تحریر : شیخ خالد زاہد آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ڈھاکہ میں دسمبر ۱۹۰۶ میں رکھی گئی اور برصغیر میں مسلمانوں کی نمائدہ جماعت کے بانی نواب وقار الملک تھے ، وقت اور حالات کیساتھ تبدیلیاں آتی گئیں اور آل انڈیا مسلم لیگ کی وجہ شہرت محمد علی جناح بن گئے اور اس جماعت نے قائد اعظم محمد علی جناح کی سربراہی میں پاکستان حاصل کرلیا۔ پاکستان کی سیاست ،سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے مرہون منت ہوتی ہے ، اس سیاست میں نا تو سیاسی جماعتوں کا عمل دخل ہوتا ہے اور ناہی ان جماعتوں کے منشورکا۔ یہ بھی لکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخض جوکہ جماعت کا سربراہ ہوتا ہے وہ ہی منشور ہوتا ہے اور جماعت اسی سے شروع ہوکر اسی پر ختم ہوجاتی ہے۔ ہم پاکستانیوں نے یہ بات سمجھنے میں دیر کردی ، ہمیں اسی وقت سمجھ آجانا چاہئے تھا جب پاکستان مسلم لیگ قائدِ اعظم کے ساتھ ہی دفن کردی گئی تھی، اس مسلم لیگ کی داغ بیل کسی اور نے ڈالی تھی مگر اس وقت وہ پاکستان نہیں تھا ، جب سے پاکستان بنا ہے کوئی بھی فرد اپنے منشورکی بنیاد پر ایک سیاسی جماعت بنا لیتا ہے اور کچھ نامعلوم ارباب اختیار اس کو اپنے کسی خاص مقصد کیلئے ایک وقت تک استعمال کرتے ہیں پھر یا تو اس جماعت کا سربراہ نہیں رہتا یا پھر وہ جماعت نہیں رہتی ہاں البتہ وہ منشور بتدریج تقسیم ہوجاتاہے اور جماعت سے کچھ وابستہ لوگ اس میں سے نکل کر نئی جماعت بنالیتے ہیں۔ حقیقتاً سیاسی مقاصد سوائے کاروبار کہ اور کچھ بھی نہیں ہیں اگر ہوتے تو پاکستان اور پاکستان کی عوام کی جو حالت ہے ایسی کبھی نا ہوتی۔
مذکورہ بالا معاملہ نا تو پیچیدگی لئے ہوئے اور نا ہی کسی سے پوشیدہ ہے ، ہر کھلی آنکھ رکھنے والاپاکستانی سمجھتا بھی ہے اوراچھی طرح سے یہ سب جانتا ہے۔ کسی بھی جماعت سے وابسطہ افراد کے مقاصد کی ترجیحات میں تبدیلی ، جماعت میں شگاف ڈالنے کا بنیادی عنصر ہوسکتا ہے۔بدلتی ہوئی دنیا کی روشوں میں ہر روز طلب اور رسد میں فرق آتا ہے یہ فرق ہی تبدیلی کا پیش خیمہ بنتا چلا جاتا ہے۔ کچھ بنیادی اصول اور اقدار ہوتے ہیں جو جماعتوں کو منظم رکھنے اور ایک دوسرے کے مزاج کے خلاف ہونے کے باوجود جڑے رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اب اسے جمہوریت کا حسن کہہ کر سب کچھ اپنے آنکھوں سے تباہ و برباد ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں تو دیکھئے کہ کس طرح سے چھوٹے چھوٹے اختلافات کی بنیاد پر برسوں کے تعلقات بھینٹ چڑھا دئیے جاتے ہیں۔
حالیہ اس جمہوری طرز کے مزاج رکھنے والے پاکستانی سیاست میں ایک معتبر نام رکھنے والے مشاہد حسین سید صاحب نے مسلم لیگ (ق) سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کر لی، ان کے اس اقدام سے انکی ذاتیات پر سوالیہ نشان اٹھ گیا اب وہ سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کی نمائندگی کرینگے۔ سید صاحب کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف نے جمہوریت کیلئے بہت کچھ کیا ہے ، اگر یہ جملہ سوشل میڈیا پر لکھاجاتا تو بہت سارے ایموجی اسکے ساتھ لگائے جاسکتے تھے۔ یہ لکھنا تکلیف کا باعث ہے کہ کوئی بھی جماعت اپنی تقسیم کی بدولت انجام کو پہنچنا شروع ہو جاتی ہے ۔ ہمارے ملک میں کتنی ہی کلعدم تنظیمیں اپنے منشور کیساتھ اپنی قیادت کے ساتھ نام بدل کر اپنا مشن رکنے نہیں دیتیں تو پھر وہ سیاسی جماعتیں جنہیں کلعدم بھی قرار نہیں دیا گیا ہو کیسے ختم ہوسکتی ہے۔ اس بات سے واجبی اختلاف تو کیا جاسکتا ہے کہ کسی بھی جماعت کا بنیادی منشور جماعت کی تقسیم کے بعد بھی تبدیل نہیں ہوتا، کیونکہ جس کسی مقصد کے حصول کیلئے جماعت قائم کی جاتی ہے وہ قائدین کے ذہنوں سے کسے نکالا جاسکتا ہے۔
