تحریر : قادر خان یوسف زئی افغانستان اس وقت نئی زمینی تبدیلی سے گذر رہا ہے لیکن امریکا حقائق کا ادارک کرنے کے بجائے جنگ کو طول دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت وقت کے ساتھ ساتھ سکڑتی جا رہی ہے اور امارات اسلامیہ افغانستان (افغان طالبان) کی عملدرآری بڑھتے ہوئے افغانستان کے 70فیصد سے زائد حصے پر قائم ہوچکی ہے۔ امریکا اور کابل دوہری حکومت کو مسئلے کا کوئی حل سجھائی نہیں دے رہا اور روز بہ روز بگڑتی صورتحال کی وجہ سے غنی حکومت کی 30فیصد حصے پر بھی گرفت کمزور ہوچکی ہے یہاں تک کہ کابل جیسا حساس ترین شہر بھی محفوظ نہیں ہے۔ امریکی حکومت کے سرکاری ادارے اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغان ری کنسٹرکشن نے اپنی ایک رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ امریکا افغانستان میں کنٹرول کھو رہا ہے۔”سیگار”(Special Inspector General for Afghan Reconstruction) نے افغانستان کی مجموعی صورتحال کے حوالے سے ایک رپورٹ مرتب کی ہے جو امریکی کانگریس، محکمہ دفاع اور محکمہ خارجہ کو بھیجی گئی۔”سیگار” (SIGAR) نے اپنی رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ امریکا افغانستان میں کنٹرول کھو رہا ہے اور امریکا کے زیر کنٹرول اضلاع کی تعداد کم ہو رہی ہے، جبکہ افغان طالبان کے علاقوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ سیگارآفس جان سویکونے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ گزشتہ11 مہینوں میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت میں اضافہ جبکہ افغان فوسرز کے سپاہیوں کا ہلاک کئے جانا روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ صرف ایک مہینے(اکتوبر) میں 653ٹھکانوں پر فضائی بمباری بھی کی گئی۔(اس بمباری میں عام شہری بڑی تعداد میں جاں بحق ہوئے، فضائی بمباری امریکی و افغان افواج کا معمول ہے۔ ان بمباریوں سے عام شہری زیادہ نشانہ بنتے ہیں)۔سیگارآفس جان سویکوکی رپورٹ میں افغانستان میں مالی بدعنوانی کو بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ منشیات پر کنٹرول کے لئے8ارب 70کروڑ ڈالرز دینے کے باوجود گزشتہ برس کی با نسبت افغانستان میں 87فیصد افیون کی پیداوار ہوئی ہے جبکہ پوست کے زیر کاشت رقبے میں بھی63فیصد اضافہ ہوا۔
امریکی سرکاری ادارےSIGAR کی چشم کشا رپورٹ یقینی طور پر امریکا کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ8ارب 70کروڑ ڈالرز کی رقم کس کی جیب میں ہے۔واضح رہے کہ یہ امریکی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کو افغانستان کی تعمیر نو کے حوالے سے دی جانے والی اپنی نوعیت کی یہ پہلی رپورٹ ہے۔جس میں افغانستان میں تعمیر ِ نو کے حوالے سے بد عنوانی کی بڑی تارک تصویر پیش کی گئی ہے۔ SIGAR کی یہ رپورٹ269صفحات پر مشتمل ہے۔SIGAR ہر تین مہینے بعد افغانستان کی تعمیر ِ نو کے حوالے سے رپورٹ مرتب کرتا ہے۔ امریکا 2002ء سے اب تک افغانستان میں تعمیر نو کے نام پر 117ارب ڈالر کابل حکومت کو فراہم کرچکی ہے۔واضح رہے کہ جان سویکو کے دفتر نے 99ملین ڈالر کے ایک ایسے تعمیراتی معاہدے کو بھی منسوخ کردیا تھاجس میں ہوٹل اور رہائشی اپارٹمنٹس پر مبنی عمارت کے کنٹریکٹرز کو ادائیگی نہیں کی جا رہی تھی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سیگارآفس 2008سے ایسی رپورٹس مرتب کررہی ہے جس میں افغانستان میں تعمیر ِ نو کے نام پر امریکی اور افغان کنٹریکٹرز کی مالی بدعنوانیوں اور بد انتظامیوں کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ جان سویکو کے اپنی رپورٹ میں واضح طور پر بتایا ہے کہ 15برس کا عرصہ گذر نے اور اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے باوجود ملک میں تعمیر ِ نو کا عمل کمزور اور نامکمل ہے۔ افغانستان مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی68برس کی تاریخ کی سب سے طویل جنگ میں سیگارآفس جان سویکو کی رپورٹ کے مطابق افغان نیشنل آرمی کی نفری کم ہو رہی ہے اور افغان طالبان حاوی ہو رہے ہیں۔افغان وزرات دفاع کی اس رپورٹ سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ افغان سیکورٹی فورسز نے پچھلے تین ماہ میں 700آپریشن کئے جبکہ کابل حکومت کے خلاف19ہزار حملے ہوئے۔
امریکی ادارے SIGAR کی رپورٹ کے مطابق 2015ء کے مقابلے میں 2016ء میں افیون کی پیداوار میں 43 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق 2016ء میں کاشتکاروں نے پوست کے پودوں سے تقریباً 4 ہزار8 سو ٹن افیون تیار کی۔پوست کی فصل تباہ کرنے کے سرکاری اقدامات میں بھی کمی آئی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 2016ء میں صرف 355 ہیکٹر (877 ایکڑ) رقبے پر پھیلی پوست کی فصلیں تباہ کی گئیں، جو کہ گزشتہ دَس سال میں سب سے کم رقبہ تھا۔افغانستان کے صوبے اروزگان میں پوست کے کھیتوں کا پھیلاؤ بذات خودحیران کن ہے۔واضح رہے کہ اروزگان کے دارالحکومت ترین کوٹ میں صوبے کے گورنر کے دفتر کے قریب ہی پوست کا کھیت ہے جس کی وجہ سے یہ الزامات عائد کیے جاتے ہیں کہ سرکاری اہلکار پوست کی کاشت سے فائدہ اٹھا تے ہیں۔ یہ علاقہ حکومت کے کنٹرول میں ہے لیکن انتظامیہ یہاں جانے سے گھبراتی ہے۔ اروزگان کے گورنر محمد نذیر نے اے ایف پی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ، زبردستی پوست کی کاشت کو رکوانے سے اقتصادی مشکلات بڑھیں گی اور لوگ(افغان) طالبان کے حامی ہوجائیں گے اور انہیں اپنے گھروں میں پناہ دیں گے۔قبائلی سردار عبدالباری توخی کا خاندان نکیل میں کئی سو ایکڑوں پر محیط زرعی زمین کا مالک ہے۔ توخی کا ماننا ہے کہ، افغانستان جنگ زدہ ملک ہے، یہاں بہت زیادہ بے روزگاری ہے، لوگ یہ کہتے ہیں کہ افغانستان میں اگر پوست نہیں ہوگی تو یہاں کوئی جنگ نہیں ہوگی لیکن ہمارے لیے اگر یہاں پوست نہیں ہوگی تو نہ روزگار ہوگا اور نہ لوگوں کو کھانے کے لیے کچھ ملے گا۔گورنر کا اعتراف ثابت کرتا ہے کہ افغانستان میں پوست کی کاشت و افیون و ہیروئین کی اسمگلنگ میں مرکزی کردار حکومتی حکام ہیں۔
افغانستان میں افیون کی آمدنی میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ 2017میں تقریباََ ایک عشاریہ چار بلین ڈالر مالیت کی افیون فروخت کی گئی تھی۔ اس وقت افغانستان دنیا بھر میں ہونے والی افیون کی کُل پیداوار کا تقریباََ80 فیصد پیدا کررہاہے۔2017میں اقوام متحدہ کے منشیات اور جرائم کے دفتر (یو این او ڈی سی) سے جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں 87 فیصد اضافے کے ساتھ افیون کی پیداوار میں ریکارڈ حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ہیروئن افیون ہی سے تیار کی جاتی ہے اور رواں برس اس کی پیداوار تقریباََ ََ 09 ہزار میٹرک ٹن رہی ہے۔ گزشتہ برس قریب 2 لاکھ 10 ہزار ہیکٹر رقبے پر افیون کاشت کی گئی۔ افیون کی کُل پیداوار کا قریب 90 فیصد افغانستان میں پیدا ہوتا ہے۔2013ء میں افغانستان میں 5500 ٹن افیون پیدا کی گئی جو اس سے گزشتہ برس کی پیداوار کے مقابلے میں قریب 50 فیصد زائد تھی۔افغان کسانوں کے لیے افیون کی کاشت کی ایک اہم وجہ اس سے ہونے والی بڑی آمدنی ہے۔ غیر قانونی ہونے کے باوجود ایک کلوگرام افیون کی قیمت 150 امریکی ڈالرز کے برابر ہے۔اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق افغانستان میں قریب 15 لاکھ افراد منشیات کی عادی ہیں جن میں سے قریب تین لاکھ بچے ہیں۔ افغانستان حکومت پر مالی بدعنوانیوں اور بدترین انتظامیہ کا دھبہ اقوام عالم کیلئے لمحہ ئ فکرہے کہ امریکا کی جانب سے117ارب ڈالرز صِرف تعمیر نو کے نام پر دیئے جاچکے ہیں لیکن اس بھاری رقوم کا استعمال مفاد عامہ کے بجائے مالی بدعنوانی ملوث حکومتی عہدے داروں میں بندر بانٹ کی صورت میں ہوا ہے۔ امریکی حکومت کے سرکاری ادارے اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغان ری کنسٹرکشن آفس جان سویکو کی جانب سے گزشتہ دنوں امریکی انتظامیہ کو دی جانے والی رپورٹ صدر ٹرمپ کے لئے بھی نوشتہ دیوار ہے کہ جنگ کے دوران کھربوں ڈالرز کے اخراجات کے علاوہ117ارب ڈالرز تعمیر نو کے نام پر دی جانے والی امداد(جو امریکی عوام کے ٹیکسوں سے وصول کی جاتی ہے)، ضائع ہو چکی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ افغان طالبان نے اپنے دورِ حکومت کے آخری برسوں میں منشیات کی پیداوار پر پابندی لگا دی تھی جبکہ طالبان کی حکومت ختم ہونے کے ساتھ ہی منشیات کی پیداوار میں بہت زیادہ اضافہ ہو تا چلا گیا۔علاوہ ازیں امریکی حملے کے بعد جب افغان طالبان کی حکومت ختم ہوئی تو امریکی کٹھ پتلی حکومت اور نیٹو افواج ے ناک کے نیچے دوبارہ پوست کی کاشت کا آغاز ہوا اور اب 12برسوں کی مجموعی رپورٹ کو دیکھنے کے بعد کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ بد امنی و حکومتی سرپرستی کے سبب پوست کی کاشت میں اضافہ اور منشیات کی اسمگلنگ عروج پر پہنچ چکی ہے۔تاریخ دان Alfred McCOY,، برطانیہ کے پروفیسرPeter Dale Scott اور معروف صحافی Gary Webb, Michjael C Ruppert,Alexander Cockburn نے اپنے علیحدہ مضامین اور رپورٹس میں حیران کن انکشافات کرتے ہوئے ثابت کیا کہ امریکی ادارے جن میں سی آئی اے سر فہرست ہے افغانستان سے منشیات کے گھناؤنے کاروبار میں ملوث ہیں اور امریکہ کے افغان جنگ میں کئے گئے اربوں ڈالرز کے جنگی اخراجات پوست کی کاشت اور پھر اس سے تیار کردہ ہیروئین کی سمگلنگ سے پورے کئے جا رہے ہیں۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کا سب سے خاص پہلو یہ ہے کہ افیون کی کاشت میں اضافہ افغانستان کے شمالی صوبوں بلخ،جاؤز جان، بغلان اور سرائے پل میں ہوا جہاں افغان طالبان کا دور دور تک بھی عمل دخل نہیں تھا بلکہ یہ سب امریکی اور افغان فورسز کے مکمل کنٹرول میں رہے۔
امریکن ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی کے ایجنٹ Edwrad Follisکے میڈیا سے کہے گئے یہ الفاظ کہ ” سی آئی اے نے افغانستان میں پوست کی کاشت اور ہیروئین کی تیاری سے سمگلنگ تک کے تمام مراحل سے جان بوجھ کر آنکھیں بند کر رکھی ہیں147 آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ امریکی سی آئی اے کے ایک War Vetran۔۔۔ JOHN ABBOTSFORD جو افغان جنگ میں براہ راست حصہ لیتا رہا اس نے خود تسلیم کیا ہے کہ سی آئی اے کا افغانستان میں سب سے بڑا کردار منشیات کی سمگلنگ سے متعلق ہے۔کچھ برس ہوئے معروف ہیومن رائٹس ترجمان Malalai Joyaنے افغانستان میں اپنے عرصہ قیام کے دوران کی جانے والی تحقیق کے حوالے سے رپورٹ دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکن سی آئی اے نے کچھ وار لارڈز اور شمالی افغانستان کے گورنرز کو اپنا آلہ کار بنارکھا ہے جن کی نگرانی میں پوست کاشت کی جاتی ہے اس کی یہ رپورٹ برازیل کے اخبار میں بھی شائع ہو چکی ہے۔ تفصیلی رپورٹ ذریعے ثابت کیا ہے : Afghan narcotics economy is a designed project of the CIA, supported by US foreign policy۔۔۔!! افغانستان کی تعمیر نو سے متعلق خصوصی انسپکٹر جنرل جان سوپکونے اپنے ایک انٹرویو میں کہ چکے ہیں کہ ” لوگوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ بدعنوانی صرف پیسے کی نہیں ہوتی۔اس کا تعلق زندگی سے بھی ہے۔جنگ کی کامیابی کی راہ میں سب سے بڑا خطرہ بدعنوانی ہے۔ بدعنوانی افغان حکومت (کے وسائل) کی چوری ہے۔بدعنوانی اصل میں تنخواہوں اور ہتھیاروں کی خرد برد ہے، یہ سرکاری ایندھن کی خرد برد ہے۔”انہوں نے ایک ٹھیکہ جس میں دہشت گردوں کی طرف سے نصب بموں سے سڑکوں کو محفوط بنانا تھا، کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ٹھیکہ ایک امریکی کمپنی کو دیا گیا تھا جس میں افغان (کمپنی) نے کام کرنا تھا۔ لیکن رقم خرد برد کر لی گئی اور ضروری کام نا کیا گیا۔سو پکو نے وائس آف امریکہ کی افغان سروس سے ایک انٹرویو میں کہا کہ ”اس کے نتیجے میں فوجی اہلکار ہلاک ہو گئے۔ اس طرح کی کئی مثالیں ہیں۔جہاں بدعنوانی کی وجہ سے فوجیوں کو مناسب گولیاں اور بندوقیں میسر نہیں تھیں۔ ان کے پاس کافی ایندھن، خوراک یا کافی طبی سامان اس لئے نہیں تھا کہ یہ خرد برد کر لیا گیا۔”انہوں نے کہا کہ ”افغان عوام کو بھی اس پر اسی طرح اس پر رنج ہونا چاہیے جیسے مجھے اور امریکی ٹیکس دہندگان کو بدعنوانی سے متعلق ہے۔”سو پکو نے کہا کہ ”امریکہ بھی اس کا ذمہ دار ہے۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بہت تیزی کے ساتھ افغانستان جیسے چھوٹے ملک کو بغیر کوئی نگرانی کے طریقہ کار کے بہت زیادہ رقم فراہم کی۔”انہوں نے کہا کہ جب اس طرح کی صورت حال درپیش ہوتی ہے تو بدعنوان افراد خرد برد کریں گے اور پھر وہ عہدیداروں کو بھی رشوت دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے سے نمٹنے کے لئے امریکہ کو افغانستان کو بھیجے جانے والے اربوں ڈالر کی امداد کی موثر نگرانی کر کے ایک بہتر کردار ادا کر سکتا تھا۔ انہوں نے کہا اگرچہ افغانستان کو فراہم کی جانے والی بہت ساری امداد ضائع ہو گئی تاہم اس کا باقی کا ایک بڑا حصہ بدعنوانی کی نظر ہو گیا۔سوپکو نے کہا کہ ”ہم نے 100 ٹھیکیداروں، امریکی حکومت کے ملازمین، امریکی فوج کے ملازمین کو گرفتار کر لیا تھا اور اب وہ قید کاٹ رہے ہیں۔”انہوں نے کہا کہ ”ہم نے ایک ارب ڈالر بطور جرمانہ اور رقم کی واپسی کے طور پر برآمد کیا ہے۔” خصوصی انسپکٹر جنرل جان سوپکو کا یہ اعتراف اقوام متحدہ کو غور وفکر کی دعوت دیتا ہے۔ امریکا افغانستان میں مالی بدعنوانیوں و منشیات کے خاتمے میں ناکام ہوچکا ہے۔ افغانستان حکومت کو تعمیر نو کی مد میں ملنے والے117ارب ڈالرز بھی رائیگاں چلے گئے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک جانب امریکا افغانستان میں تعمیر نو کے نام پر اربوں ڈالرز دے رہا ہے تو دوسری جانب آپریشن کے نام پر امریکی بمباریوں سے افغانستان کے کئی علاقوں میں افراسٹرکچر بھی تباہ ہورہا ہے۔ امریکی فوج کے ساتھ افغانستان میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے لڑنے والے نیشنل آرمی اور قومی پولیس کہلاتے ہیں۔
