تحریر : ڈاکٹر سید صلاح الدین بابر ہمارے ہاں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم کسی بھی الجھن، پیچیدگی اور مشکل کا حل ڈھونڈنے کی بجائے غیبی امداد کے منتظر رہتے ہیں۔ سرکار کی تو خیر بات نرالی ٹھہری۔ اعلیٰ سرکاری عہدوں پر رشوت دے کر فائز ہونے والے افراد کے مزاج مغلیہ دور کی یادیں تا زہ کر دیتے ہیں۔ حکومت وقت نے یہ وطیرہ بنا لیا ہے کہ کوئی مسئلہ جب تک مشکل اور پیچیدہ صورت حال اختیار نہ کر لے اس وقت تک حکومت کی دلچسپی صفر رہتی ہیں یاں البتہ معاملہ پوری طرح الجھ جائے، ہاتھا پائی ،احتجاج، گالم گلوچ،پولیس آرائی، آنسو گیس شیلنگ اور درجن بھر لوگ لقمہ اجل بن جائیں تو تھوڑی دیر کے لئے خواب غفلت سے بیدار ہو کر عوام کو طفل تسلی دیتے ہوئے پھر خواب خرگوش کے مزے لینے لگ جاتے ہیں۔ اب پیسہ پرستی کی روش نجی اور پرائیویٹ اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے جو یقینا معاشرے کے زوال کا باعث ہو گا۔گذشتہ دنوں میں نے ایک کالم تعلیم پر لکھا جس میں بوائز ڈگری کالج لودھراں کے ایک حاضر سروس لیکچرار فرزند علی کو بے نقاب کیا جو سرکاری اوقات میں دی سٹی اسکول بہاولپور کیمپس کے پرنسپل فہد خلیل کے ساتھ ملی بھگت کر کے کئی سالوں سے دی سٹی اسکول بہاولپور کیمپس میں پڑھا رہا تھا۔ اس حوالے سے سرکاری اور نجی سطح پر سرزنش اور نشاندہی کی گئی تو یقین دہانی کروائی گئی کہ جلدکارروائی کی جائے گی دوسری جانب دی سٹی اسکول انتظامیہ نے کئی مہمل عذر تراشے ،تاہم قابل ذکر با ت یہ ہے کہ مذکورہ جرم کے مرتکب افراد اس بدعملی ، بد کرداری اور حرام خوری پر ایک فیصد شرمندہ نہیں تھے اور محسوس یوں ہوتا تھا کہ انہیں جب موقع ملا پھر اس منفی راستے پر چڑھ دوڑیں گے۔
میرا حکومت سے سوال یہ ہے کہ ایسے سنگین جرم کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی میں تاخیر کیسی؟کیا پرنسپل لودھراں ڈگری کالج رائو ارشاد کے علم میں نہیں ہے کہ ایک جرم کی سرپرستی اور مجرم کی چشم پوشی کر رہے ہیں۔ڈائریکٹر کالجز ملتان قاسم شاہ کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ ایسے غیر قانونی کاموں کا انسداد کریں۔ جانے کب وزیر اعلیٰ پنجاب اس شکایت کا نوٹس لیں گے جس کا اندراج 8اکتوبر2017 کو کمپلینٹ نمبر cmo-202898کے تحت کروایا گیا؟ یہ تو ماضی قریب کا ایک واقعہ تھا ایسے ہزاروں واقعات قلم کار تلاشنے میں سرگرداں ہیں ۔مجھے آج کے کالم میں ان مزدور، غریب اور مجبور و بے بس و بے کس پینٹرز کی بات کرنی ہے جو بد قسمتی سے پنجاب کے شہری ہیں اور ان کا روزگار کپڑے کے بینرز لکھنا ہے۔19دسمبر 2017کو جاری کیے گئے سرکاری حکم نامے میں پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی (پی ایچ اے )کو ہدایت کی گئی تھی جس کی روشنی میں کپڑے کے بینرز لکھنے اور تشہیری مقصد کے لئے آویزاں کرنے پر مکمل پابندی لگا دی گئی ۔حکم عدولی کی صورت میں سزا،جرمانہ یا دونوں ہو سکتے ہیں۔یہ احکامات بہاولپور سمیت سیالکوٹ، ڈیرہ غازی خان، سرگودھا،ساہیوال، گوجرانوالہ،فیصل آباد، ملتان اور راول پنڈی پر لاگو ہوں گے۔