ایم کیوایم سندھ میں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کو سندھ میں کمزور کرنے کیلئے بنائی گئی ۔ ایم کیو ایم بن تو گئی لیکن پہلے دن سے ہی عدم تحفظ کی آب و ہوا میں پلتی اور بڑھتی چلی گئی ۔ ایم کیو ایم کا وجود جامع کراچی میں تشکیل پایہ تھا تو اس سے وابسطہ ہونے والے کراچی کا اعلی تعلیم یافتہ طبقہ تھا۔ ایم کیوایم کا مسلۂ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے مختلف دیکھائی دیتا ہے، ایم کیو ایم والوں کو کیا کچھ نہیں کہا گیا اور کہا جاتا ہے مگر یہ جماعت اپنے قائد کی طبعی غیر موجود گی کے باوجود بھی منظم طریقے سے چلتی رہی ۔ اس جماعت کو بارہا دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی ، طرح طرح کے الزامات بھی لگائے گئے مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان الزامات کے غلط ثابت کرنے والے بھی منظر عام پر آتے رہے ، یہ جماعت ایک منظم تنظیم ہونے کے باعث اپنی بقاء کی جنگ لڑتی ہوئی یہاں تک تو پہنچ گئی ہے مگر اس ایم کیوایم کی اوائل کا تعلیم یافتہ طبقہ کہیں بہت پیچھے رہے گیا اور تعلیم کو بیکار اور وقت ضائع کرنے والی شے سمجھنے والے اس تنظیم میں اکثریت کی صورت میں جمع ہوگئے اور انہوں نے جیسے قیادت کو اپنے نرغے میں لے لیا۔ایم کیوایم سے تعلق رکھنے والا ہر شخص مشکوک ہوتا چلا گیا، کراچی جو ناصرف برقی قمقمو ں کے جلنے سے روشنیوں کا شہر مانا جاتا تھا وہیں علم و شعور کا مرکز بھی تھا ۔ایم کیوایم پر اس سے بڑا کوئی الزام نہیں ہوسکتا کہ انہوں نے تعلیم جیسے زیور کو کسی خاطر میں نہیں رکھا اوراس پر بلکل دھیان نہیں دیا اپنی تنظیم سازی میں رکنیت سازی میں تعلیم کا کوئی میعار نہیں رکھا۔ شائستگی اور ادب جو کراچی کی تہذیب تھی آج کہیں دروازوں کے پیچھے بیٹھی سسکیاں لیتی ہے اور ان سسکیوں کی صدائیں سارے شہر میں سنی جاتی ہیں۔ کراچی کے قبرستانوں میں جتنی نوجوانوں کی قبریں ہیں اتنی عمر رسیدہ لوگوں کی نہیں ہیں۔ کراچی کا تقریباً ہر نوجوان کسی نا کسی نشے کی لت میں لتھڑا ہوا ہے۔
کراچی والوں نے ایم کیوایم پر ایسا بھروسا کیا جو شائد ہی اس ملک کی تاریخ میں کسی سیاسی جماعت پر اس کے چاہنے والوں نے کیا ہوگا۔ یہ کراچی والوں کا ہی حوصلہ اور ہمت ہے کہ اتنے نا مصائب و حالات کے ساتھ جی رہے ہیں لیکن ابھی تک اف نہیں کررہے ۔ ایم کیوایم اپنی ان مسلسل بے دھیانیوں اور شہر میں ہونے والی بے ضابطگیوں پر کچھ بھی نا کرسکی اور ایم کیوایم کا ووٹر بد ظن ہوتا چلا گیا۔ درحقیقت ایم کیوایم کے کاندھوں پر نسلوں کا بوجھ ہے اور یہ ایسا بوجھ ہے جسے کہیں پھینکا نہیں جاسکتا اور نا ہی منتقل کیا جاسکتا ہے۔لیکن ایک سوال ملک بڑی سیاسی جماعتیں جو ایم کیوایم کو تمام تر خرابیوں کیساتھ سیاسی اتحاد کیلئے سر آنکھوں پر بیٹھاتی رہیں کیا وہ کراچی کی تباہی کے ذمہ دار نہیں ہیں ۔ وہ تمام سیاسی جماعتیں جنہوں نے اپنے مفادات کیلئے کراچی میں قدم جمانے کیلے ، ایوانوں میں اعلی عہدے لینے کیلئے کیوں ایم کیوایم کو باربار اپنا حلیف بنایا۔ اگر یہ جماعت ملک کیلئے اتنی ہی نقصان دہ تھی تو کیوں بروقت اقدامات نہیں کئے گئے۔
