تحریر حاجی زاہد حسین خان جدہ کے ساحل سمندر پر واقع آٹھ رویہ طویل شارع الکورنیش آگے جا کر ایک طرف کنگ عبدالعزیز ائر پورٹ کی جانب موڑ جاتی ہے۔تو دوسری طرف رابع شہر کو جا ملتی ہے۔ قارئین اس خوبصورت شائراہ کی ایک جانب گہرا ترین سمندر اور دوسری طر ف آسمان کو چھوتی دیدہ زیب عمارتیں کھڑی ہیں۔ سمندر میں بنی خوبصورت مساجد رنگ برنگے جھولے مطعم کاٹیج جن میں شہر آٹن ، میریٹ اور مریڈیان ہوٹل جیسے سیون سٹار اور فائیو سٹر ہوٹلز قائم ہیں۔ ایک رات ان ہوٹلز میں سے نقاب اور عبائے میں سر سے پائوں تک پردے میں ایک نوجوان لڑکی اکیلی روڈ پر آئی لیموزین کو ہاتھ دیا گاڑی میں بیٹھی۔ ڈرائیور کو حکم دیا سارے ساحل سمندر کی سیر کو چلیں میٹر آن کر دیں کافی آگے جا کر چار نوجوان سعودی اوباش لڑکے اس لیموزین کے پیچھے لگ گئے۔
کبھی ان کی گاڑیاں آگے کبھی لیمو زین آخر کار ایک کھلی جگہ ان چاروں نے لیموزین کو سنٹر میں لا کر اطراف میں اپنی گاڑیا لگا کر روک لیا۔ اور ڈرائیور کو کہا کے دروازہ کھولو لڑکی کو باہر نکالو ۔ ڈرائیور انکار کرتا رہا۔ لیکن کب تک تنگ آکر وہ خود دروازے لاک کر کے نیچے اترا لڑکوں کو راستہ چھوڑنے کو کہا مگر وہ نہ مانے تنگ آکر اس نے اپنی کوہاٹی چپل اتاری اور دے مار ساڑھے چار لڑکوں نے اسے کہا تم اس لڑکی کے لئے کیوں لڑتے ہو یہ تمہاری بہن تھوڑی ہی لگتی ہے۔ ڈرائیور نے جذبات میں کہا ہاں ہاں یہ میری بہن ہی ہے۔
گاڑی کے اندر لڑکی بیٹھی ہوئی یہ سب سن دیکھ رہی تھی۔ اور فون پر اپنے سیکیورٹی والوں کو اطلاع دے رہی تھی۔ آنا فانا پولیس پہنچ گئی ۔ ان اوباش لڑکوں کو گاڑی میں ڈالا ۔ لیموزین کو ڈرائیور سمیٹ درجن بھر پولیس کی گاڑیوں کے پروٹوکول میں وہ ہوٹل جا پہنچے ۔ اس لئے کہ وہ کوئی عام لڑکی نہ تھی ریاض سے شاہی خاندان کی بیٹی فرانس میں تعلیم حاصل کرتے چھٹیوں پر گھر آئی۔ جدہ شہر اور ساحل سمندر کی سیر کو نکلی تھی۔ سکیورٹی کو اطلاع دیئے بغیر ہوٹل سے نکلی وہ ایک شہزادی تھی۔ قارئین وہ نوجوان ڈرائیور اپنی جان پر کھیل کر لڑنے بھڑنے والا ایک عام دکھنے والا لڑکی کو اپنی بہن کہہ کر مار کھانے والا جوان بھی ہمارے مظفرآباد کا رہنے والا کشمیری پاکستانی تھا۔
شہزادی نے اسے اپنے کمرے میں بلایا اور اپنی ڈبڈبائی آنکھوں سے پوچھا اے اجنبی نوجوان تم نے میری خاطر اپنی جان خطرے میں ڈالی اور مجھے اپنی بہن بنایا۔ کیوں۔ پھر اس کشمیری نے وہ تاریخی جملہ کہا اے بہن میری غیرت نے اجازت نہ دی کہ میں ایک عام سی نہتی جوان لڑکی کو رات کے اس اندھیرے میں چار غنڈوں کے حوالے کر دوں کیوں کہ میں بھی گھر میں اپنی چار بہنوں کا اکیلا بھائی ہوں پھر شہزادی پھوٹ پھوٹ کر روئی۔
