تحریر : قادر خان یوسف زئی امریکا اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گذر رہا ہے۔ خاص کر افغانستان میں امریکا لاحاصل جنگ میں اس بُری طرح الجھ چکا ہے کہ اس کے پاس ماسوائے ناکامیوں کے کچھ نہیں بچا۔ پاکستان کے خلاف جارحانہ بیانات اور معاہدے کے باوجود کولیشن سپورٹ فنڈز کو روکنے سمیت عسکری امداد منجمد کرنے کے ہرحربے بے سود ہوتے چلے گئے۔ پاکستان کے خلاف سفارتی طور پر بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدوں سمیت کئی مراعات دینے میں امریکا نے خطے میں بگڑتے ہوئے طاقت کے توازن میں معتصبانہ رویہ اپنایا۔ افغانستان اس وقت امریکا کے لئے گلے میں ہڈی کی طرح پھنس چکا ہے۔ امریکا موجودہ صورتحال سے خود کو باہر نکالنے کیلئے بھی سنجیدہ کوشش نہیں کررہا جس پر یہ کہا جا سکے کہ امریکا۔ پاکستان تعلقات میں سرد مہری خاتمے سے جنوبی ایشیا میں امن کے پائدار امن کے لئے فضا سازگار ہوسکتی ہے۔ تاہم امریکا انتظامیہ کے کئی عہدے داروں اور تھنک ٹینک سمیت کئی سرکاری و غیر سرکاری اداروں نے پاکستان کے لئے امریکی نئی پالیسی کو افغانستان میں مستحکم امن کے لئے مناسب قرار نہیں دیا ہے۔
جہاں امریکی صدر پاکستان کے خلاف دشنام طرازی اور دھمکیاں دینے میں کسی تامل وتحمل کا مظاہرہ نہیں کرتے وہاں ان کے سخت گیر بیانات پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات میں بھی بڑی خلیج پیدا کررہے ہیں۔ تاہم امریکی انتظامیہ کا بیانات کے بعد وضاحتوں کا سلسلہ بھی مضحکہ خیز صورتحال کو جنم دیتا ہے۔اس بات کا اندازہ امریکی نائب وزیر خارجہ جان سولی وان کے اس اہم بیان سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس میں انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ افغان طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کیا جا سکتا ہے، انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ افغان طالبان کے نمایاں دھڑے اس وقت مذاکرات پر راضی نہیں،انہیں آمادہ کرنے میں کافی وقت لگے گا تاہم بعض دھڑے اور افغان رہنما اس وقت بھی راضی ہیں۔ ایک جانب پاکستان کا تعاون بھی مانگ رہے ہیں تو دوسری جانب اپنے رویوں میں بظاہر لچک بھی نہ کرنے کی پالیسی کا بھی عندیہ دیتے ہوئے جون سلی ون نے سینیٹ کمیٹی برائے خارجہ کو کہا کہ،تمام گروپوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائیوں سے پاکستان کی امداد بحال ہوسکتی ہے،غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق انہوں نے کہا کہ امید ہے پاکستان بھی افغان طالبان کو امن عمل میں شامل ہونے پر آمادہ کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔کابل حملے کے بعد امریکی صدر کی جانب سے طالبان سے مذاکرات نہ کرنے کے بیان کی وضا حت پیش کرتے ہوئے نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ ٹرمپ کا بیان دہشت گردی کے تناظر میں تھا۔
