تحریر : محمد آصف اقبال خواتین کے ساتھ زیادتیاں مختلف طریقہ سے ان کا استحصال ان کی عصمت و عفت کو تارتار کرنے کے واقعات وغیرہ ہر صبح اخبارات کی زینت ہوتے ہیں۔ کسی بھی زبان کا کوئی بھی اخبار ہو یا کسی بھی علاقہ ،ضلع اور ریاست سے نکلنے والا اخبار،وہاں کی مقامی خبروں میں اس قسم کی غیر شائستہ اور ظلم و ستم کی داستیں درج ہوتی ہیں۔گزشتہ سال 2017 میں گیارہ عصمت دری کے ایسے وحشیانہ واقعات سامنے آئے ہیں جنہوں نے وقتاً فوقتاً ملک اور اہل ملک کو دنیا کے سامنے شرمسار کیا ہے۔ان میں پہلا واقعہ 16 جون کا ہے ۔جس میں ایک 14 سالہ بچی کے ساتھ چھ کم عمر لڑکوں نے عصمت دری کی اور چلتی ٹرین سے پھینک دیا۔اس بچی کا کہنا تھا کہ جن لڑکوں نے اس کے ساتھ عصمت دری کی ان میں سے ایک لڑکا اسی میں چھوٹی کلاس میں پڑھنے والا تھا۔عصمت دری کے بعد ان لڑکوں نے اس کو بری طرح پیٹا اور پھر ٹرین سے پھینک دیا۔یہ بچی بیہوشی کے عالم میں کیول ریلوے اسٹیشن کی پٹریوں پر ملی تھی۔دوسرا واقعہ ایک 19سالہ ماں کا ہے جس کے ساتھ آٹھ ماہ کا بچہ تھا ۔یہ کم عمر عورت اپنے بچے کے ساتھ آٹو رکشہ میں جا رہی تھی،اسی درمیان آٹو رکشہ ڈرائیور اور اس کے دو ساتھیوں نے منیسر،گروگرام،ریاست ہریانہ میں اس کے ساتھ عصمت دری کی۔ جب آٹھ ماہ کا بچہ رونے اور چلانے لگا تو مجرمین نے اس بچے کو چلتے آٹو سے پھینک دیا،جس کے نتیجہ میں اس کی موت ہو گئی۔
تیسرا واقعہ رُہتک کے انڈسٹریل ٹائون شپ کا ہے جہاں ایک 23سالہ لڑکی خوفناک حالت میں مری ہوئی ملی۔لڑکی سے اجتماعی عصمت دری کی گئی اور پھر اس کا سر پھتّروں سے چکل دیا گیا ۔اس لڑکی کو سونی پت سے پہلے اغوا کیا گیا تھا ،اغوا کرنے والوں میں اس کا ایک جاننے والا بھی تھا اور بعد میں اس کے ساتھ یہ خوفناک واقعہ پیش آیا۔چوتھا واقعہ ایک چھوٹی بچی کا ہے جو آٹھ سال کی ہے۔کلکتہ کی رہنے والی اس چھوٹی بچی کے ساتھ اس کے چچا نے کئی مرتبہ منہ کالا کیا ۔چوتھا واقعہ جیور،بلندشہر کا ہے جہاں ایک پینتس سالہ خاتون اور اس کی چودہ سالہ بچی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کا شرمناک واقعہ اس وقت پیش آیاجبکہ وہ جیور سے بلند شہر اسپتال جا رہی تھیں۔جس گاڑی وہ وہ جارہی تھی اس کے دو ٹائیر پنکچر ہو گئے،ڈرائیور نے مدد مانگی تو چھ لوگوں نے ان پر چاقوئوں اور پستول سے حملہ کردیا۔چھٹا واقعہ بہار کے کھگاریہ ضلع کا ہے جہاں ایک کالج طالبہ کی عصمت دری کی گئی اور بعد میں اسی کے بوائے فرینڈ نے اپنے ہی گھر میں اس لڑکی کو زندہ جلا دیا۔یہ لڑکا پہلے گھر میں داخل ہوا،عصمت دری کی،بعد میں اس پر کروسین کا تیل ڈالا اور آگ لگا دی۔ساتواں واقعہ ایک اٹرتیس سالہ خاتون کا ہے۔یہ خاتون تلنگانہ کی رہنے والی ہے،اس کا الزام ہے کہ اس کے ساتھ نے اسے شراب پلائی اور خود بھی پی،اس کے بعد اس کی عصمت دری کی۔جس شخص نے اس کی عصمت دری کی اس کی عمر ساٹھ سال تھی اور اس کی بیوی نے اس کی فلم بنائی۔نیز اسے دھمکایا کہ اگر اس نے اس سلسلہ کو بند کیا تو وہ اس کی فلم کو عام کردیں گے۔