اہم بات یہ ہے کہ اس کا متبادل پینافلیکس اور ایل ای ڈی کی شکل میں دیا گیا ہے۔میں ہمیشہ یہ گوش گزار کرتا رہتا ہوں کہ مسائل کے حل ، مسائل میں کمی اور مسائل کے خاتمے کے لئے کوشش کی جانی چاہئے۔حکومت کی بات کریں تو ہر مسئلے غیر سنجیدہ نظر آتی ہے۔ میں بڑی باریک بینی سے تجزیہ کیا ہے کہ جب کوئی مسئلہ معمولی نوعیت کا ہوتا ہے اور آسانی سے حل ہو سکتا ہے ایسے میں حکومت پراسرار اور غفلت سے بھرپور خاموشی سادھ لیتی ہے۔معاملہ بگڑتا جاتا ہے، نوبت ہاتھا پائی،احتجاج، پولیس آرائی،آنسو گیس شیلنگ اور درجن بھر لوگوں کے جاںبحق ہونے تک جا پہنچتا ہے۔پھر وزیروں اورمشیروں کو خواب غفلت سے چند لمحوں کے لئے ہوش کی دوا دی جاتی ہے جس کا اثر عارضی ہوتا ہے۔وہ میڈیا پر آکر سو فیصد جھوٹے اور حقائق کے منافی بیانات دیتے ہیں ۔ان بیانات کا نتیجہ خاک نکلنا ہے۔ بات ہو رہی تھی ہنر مند پینٹرز کے روزگار چھن جانے کی۔ شنید یہی ہے کہ یہ احکامات وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی جانب سے موصول ہوئے ہیں۔ مجھے ان کی نیت پر ہرگز شک نہیں۔ ممکن ہے انہوں نے کچھ اچھا سوچ کر یہ قدم اٹھایا ہومگر ان غریب اور روزانہ کی بنیاد پر روزی کمانے والوں کو متبادل کیا دیا ہے؟کیا ان کی کوئی مالی امداد کی ہے کہ یہ پینٹرز حضرات کوئی اور کاروبار کر لیں۔انہیں آسان شرائط پر قرضے فراہم کیے ہیں یا پھر ان کی نوکریوں کا کوئی بندوبست کیا ہے؟ ہر سوال کا جواب صر ف ”ناں” میں ہے۔
‘مرتا کیا نہ کرتا’ کے مصداق ان مزدور پینٹرز نے پنجاب کے مختلف شہروں میں پر امن احتجاج کیا۔جس پر پولیس کی جانب سے ہراساں کیا گیا اور کچھ گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔میں نے کالم کے شروع میں ایک سرکاری نوکر”فرزند علی”کا ذکر کیا جو دن دیہاڑے سالوں تک دھڑلے سے پنجاب حکومت کی دھجیاں اڑاتا رہا ہے اس کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں لائی گئی،نہیں ۔ حکومت پنجاب کا یہ دہرا معیارکیوں؟فرزند علی بوائز ڈگری کالج لودھراں میں انگریزی کا لیکچرار ہے اور شام میں ایک اکیڈمی چلاتا ہے جس کی آمدن لاکھوں میں ہے۔ کیا موصوف نے یہ ذاتی کاروبار شروع کرنے سے قبل حکومت پنجاب سے اجازت نامہ لیا؟، نہیں جناب،کون پوچھتا ہے؟ کیا فرزند علی اپنی اکیڈمی کا انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں؟ ، نہیں۔ وجہ یقینی طور پر یہی ہے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں۔کیا فرزند علی کی اکیڈمی سرکاری طور پر قانونی ہے، نہیں۔اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے غرباء پر پورا اختیار رکھتے ہیں مگر بڑی مچھلیوں اور مگر مچھوں کو چھوٹ ہے۔
بہاولپور میں تقریباً 200افراد کی روزی روٹی کپڑے کے بینرز لکھنے سے جڑی ہے۔ان رزق حلال کمانے والے ہر مزدور کے گھر میں آٹھ سے دس افراد ہیں جن کے کفیل وہ ہیں۔اس طرح 200 سو خاندان کے تقریباً سولہ سترہ سو افراد کی حالت فاقوں تک جا پہنچی ہے۔یہ تو ایک شہر کی بات ہوئی،پابندی بہاولپور کے علاوہ آٹھ اور شہروں پر بھی لگائی گئی ہے جن کی آبادی بہاولپور سے خاصی زیادہ ہے۔اس فیصلے سے تقریباً 25000 ہزارسے 30000ہزارافراد بری طرح متاثر ہوئے ہیں جن میں خواتین ، بچے اور بوڑھے بھی شامل ہیں۔