سعودی شاہی پولیس نے اسے بھی تشکر بھری نظروں سے دیکھا اور پھر دوسرے دن ہمارا کشمیری بھائی سبز پاسپورٹ کا حامل پاکستانی شاہی قافلے کا شریک بنا۔ ریاض میں شاہی خاندان کا فرد اور شہزادی محترمہ کا سال میں صرف دو ماہ کے لئے ڈرائیور خاص بنا اور کئی اپنے پاکستانیوں کی روزی اور اپنے ملک پاکستان کی عزت و توقیر کا باعث بنا۔ قارئین یہ ہوتی ہے انسانیت غیرت مندی اور اسلامی معاشرے کے ہر فرد کی سیرت ۔ مگر بدقسمتی سے آج ہمیں اپنے ہی وطن اپنے ہی معاشرے میں کہیں بھی وہ غیرت مندی نظر نہیں آتی ۔ ہر کوئی درندگی حیوانیت پر اتر آیا ہے۔ بھوکے بھیڑیوں کی طرح جنگل کے درندوں کی طرح ۔ اپنے ہی وطن کی معصوم بیٹیوں کو نوچ رہا ہے۔ کھسوٹ رہا ہے۔ وطن کی مائوں بہنوں کی عزتیں عصمتیں تار تار کر رہا ہے۔ عرب کے پرانے وحشیوں کی طرح شہر شہر قصبے قصبے معصوم بچیاں زندہ درگور کر رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اور انکی معاشرت کی چھڑی اوڑھے ۔ اسلامی سزائوں جزائوں سے بے پرواہ ہو کر جنگل کے سے قانون اور معارے کا عملی ثبوت پیش کر رہا ہے۔
کہاں گئی ہماری وہ غیرت کہ عرب کا ایک نوجوان ہمارے سندھ میں آکر اپنی مسلم بہنوں کی حفاظت کرتا ہے بچاتا ہے۔ عراق کا عباسی خلیفہ روم کے قیصر کے ہاں قید اپنی مسلمان بہنوں کو آزاد کراتا ہے۔ اور پھر ہمارا کشمیری پاکستانی یہ نوجوان مزدور جدہ کے ساحل میں ایک مسلمان مگر عام سی لڑکی کی عزت بچانے رات کو سینہ سپر کھڑا ہوجاتا ہے ہمارے نوجوان ان سے سبق سیکھیں ۔ غیرت کریں شرم کریں ہم بھی ایک اسلامی ملک اسلامی معاشرے کے افراد میں سے ہیں۔ ہم تو اپنے ملک کی ہر فاطمائوں عائشہ اور ہر مذہب کی معصوم بہنوں کی عزتوں عصمتوں کے محافظ ہیں۔ کوئی گھر ان فاطمائوں عائیشائوں زینبوں سے خالی نہیں۔ اسلامی معاشرے میں تو ایک عورت کھلے عام گھر سے بے خوف وخطر باہر نکلا کرتی ہے۔ پھر یہ ظلم اور بربریت کیوں۔ بچے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔ انسانی جانیں تو ایک جیسی ہوتی ہیں۔ ہماری حکومت اپنی جگہ مجرم ہے مگر ہم بحیثیت ماں باپ معلم مدرس ۔ اپنے اس معاشرے کی بدیانتی بدکرداری بربریت کے کہیں نہ کہیں تھوڑا بہت ضرور ذمہ دار ہین۔
ہم اپنی نوجوان اولادوں کی تربیت کرنے پڑھنے سیکھانے جیسے فریضہ سے؛ عہدہ برآہ نہ ہو سکے۔ قوم وملک اور اپنے اسلامی معاشرے کے مجرم ہیں قانون شکنی کے مرتکب ہیں۔ اگر ہم اپنے فرائض منصبی کا حق ادا کریں ہمارے حکمران قانون پر عملدرآمد کرائیں عدلیہ عدل و انصاف مہیا کرے سزا و جزا پر عمل ہو تو خدا کی قسم اس ملک کی کوئی زینب درندگی کا شکار نہ ہو اور نہ ہی انکی مائیں گھر گھر آہ و بکا کریں۔ اور بوڑھے باریش باپ اپنی بے بسی پر آنسو نہ بہائیں۔ کرسی اور اقتدار کے لئے لڑنے والو اے ہمارے حکمرانو اپنے قوم کے ہر فرد کو جان و مال عزت و عصمت کا تحفظ دو ورنہ تاریخ سے سبق سیکھو ۔ یہ تخت و طائوس جب ظلم اور جبر سے بڑھ جائیں تو اکثر تختہ دار کی صورت اختیار کر لیا کرتے ہیں۔ ( یا اولی الابصار )
Haji Zahid Hussain
تحریر حاجی زاہد حسین خان ممبر پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ پاکستان hajizahid.palandri@gmail.com