سابق افغان صدر حامد کرزئی نے بھی بین الاقوامی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں امریکا کو پھرسخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے انھوں نے کہا کہ” طالبان کو شکست دینے کے لئے امریکہ کی سرکردگی میں افغانستان میں فوجی کارروائیاں شروع کئے 16 برس کا عرصہ بیت چکا ہے اور افغانستان اب بھی انتہائی ابتر حالت میں ہے.امریکہ ہم سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر ہم افغانستان سے چلے جائیں گے تو افغانستان کی حالت زیادہ بگڑ جائے گی۔اُنہوں نے کہا کہ ہم اس وقت انتہائی خراب صورت حال میں ہیں۔ ہم امن و استحکام کے خواہش مند ہیں۔کرزئی نے کہا کہ امریکہ اس خطے میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے افغانستان میں مستقل فوجی اڈے قائم کرنا چاہتا ہے۔سابق صدر نے امریکا کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ امریکی فوجیں افغانستان میں اس لئے نہیں ہیں کہ وہ انتہاپسندی کا خاتمہ کریں بلکہ امریکیوں کا مقصد ہمیں تقسیم کرنا اور کمزور کرنا ہے۔ عالمی سطح پر امریکہ کے اپنے مقاصد ہیں۔ امریکہ کو چین کی بڑھتی ہوئی قوت کے ساتھ ساتھ روس کی طرف سے بھی خطرات کا سامنا ہے “۔
پاکستا ن بھی مختلف فورم و ادوار میں امریکا کو سمجھانے کی کوشش کرچکا ہے کہ افغانستان میں مسئلے کا حل طاقت نہیں رہا۔ 16برس بعد بھی امریکا کھربوں ڈالرز خرچ کرنے کے باوجود افغانستان میں امن قائم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ امریکا افغانستان کی جنگ میں اب تک کھربوں ڈالرز جھونک چکا ہے۔امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ امریکا سالانہ بنیادو ں پر45ارب ڈالر افغانستان میں خرچ کررہا ہے جس میں مفاد عامہ پر خرچ کی جانے والی رقم صرف74کروڑ ڈالر سالانہ ہے۔واضح رہے کہ امریکا افغان جنگ کے شروع میں گیارہ بارہ بلین ڈالرز سالانہ خرچ کررہا تھالیکن اب اس کی ضروریات مزید بڑھ چکی ہے اور انہیں تقریباََ 6بلین ڈالرز درکار ہیں۔ کھربوں ڈالرز کی بھاری رقوم کے ضائع ہونے کا سبب افغانستان میں بڑھتی کرپشن، بدعنوانی اور گھوسٹ ملازمین بتائی جاتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان گھوسٹ ملازمین میں ایک بڑی تعداد افغان فوجیوں کی بھی ہے جو امریکی اخراجات پر شاہانہ زندگیاں گزار رہے ہیں۔ کرپشن موجودہ کابل حکومت میں اس تیزی کے ساتھ سرعت کرچکی ہے کہ تعمیراتی کاموں میں ناقص میٹریل کے استعمال کئے جانے کے سبب کئی تعمیرات زمین بوس ہوچکی ہیں۔ جن کا اظہار خود امریکی سرکاری ادارے اپنے رپورٹوں میں مسلسل کرتے ہیں۔ خاص طور پر گزشتہ دنوں سیگار آفس کی اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ امریکی صدر کو پیش کی گئی جس میں کھربوں ڈالرز کی مالی بدعنوانی و کرپشن کا انکشاف کیا گیا تھا۔ تاہم یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عسکری بنیادوں پر آنے والے اخراجات امریکی حکومت کے تعینات عہدے دار ہی خرچ کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود کھربوں ڈالرز کا کوئی مربوط ریکارڈ موجود نہ ہونا امریکی حکومت کے لئے بذات خود ایک سوالیہ نشان ہے کہ امریکا کو اپنا گھر درست کرنے کی ضرورت زیادہ ہے۔
