ اور ان کا انصاف دیکھ کر فوری سرکل سے گزرتے ہوئے پیدا ہونے والا غصہ فورا ختم ہوگیا۔ یقینا نہیں آیا کہ یہ بھی ایک سرکاری افسر ہے اور پولیس ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھتا ہے۔
پورا قصہ بیان کرنے کا مقصد محض قارئین کا وقت ضائع کرنا نہیں تھا۔بلکہ دو باتوں پر بحث کرنا مقصود تھا۔ دوسری بات جسے میں پہلے ذذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں، وہ یہ ہے کہ واقعی آج بھی وطن عزیز میں فرض شناس آفیسرز موجود ہے۔ خوش اخلاق ، فرض شناس اور کرپشن سے پاک لوگ اب سے ڈھونڈنے سے مل جاتے ہیں جو اس مٹی کا قیمتی سرمایہ ہے۔
پہلی بات جسے تصویر کا دوسرا رخ اگر کہا جائے تو یقینا بے جا نہ ہوگا۔ نیا پاکستان، نیا خیبر پختونخواہ اور مثالی اداروں کے نعرے لگانے والی صوبائی حکومت کی بے حسی اور نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہمارے معاشرے پر حاوی ہے۔ ملکی شہریوں کے جان و مال کی حفاظت سیکیورٹی اداروں خصوصا پولیس پر فرض ہے۔ مثالی پولیس کا ڈنڈورا پیٹنے والے ذرا اپنی کارکردگی کا کوئی ثبوت پیش کریں۔ شہریوں پر سیکیورٹی کیمرے لازم کرنے کامثال دوبارہ بھر میں کہی نہیں ملے گا سوائے کے پی کے مثالی پولیس کے ہاں۔ اگر شہری خود راتوں کو پہرے لگاکر اپنے گھروں اور گلی کوچوں کی حفاظت کریں، اگر شہری اداروں اور دفتروں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگاکر اپنے دفتروں اور اداروں کی خود حفاظت کریں تو یقینا کے پی حکومت کا یہ دعوی درست ہوگا کہ کے پی پولیس واقعی مثالی پولیس ہے جس کی مثال شاید تاریخ میں ملتی ہو۔
بالفرض وطن عزیز کی موجودہ صورت حال اور سیکیورٹی خدشات کو مد نظر رکھ کر اگر پائیدار امن کے قیام کے لیے پولیس شہریوں پر تعاون کی حد تک کوئی ذمہ داری ڈال بھی دیتی ہے تو اس کا یقینا یہ مطلب ہر گز نہ ہوگا کہ بغیر کسی پیشگی اطلاع کے، بغیر کسی قانونی نوٹس کے کسی بھی معزز اور پر امن شہری پر سیکیورٹی ایکٹ کا پرچہ کاٹ کر اسے گرفتار کیا جائے۔ اگر سب کچھ عوام نے ہی کرنا ہے تو یقینا محکمہ پولیس قومی خزانے پر بہت بڑا بوجھ ہے جو اربوں روپے سالانہ حکومت کو نقصان پہنچارہی ہے۔
درجہ بالا مضمون کا مقصد بالکل بھی کسی ادارے پر بے جا تنقید نہیں بلکہ ان کو اپنی ذمہ داری کا احساس اور اہمیت یاد دلانے کے ساتھ ساتھ اے سی صاحب کے طرح فرض شناس افسروں کے نوٹس میں یہ لانا تھا کہ کسی بھی سفید پوش شہری پر بلاوجہ وجہ یہ کالا دھبہ لگانا یقینا عمر کے عدل و انصاف کے منافی ہے اور روز قیامت قصور وار طبقہ کے ساتھ ساتھ صاحب ارباب سے بھی پوچھ گچھ کی جائے گی۔ امید ہے بااختیار افسران مذکورہ واقعہ کا نوٹس لے کر نہ صرف متعلقہ تھانے کو وارننگ دیں گے بلکہ آئیندہ کے لیے ایسے واقعات کے روک تھام کے لیے بھر پور کردار ادا کریں گے۔