مختلف رپورٹس کے مطابق فوج اور پولیس میں شامل اکثر اہل کار منشیات کے عادی اور مختلف جرائم سمیت اخلاقی کرپشن میں ملوث ہیں۔ افغانستان میں مختلف صوبوں میں ان کے غیرانسانی اعمال اور سلوک کے خلاف مظاہرے ہو چکے ہیں۔ فوج اور پولیس کے غیرانسانی سلوک کے خلاف ملکی اور غیرملکی میڈیا میں رپورٹیں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ افغانستان میں امریکی اخراجات کی نگرانی کرنے والی تنظیم سیگار نے بھی بارہا کہا ہے کہ امریکا کے اربوں ڈالر ان مسلح افراد (قومی فوج اور پولیس) پر خرچ ہو گئے ہیں، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ وہ انسانی اقدار کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے بھی حال ہی میں ایک خبر شائع کی، جس کے مطابق 2010 سے 2016 تک امریکی فوج نے افغان فوجیوں کے 5753 مجرمانہ مقدمات ریکارڈ کیے ہیں۔ ان مقدمات میں تشدد، ماورائے عدالت قتل اور جنسی تشدد کے واقعات شامل ہیں۔ گزشتہ چھ سالوں کے دوران کابل انتظامیہ کے مسلح اہل کاروں نے ہر سال تقریبا 1000 جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔اجرتی فوج اور پولیس کے جرائم کے مذکورہ اعداد و شمار وہ ہیں، جو امریکی فوج کی لسٹ میں رجسٹرڈ ہیں۔ جب کہ غیردرج شدہ واقعات اور جرائم کے اعداد و شمار دوگنا زیادہ ہیں۔ کابل انتظامیہ میں شامل مسلح جرائم پیشہ عناصر افغانستان میں امن کے قیام میں سب سے بڑی رکاؤٹ ہیں۔09نومبر 2017ء کو بلجیم کے دارالحکومت بروکسل شہر میں نیٹو وزراء دفاع نے بھی کرپشن کے روک تھام کے مطالبے کو شدت سے دہرایا۔14 نومبر 2017ء کو نیشنل آرمی کے ترجمان نے بتا یا تھا کہ تقریباََ سات مہینوں میں 1700 مقدمات کی چھان بین ہوئی اور ان میں سے تقریبا ایک ہزار کو فوجی عدالتوں میں بھجوائے جاچکے ہیں اور بعض کے لیے سالوں کی قید اور حتی سزائے موت کا اعلان بھی ہوا ہے۔
امریکا اور دیگر اہم اداروں کی رپورٹس کا غیر جانبدارنہ موازنہ کیا جائے تو یہ اندازہ لگانے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی کہ کابل حکومت کے مسلح اداروں میں کرپشن ناسور بن چکی ہے۔ ان حالات میں ان کی توجہ ملک میں امن و امان اور عوام کے فلاحی منصوبوں کے بجائے صرف اپنی جان بچانے اور کرپشن پر مرکوز رہتی ہے۔ افغان نیشنل آرمی کی صرف سات مہینوں کی چھان بین رپورٹ ظاہر کررہی ہے کہ بد عنوانی، کرپشن اور منشیات فروشی میں صرف نچلے درجے کے اہلکار ہی ملوث نہیں ہیں بلکہ سیگار آفس کے مطابق 117ارب ڈالرز کی مالی بدعنوانیوں میں امریکی کمپنیاں بھی ملوث ہیں۔ اب اس بات کا فیصلہ کرنا امریکی انتظامیہ کا کام ہے کہ افغانستان میں امریکی شکست کے ذمے دار خود غیر ملکی افواج اور افغان سیکورٹی و ملکی انتظامیہ کے کرپٹ حکام ہیں۔ امریکا اب تک افغانستان کی جنگ میں کئی ٹریلین ڈالرز نقصان کرچکا ہے۔ کابل حکومت انتظامی انصرام میں ناکام ہوچکی ہے۔ ان حالات میں افغان عوام اُن علاقوں میں خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں جہاں کابل و امریکا کی عملدآری نہیں ہے۔ کابل میں موجودہ واقعات کی آڑ لیکر امریکا کے عزائم کھل کر سامنے آچکے ہیں کہ وہ پاکستان کے کندھے پر بندوق رکھ کر چین کو معاشی سپر پاور بننے سے روکنا چاہتا ہے۔ اس کے لئے افغانستان میں امن سے زیادہ لاقانونیت کو ضروری سمجھتا ہے۔ اسی لئے امریکی صدر ٹرمپ نے واضح اعلان بھی کردیا کہ وہ افغان طالبان کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں کریں گے جس پر افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کا بیان کہ امریکا کی اس پالیسی کی مخالف کرتا ہوں کیونکہ اس سے افغانستان میں جنگ طویل ہوجائے گی۔ہمیں افغانستان میں امن کی ضرورت ہے اور ہم مزید جنگ و جدل کے متحمل نہیں ہوسکتے۔حامد کرزئی نے اعتراف کیا کہ اگر اقتدار افغان طالبان کے پاس ہوتا تو وہ امن قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