گذشتہ دنوں ملتان میں پولیس اہلکاروں نے غریب پینٹروں کو نہ صرف ہراساں کیا بلکہ بی سی جی چوک کے قریب کام کرنے والے محمد توحید، محمد شاہد اور محمد شفیق نامی پینٹروں کو پولیس تھانہ ممتاز آباد نے گرفتار کیا اور چند گھنٹے تھانے میں ڈرانے، دھمکانے کے بعد چھوڑ دیا۔ملتان آرٹسٹ اینڈ پینٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر ناصر شاداور بہاولپور پینٹرز ایسوسی ایشن کے صدر ساجد علی مسن اس معاملے پر بے حد فکر مند ہیں اور معاملے کا پر امن حل چاہتے ہیں ،دیگر شہروں کے صدور بھی محاذ آرائی نہیں چاہتے ہیں مگر کوئی سننے والا نہیں۔بہاولپور اور ملتان سمیت دوسرے شہروں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔تاحال حکومت پنجاب کے سر پر جوں تک نہیں رینگی،ممکن ہے مستقبل میں کوئی بہتر لائحہ عمل سامنے آ جائے۔
دیکھا جائے تو پینٹنگ،خطاطی یا بینرز لکھنے کے لئے خوش نویسی سیکھنی پڑتی ہے جسے سیکھنے میں سالہا سال لگتے ہیں۔صاحب ثروت لوگ اپنے بچوں کو تعلیم دلاتے ہیں جبکہ مزدور ،مجبور اور غریب طبقہ اپنے بچوں کو کوئی ہنر سکھانا بہتر خیال کرتا ہے۔یہ ہنر مند ہاتھ بلاشبہ آرٹسٹ لوگ ہیںاور یہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا کام بھی نہیں جانتے۔یہ پینٹرز قیام پاکستان سے اس کاروبار سے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پال رہے ہیں۔ اگر سرکار کی یہ پابندی یونہی برقرار رہی تو یہ لوگ اپنے خاندان سمیت خود کشی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔مجھے قابل اجمیری کا ایک شعر یاد آگیا۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
وزیر اعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی (پی ایچ اے )ڈیپارٹمنٹ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔جس کی بنیادی سروسز میں گرین سروسز،ریڈ سروسز اور برائون سروسز شامل ہیں۔میری معلومات کے مطابق گرین سروسز میں شہر کی ہریالی، سرسبزہ، پارک، پھول اور باغبانی کا فروغ شامل ہے۔ ریڈ سروسز میں آئوٹ ڈور تشہیر کو تین مختلف انداز میں تقسیم کر کے اس کے ٹیکس اور دیگر چارجز مقرر کیے گئے ہیں ان میں سڑکوں اور چوراہوں پر لگے بڑے بڑے پینافلیکس بورڈز شامل ہیں ان میں مین روڈ، اندرون شہر کا علاقہ اور شہر کے قرب و جوار کو تقسیم کیا گیا ہے۔برائون سروسز کو کھیل اورتفریح کے مواقع مہیا کرنے ، کھیلوں کے میدان اور سامان کی فراہمی اور جسمانی ورزش و کسرت کا شوق پیدا کرنا اور جم وغیرہ کے قیام کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ یہ محکمہ مذکورہ ذمہ داریاںکس حد تک ادا کر رہا ہے مگر یہ بات طے ہے کہ مختلف شہروں میں پی ایچ اے کے ڈائریکٹرز اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر زسمیت دیگر اہل کاروں کی جیبیں گرم کی جاتی ہیں انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ پینٹرز سے گھر وں میں فاقہ ہو یا وہ خود کشی کر لیں۔