حالیہ کابل حملوں کے بعد امریکی صدر ٹرمپ کا سخت پیغام سامنے آیا کہ فیصلہ کن جنگ کی جائے گی اور انہوں نے ہمسایہ ممالک پر بھی زور دیا کہ انہیں بھی اس جنگ میں شرکت کرنا چاہیے۔ تاہم افغان طالبان سے مذاکرات سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغان طالبان سے مذاکرات نہیں کئے جائیں گے۔ بعد ازاں امریکی حکام نے وضاحت دی کہ امریکی صدر کا بیان کابل حملے کے تناظر میں تھا۔ تاہم پاکستان کی اہمیت کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ امریکی تھنک ٹینک مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر وائن بام کا کہنا تھا کہ امریکہ افغانستان کے بارے میں پاکستان کی پالیسی پر مسلسل اپنی ناپسندیدگی کے بارے میں پیغام دیتا آ رہا ہے۔ تاہم ایسا کوئی اشارہ نظر نہیں آ رہا جس سے یہ ظاہر ہو کہ امریکہ، کم از کم اس وقت، پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو ختم کرنے کا خواہاں ہے، اور جتنی بھی بیان بازی ہم سن رہے ہیں وہ دباؤ بڑھانے کے لیے ہے نہ کہ اس کا مقصد کسی قسم کا قدم اٹھانا ہے۔ڈاکٹر مارون کا کہنا تھا کہ امریکہ نے جو کوئی بھی اقدامات اٹھائے ہیں وہ پاکستان کا تعاون حاصل کرنے کے لیے کیے ہیں۔ امریکہ کو اب بھی پاکستان کی شمولیت کی ضرورت ہے۔ اور وہ اس طرح سے کہ امریکہ وہاں کسی بھی بغاوت کے کامیاب انسداد کے لیے پاکستان کے کردار کو انتہائی اہم سمجھتا ہے۔ اس لئے وہ پاکستان کے کردار کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔
چندروز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب اپنے سالانہ خطاب میں کہا کہافغان طالبان کیساتھ امن مذاکرات نہیں کرینگے تو اس پر افغان طالبان نے بھی سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایسی حالت میں امریکی فوجیوں، ٹینکوں اور طیاروں نے ہماری سرزمین کو قبضہ کرلی ہے۔16برسوں سے افغان عوام کو قتل، افغانوں کے گاؤں اور گھروں پر بمباری کی جارہی ہے، لیکن اس کے باوجود افغان طالبان کو موردالزام ٹہرایا جاتا ہے کہ امریکی کے خلاف کیوں لڑرہے ہیں!!۔ افغان طالبان کا کہنا تھا کہ وطن عزیز میں بیرونی افواج کی موجودگی نہ صرف افغان عوام کے نظریے اور عقیدے کے خلاف ہیں، بلکہ عالمی قوانین کی رو سے بھی ناجائز عمل ہے، یہ بات وقتافوقتا ان منصف مغربی سیاستداروں اور لکھاریوں نے بھی کی ہے، جنہیں اقوام کی خودمختاری پر یقین ہے۔امارت اسلامیہ جنگ کو حل کی واحد راہ نہیں سمجھتی، مگر ملک کی آزادی کے حصول اور خودمختار اسلامی نظام کے قیام کے لیے دیگر معقول طریقے نہ ہونے کی صورت میں مزاحمت کے علاوہ کوئی اور انتخاب نہیں ہے۔لیکن استعمار ایسی حالت میں افغان طالبان سے جنگ لڑ رہے ہیں،کہ غاصب دن رات عام شہریوں پر بھی بمباریاں کررہا ہے، ان کے گھروں پر چھاپے مار رہے ہیں اور انہیں عقوبت خانوں میں ڈال رہے ہیں۔مسلح اور غیرمسلح افغانمیں تفریق نہیں کرتا اور اپنے اینٹلی جنس اور فوجی افراد کو صرف اس بہانے غیرمسلح سمجھتے ہیں، کہ ان کے ہاتھوں میں اسلحہ ہوتا اور نہ ہی وہ فوجی لباس میں ملبوس ہوتے ہیں۔جب تک جنگ میں ملوث جانبین جنگ بندی پر رضامندی اختیارنہ کریں، افغان طالبان سے جنگ بند کرنے کی توقع نہ رکھی جائے۔ جنگ بندی کے لیے جنگ کی اصل وجہ جارحیت کو ختم کرنا چاہیے، موجودہ مصائب اور بحرانوں کا خاتمہ کرنے کے لیے واحد راہ منطق اور عقل کو رجوع کرنا ہے۔ ظلم اور طاقت کا بول بولنا لڑائی ختم کرنے کا طریقہ نہیں ہے،اس بات کو جارحیت سے قبل امارت اسلامیہ نے استعمار کوبتائی تھی، مگر انہوں نے ماننے سے انکار کیا اور نتیجہ میں بھی مشاہدہ کرلیا۔امارت اسلامیہ نے ایک بارپھر اقوا م عالم کو یہ صائب پیغام دیا ہے کہ افغان مسئلے کا حل طاقت، ظلم اور جنگ نہیں ہے، بلکہ ہوش،عقل اور افغان عوام کی خودمختاری کا احترام کرتے ہوئے حل ہوسکتا ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