ایک طرف جب ملک میں تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان صاحب اپنے بام عروج پر پہنچے ہوئے اور ملک کو ہرقسم کی تقسیم سے نجات دلانے کا عزم لئے ہوئے ہیں ، تو ایسے میں پاک سرزمین پارٹی کے وجود نے محترم مصطفی کمال صاحب کی سربراہی میں کراچی میں جنم لیااس جماعت کے سربراہ بھی عمران خان کی سیاسی بصیرت سے متاثر نظر آتے ہیں اور انہیں کی طرز کا منشور لئے اپنی پیش قدمی شروع کی ہے ۔ پی ایس پی کا وجود میں آنااس بات کی دلیل سمجھی جاسکتی ہے کہ اب ایم کیو ایم کو سیاسی داؤ پیچ سے پس پشت دھکیلنے کی کوشش کی جائے گی ۔پاکستان کا وجود غیر مرئی طاقتوں کی مدد سے عمل میں آیا ہے اوریہاں بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کوئی طاقت اس سارے عمل کے پیچھے موجود ہوتی ہے ،جو قدرت کے بعد ہمیشہ ہی رہتی ہے اور انتہائی منظم بھی ہے۔ایم کیوایم سے دیرینہ مائنس ون کا تقاضا تھا وہ پورا ہوگیا ، ایم کیوایم کے قائد پر پابندی لگائی گئی اور انہیں منظر عام و خاص سے ہٹا دیا گیا ، ایم کیوایم نے اپنے نام کیساتھ پاکستان لگا لیااور ایم کیوایم اپنے مرکز سے بے دخل کردی گئی (عنوان کے توسط سے)اور ابھی تک مرکزیت ڈھونڈ رہی ہے۔
اب ایم کیو ایم کی پھر تقسیم ہوئی اور پاکستان اور لندن کے لحیقے لگا دئیے گئے پھر ایم کیو ایم پاکستان میں حالیہ تقسم کی خبریں گردش کر رہی ہیں جن کے ساتھ ایم کیوایم پاکستان (پی آئی بی) اور (بہادرآباد) لکھا جانے والا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ۱۹۹۲ میں ایم کیوایم (حقیقی) سے شروع ہونے والا سلسلہ۲۰۱۸ میں ایم کیوایم پاکستان (پی آئی بی) اور (بہادرآباد)تک پہنچ چکا ہے ۔ابھی یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ کیا قیادتیں تقسیم ہوئی ہیں یا کارکنان بھی تقسیم ہوچکے ہیں ۔ ہم کسی کے جلسے کی بنیاد پر اسکے ووٹر ز کا اندازہ نہیں لگا سکتے اور ویسے بھی اب وہ وقت دور نہیں ہے جب ووٹ ہی فیصلہ کن کردار ادا کرینگے۔ اس مضمون کے توسط سے تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے ،مسائل پر سیاست نا کریں مسائل کے حل کیلئے سیاست کریں ، پوائنٹ اسکورنگ چھوڑدیں اب عوام بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے والی ہے ، ملک کے اداروں کی تعظیم و تکریم کا خصوصی خیال رکھیں کیونکہ نئی نسل آپ کو دیکھ کر آگے بڑھے گی اور اب وہ وقت آچکا ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ کوئی سیاسی ضابطہ اخلاق مرتب دیں جس میں سیاست کو تقویت دینے پر زور دیا جائے نا کہ سیاست دانوں کو۔ تمام سیاسی جماعتیں اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کئے بغیر کام کریں اور ایک دوسرے کی عزت و احترام یقینی بنائیں۔ بدعنوانی کسی بھی نوعیت کی ہو کسی دیمک سے کم نہیں ہوتی اور ہمارا ملک پاکستان اب اور بدعنوانیاں برداشت نہیں کرسکتا۔ ہمیں اس بات کا خصوصی خیال رکھنا ہے کہ اپنے مرکز سے دور نا نکل جائیں۔
اس مضمون کے اختتام پر اپنے قارئین کی نظر اقبال عظیم صاحب کی ایک بہت ہی خوبصورت غزل جس کا ایک مصرعہ بطور عنوان لیا ہے کے چنداشعار پیش کرنا چاہونگا ؛ اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے خواب ہو جاؤ گے افسانوں میں ڈھل جاؤگے تیز قدموں سے چلو اور تصادم سے بچو بھیڑ میں سست چلو گے تو کچل جاؤ گے تم ہو اک زندہ جاوید روایت کے چراغ تم کوئی شام کا سورج ہو کہ ڈھل جاؤگے صبح صادق مجھے مطلوب ہے کس سے مانگوں تم تو بھولے ہو چراغوں سے بہل جاؤ گے