میں اس بات سے بخوبی واقف ہوں کہ کچھ عرصہ قبل پنجاب حکومت نے وال چاکنگ اور سرکاری و نجی املاک سمیت تمام جگہوں پر بغیر اجازت کسی بھی قسم کا بینر یا اشتہار آویزاں کرنے پر سخت پابندی عائد کر دی تھی۔جس کا مقصد ایسے مواد کی تشہیر کو روکنا تھا جو کسی انتشار کا باعث ہو۔یقینی طور پر فرقہ واریت کو ہوا دینے والا مواد بینرز یا کسی اور شکل میں تشہیر کے لئے آویزاں نہیں کیا جانا چاہئے ۔کوئی بھی ذی شعور اس بات کی اجازت نہیں دے گا مگر بات یہ ہے کہ کیا یہ تمام پینٹرز تخریبی مواد پر مبنی بینرز تحریر کر رہے ہیں۔ایسا ہر گز نہیں ہے ۔یہ حکومت پنجاب اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کھلی ناکامی ہے کہ وہ ایسے افراد کو تلاش نہیں کر پاتے جو جرم کا مرتکب ہوتا ہے لہذا آسان حل یہی ہے کہ بینرز پر پابندی لگا دی جائے یہ سوچے بغیر کہ جو لوگ بے روزگار ہوں گے وہ کیا کریں گے او ران پر کیا قیامت گزرے گی۔معلوم نہیں کہ پی ایچ اے شہروں کو خوبصورت بنانے کی کوشش کر رہا ہے یا اس کا مقصد بڑھتی ہوئی فرقہ واریت پر قابو پانا ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو غریب پینٹرز سے ان کا روزگار چھین لیا گیا ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو کماتے ہیں وہ روزانہ گھر کے اخراجات پر خرچ ہو تا ہے ۔ مجھے یہاں کراچی میں واقع ایک فلائی اوور کا ذکر کرنا ضروری محسوس ہو رہا ہے۔بلوچ کالونی فلائی اوور دنیا کا پہلا فلائی اوور تھا جہاں ٹریفک سگنل لائٹس نصب کی گئی تھیں۔جب اس فلائی اوور پر ٹریفک کی روانی شروع ہوئی تو کچھ عرصہ بعد ہی کریک نمایاں ہونے لگے۔فوراً ماہر انجینئرز طلب کیے گئے انہوں نے مشاہدہ کر کے رپورٹ دی کہ فلائی اوور ٹریفک کی روانی کے لئے ہوتے ،وہاں ٹریفک سگنل اور گاڑیوں کا رکنا وزن میں اضافے کا باعث بنتا ہے جس کی وجہ سے کریک پڑے۔ یوں حقیقی وجہ جان کر فلائی اوور کا کریک حصہ گرا کر تعمیر کیا گیا اور ٹریفک سگنل کا نظام وہاں سے ختم کر دیا گیا۔ اب وہ فلائی اوور بہترین کام کر رہا ہے۔ سچی بات ہے کہ اچھی حکمرانی ناپید ہوتی جا ر ہی ہے جس کی سزا عوام بھگت رہے ہیں۔
سفارشی کلچر تیز رفتاری سے اپنا مقام بنا رہا ہے ۔مجال ہے کہ کوئی مناسب اور قابل انسان کسی بڑے عہدے پر دکھائی دے۔اعلیٰ عہدوں پر فائز انسان نما فرشتے کسی کی داد رسی اور فریاد سننے کو تیار نہیں۔ اگر ارباب اختیار نے پاک سر زمین کے معصوم شہریوں کو حلال روزگار سے محروم کیا تو پھر یہ کہنا درست ہو گا کہ وہ ”فرزندوں”کے سہولت کار کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف اگر چاہیں تو ہزاروں گھروں کا چولہا بجھنے سے بچا سکتے ہیں۔ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو صحیح معنوں میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لئے بھی حکم نامہ جاری کریں یہ پولیس کا کام ہے کہ وہ کھوج لگائیں کہ فرقہ واریت پر مبنی بینرزکون لکھتا ہے۔ پولیس کی آنکھ سے جرم پوشیدہ نہیں ہو سکتے اور جہاں پولیس خود چشم پوشی کرے وہاں سمجھ جائیں کہ پولیس کی مٹھی گرم کی جا رہی ہے۔ اگر پینٹرز برادری سے کوئی اس جرم کا مرتکب ہو تو اسے سخت سزا دی جائے ۔اس حوالے پینٹرز ایسوسی ایشن آپ کے ساتھ ہے۔ میں کالم کے آخر میں خرم پیرزادہ کی ایک نظم تمام صاحب اختیار کی نذر کروں گا۔
کہا نہیں تھا تم سے میں نے تتلی کو مت ہاتھ لگانا اب تم اپنے سر کو جھکائے دونوں ہاتھ مسلتے کیوں ہو تتلی تو بے جان پڑی ہے اور تمھارے ہاتھ رنگے ہیں