افغان طالبان کا ردعمل امریکا کی پالیسیوں پر ایک بین الاقوامی دوٹوک بیانیہ ہے۔ جس پر کابل حکومت کو اپنے بیانات و عوامل میں تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور امریکا انتظامیہ کو بھی واضح عندیہ ہے کہ افغان طالبان سے بامقصد مذاکرات کئے جاسکتے ہیں لیکن اس کے لئے پاکستان کی اہمیت کم نہیں کی جاسکتی۔ پاکستان روز اول سے اس بات پر زور دیتا رہا ہے کہ پائدار امن کے لئے ہمہ جہت پالیسی کو اختیار و اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ لیکن امریکی صدر اپنے سابقا پیشرو کے مقابلے میں کامیابی کے لئے اتنی عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ جیسے اُن کی ٹویٹ کرنے سے کوئی بھی ہتھیار ڈال دے گا۔ پاکستان نے امریکا کیلئے دو مرتبہ فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کیا ہے۔ جس میں ایک لاکھ کے قریب قیمتی جانوں کی قربانی اور 120ارب ڈالر کے نقصان کے علاوہ مملکت میں درپیش مشکلات ختم کرنے میں دشواریاں کے پہاڑ کھڑے ہیں۔ امریکا اور کابل حکومت کو اس بات کا بخوبی ادارک ہے کہ پاکستان اپنے اثر رسوخ کو استعمال کرکے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لا سکتا ہے لیکن انہیں یہ بھی ماننا ہوگا کہ ماضی میں پاکستان کی جانب سے کی جانے والی تمام امن کوششوں کو امریکا و کابل حکومت ہی سبوتاژ کرچکی ہے۔ پاکستان پر الزامات دھرنے اور پاکستان کو دیوار سے لگانے کے خواب دیکھنے کے بجائے امریکا کو اپنی پالیسی میں تبدیلی پیدا کرنا ہوگی۔ کابل حکومت بھارت کی ہمنوائی میں پاکستان پر مسلط ہونے کی کوشش نہ کرے تو اس سے بھی کئی مسائل جلد حل ہوسکتے ہیں خاص طور پر پاکستان جہاں شدت پسندوں کی پناہ گاہوں کو ختم کرچکا ہے اور مسلسل ان کا تعاقب کررہا ہے اس صورتحال کے بعد امریکا اور کابل کو پاکستان کے ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر بارڈر منجمنٹ میکنزم کو کابل حکومت جب تک اپنی انا کا مسئلہ بنائے رکھے گی اُس وقت تک پاک۔ افغان تعلقات میں بھی کڑواہٹ ختم میں دقت کا سامنا ہوگا۔ کابل حکومت اس بات کی خواہاں ہے کہ افغان طالبان سے مذاکرات کرنا ضروری ہیں لیکن ان کی دانست میں افغان طالبان سے مُراد کیا ہے اس کی وضاحت ضروری ہے۔ کیونکہ اب یہ بات اظہر من الشمس ثابت شدہ ہے کہ افغانستان کے 70فیصد کے قریب رقبے پر امارات اسلامیہ کی عمل درآری ہے۔کابل حکومت 50فیصد پر امارات اسلامیہ کا تسلط مان چکی ہے۔ تو اس صورتحال میں امریکا افغانستان کے طول و عرض پر جب پہلے ہی کارپیٹ بمباری کے ریکارڈ قائم کرچکا ہے۔امریکا کی مزید بمباریاں سوائے عام شہری کے جانی و مالی نقصان پہنچانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
