میں سرِ دار بھی ہوں کتنی بلندی پہ یہ دیکھ

Star

Star

میں سرِ دار بھی ہوں کتنی بلندی پہ یہ دیکھ
جب بھی دیکھا ہے وہی گھور اندھیرا نکلا
جانے کس سمت محبت کا ستارا نکلا
ہم کو جس عہد میں جینا تھا بغاوت کے لئے
اُس میں ہر شخص روایات کا شیدا نکلا
دل یہی سوچ کے جیون میں بہل جاتا ہے
اِک تیرا غم تو کسی طور سہارا نکلا
اے غمِ عشق تیرے ہوتے ہوئے دنیا میں
ہم نے جس شخص کو دیکھا وہی تنہا نکلا
موج در موج لگی آگ نہ بجھ پائے گی
کوئی میخوار جو میخانے سے پیاسا نکلا
میں سرِ دار بھی ہوں کتنی بلندی پہ یہ دیکھ
تُو میرے قد سے کہاں آج بھی اونچا نکلا
وقتِ رخصت میں اکیلا ہی نہ رویا ساحل
اُس کے آنچل کا کنارا بھی تو بھیگا نکلا

ساحل منیر