امریکی اقدامات سے افغان۔پاکستانی عوام کی نفرت میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ اشرف غنی کا کہنا صائب ہے کہ افغان عوام سو برس بعد بدلہ لیں گے۔ لیکن اس میں پاکستان کو الزام ٹھہرانے کے بجائے انہیں 1978سے اب تک کی تاریخ حقائق کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ سوویت یونین کے شیرازہ بھی اس لئے بکھرا تھا کیونکہ افغان عوام نے اپنی سرزمین پر غاصبوں کے خلاف بدلہ لیا۔ اب امریکا بھی اسی صورتحال کا شکار ہے اور افغان عوام اگر امریکا اور افغان سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ غیر ملکی قوتوں کی جانب سے آزاد سرزمین پر غیر قانونی قبضہ ہے۔ افغان عوام پر جنگ کسی دوسرے نے نہیں بلکہ امریکا نے مسلط کی ہے جس سے آزادی حاصل کرنا افغان عوام کا قانونی و اخلاقی حق ہے۔ امارات اسلامیہ کی کاروائیوں کو افغانستان کی صورتحال کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اس سلسلے میں ایک بردار اسلامی ملک اور ثقافتی اعتبار سے قریب ہمسایہ ہونے کے ناطے فعال کردار ادا کرسکتا ہے لیکن امریکی رویئے کی وجہ سے خطے میں قیام امن میں ناکامی کی مکمل ذمے داری امریکا پر عائد ہوتی ہے۔پاکستان کے وزیر داخلہ احسن اقبال نے امریکا رویئے کی تبدیلی کا اشارہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ پاکستان کو دی جانے والی اقتصادی امداد نہیں روکے گا۔یہ بات انھوں نے ایک ایسے وقت کہی ہے جب گذشتہ روز بدھ کو امریکی کانگریس میں پاکستان کو دی جانے والی اقتصادی امداد روکنے کا مطالبہ کرتے ہویے ایک بل پیش کیا گیا جبکہ امریکہ نے پہلے ہی پاکستان کو فوجی امداد نہ دینے کا اعلان کر رکھاہے۔ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے حوالے سے امریکہ میں (پالیسی کے لحاظ سے) نئے تجربات کیے جا رہے ہیں لیکن پاکستان اور افغانستان کا جغرافیہ ایک ہی ہے اس لیے امریکہ کے لیے افغانستان میں امن کی کوششوں میں دنیا میں کوئی ملک پاکستان سے زیادہ اہم اور مددگار نہیں ہو سکتا۔انھوں نے خطے میں امریکہ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک اہم ہیں اس لیے ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھاانے کے بجائے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
امریکی عوام کو پہلے ہی شدید ترین مالیاتی بحران کا سامنا ہے۔ اور دوسری جانب افغان جنگ میں سالانہ45ارب ڈالرز کے اخراجات کرنا خود امریکی عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔ امریکی حکام پاکستان کے حوالے سے متعدد اقسام کی مالیاتی بندش کیلئے مختلف توجہیات تراش لی جاتی ہیں۔امریکا افغانستان میں جنگ بندی کیلئے اپنی جارحانہ پالیسیوں میں افغان طالبان کے خلاف عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے ایک نئی جنگی پالیسی کوبھی اختیار کررہا ہے۔ اسی ضمن میں کابل حکومت کی جانب سے افغان فوج میں سینکڑوں فوجی افسران کی جبری سبکدوشی بھی شامل ہے اوردوسری جانب امریکی طیاروں کی جانب سے بمباری کے ایک نیا سلسلہ بھی شروع ہوا ہے۔ امریکی فوج کے مطابق فضائی حملوں کے دوران شمال مشرقی افغان صوبہ بدخشاں میں طالبان کے تربیتی کیمپوں کو ہدف بنا کر تباہ کیا گیا جس کی افغان طالبان نے سختی سے تردید کی کہ ان کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔مشرقی ترکستان اسلامی تحریک (اِی ٹی آئی ایم) پر حملوں کے حوالے سے امریکا کا مقصد یہ بھی ظاہر کرنا ہے کہ وہ چین میں اسلام پسندوں کے خلاف بھی کاروائی کررہا ہے، لہذا چین کو امریکا کی حمایت کرنی چاہیے۔امریکا کا ظاہر کرنا یہ ہے کہ مشرقی ترکستان اسلامی تحریک (اِی ٹی آئی ایم) کے تربیتی کیمپ افغانستان کے اندر ہونے والی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ چین اور تاجکستان کے سرحدی علاقے میں اِی ٹی آئی ایم کی دہشت گرد سرگرمیوں کی بھی حمایت کرتی ہیں۔اسی طرح مزید کہا گیا ہے کہ افغان سلامتی افواج شدت پسندوں پر بھی حملے کرتی ہیں، جو داعش کی افغان شاخ سے منسلک ہیں، جن کی یہ کوشش ہے کہ شمالی افغانستان میں پیر پختہ کیے جائیں۔واضح رہے کہ اِی ٹی آئی ایم نسلی یغور مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہے، جس کا تعلق چین کے کشیدگی کے شکار مغربی سنکیانگ علاقے سے ہے، جس کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔چین کے حکام اِی ٹی آئی ایم پر سنکیانگ اور ملک کے دیگر علاقوں میں حملے کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔پاکستان میں تعینات افغانستان کے سفیر ڈاکٹر حضرت عمر زاخیلوال کا ماننا رہا ہے کہ پاکستان اب بھی افغان طالبان پر اثر و رسوخ رکھتا ہے اور پاکستان نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کی تھی لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج نہیں نکل سکے۔
دوسری جانب کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں نائب امریکی وزیر خارجہ جان سلون نے امارت اسلامیہ پر دباؤ ڈال کر حقیقت سے چشم پوشی اور مزید غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ امریکا اور کابل حکومت کوپاکستان کے اس موقف کو سمجھنا ضروری ہے کہ،ان امریکی جنگی جنرلوں کے گذشتہ سولہ برسوں کی ناکام حکمت عملی اور عمل سے امن کے قیام کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکتا بلکہ اسی طرح کے رویوں سے جہاں نتائج پیدا نہیں ہوتے تو دوسری جانب امریکہ مزید مسائل میں الجھ کر مزید تباہی کی جانب دھکیل جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کو کو سمجھنا چاہیے کہ افغانستان کا اصل مسئلہ بیرونی جارحیت ہے، انگریز اور سابق سوویت یونین کی جارحیت اور بعد میں شرمناک شکست، اسی طرح گذشتہ سولہ برسوں میں امریکہ کو پہنچائے جانے والے جانی و مالی نقصانات واضح کرتی ہے کہ افغان عوام کسی کی طاقت اور دباؤ کے سامنے نہیں جھکتے اور اس نقطہ کو سنجیدگی سے سمجھنا چاہیے۔جنگ میں مسلسل نا کامی اور شکست کے باوجود طاقت اور دباؤ کی باتوں کو دہرا نا، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یا تو وہ حالت کو صحیح طور پر سمجھ نہیں پا رہے اور یا ممکن جان بو جھ کرجنگ کو طول دینا چاہتا ہے، تاکہ افغانستان اور خطے میں جارحانہ اور غاصبانہ مطالبات اور مقاصد کو تلاش کریں۔امریکا اور کابل حکومت پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اور افغان مہاجرین سمیت امن کوششوں کو نظر انداز کرنے کی پالیسی کو ختم کرکے باہمی اعتماد میں تعاون کی جانب قدم بڑھائے تو بہتر ہے۔اسی ہدف کے لیے وزارت دفاع کو نئی پالیسی کو اپنانے کی ضرورت ہے کہ مزید (سپرپاور کا مقابلہ) امریکی پالیسی کا اہم نقطہ نظر ہوگا۔ایسی پالیسی جس سے امریکہ بیشک دنیا اور باالخصوص خطے کی بدامنی اور اسے مزید جنگ میں دھکیلنے کی جدوجہدکو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