آٹھواں واقعہ ایک سات سالہ بچی کا ہے ۔یہ بچی اترپردیش کے امریہ بڈاون گائوں کی رہنے والی ہے۔بچی کو اس کے گھر سے اٹھایا گیا اور عصمت دری کی گئی۔بعد میں اسے گائوں والوں نے ایک کھیت میں خون میں لت پت پایا۔نواں واقعہ ایک چھبیس سالہ خاتون کا ہے۔خاتون کے ساتھ تین لوگوں چلتی کار میں دہلی ،گڑگائوں باڈر پے عصمت دری کی اور بعد میں چلتی گاڑی سے اسے پھینک دیا۔پانچ گھنٹہ تک اس خاتون کی عصمت تار تار کی گئی اور قتل کی دھمکی دی گئی۔دسواں واقعہ منگلورو کے سَسی ہتلوعلاقہ کا ہے جہاں ایک کم عمر کالج کی طالبہ کے والد نے بے شمار مرتبہ اس کی عصمت دری کی۔عصمت دری کے نتیجہ میں اس کی ایک بچی پیدا ہوئی جو اسپتال ہی میں مرگئی۔اور آخری یعنی گیارواں واقعہ اپریل 2017کا ہے ۔یہ کم عمر بچی جسمانی طور پر معذورتھی۔اس کے ساتھ لورڈ جگناتھ ٹیمپل میں عصمت دری کی گئی۔یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہ مندر میں درشن کے بعد واپس لوٹ رہی تھی اور مندر تقریباً ویران ہو چکا تھا۔
یہ چند واقعات وہ ہیں جنہیں انڈیا ٹائمس ڈاٹ کام نے 19جون 2017میں شائع کیا ہے۔اس کے علاوہ بے شمار واقعات ہیں جو ملک میں ہر دن سامنے آتے ہیں۔لیکن ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ مضمون کا قاری جب ان گیارہ واقعات کی مختصر ترین تفصیلات سے آگاہ ہو رہا تھا تو اس کی روح اندر سے کراہیت محسوس کر رہی تھی۔ان واقعات کو پڑھتے ہوئے جہاں ایک جانب معاشرے کی بدترین شکل ہمارے سامنے آرہی تھی وہیں ملک میں لا اینڈ آڈر کی خراب صورتحال کو بھی باخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ہیومن رائٹس واچ پروجیکٹ کے تحت کیے گئے سیمپل سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 7,200نابالغ بچے ،کا فیصد بتارہا ہے کہ 100,000میں سے 1.6کی ہر سال عصمت دری ہوتی ہے۔یہ وہ بچے اور ان کے والدین یا رشتہ دار ہیں جنہیں پولیس میں شکایت کرتے ہوئے،ایف آئی آر لکھاتے ہوئے پولیس کے ذریعہ بدسلوکی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔وہیں دوسری جانب چھوٹی بچیوں کا اغواکیا جانا اور انہیں عصمت فروشی کے بازار میں لانا عام ہے۔اس لحاظ سے بچوں کے ساتھ عصمت دری اور عصمت فروشی میں ہندوستان دنیا میں ساتویں نمبر پر ہے۔
دوسری جانب تصویر کا رخ یہ بھی ہے کہ بدسلوکی اور ذلت و رسوائی کے ڈر سے بڑی تعداد میں عصمت دری کا شکار بچیاں اور خواتین رپورٹ درج نہیں کراتیں۔2014میں حکومت کے اندازے کے مطابق ملک میں صرف 5سے6فیصد عصمت دری کی شکار خواتین و بچیاں ہی رپورٹ لکھواتی ہیں۔نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو اور نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کہتے ہیں کہ 2005میں صرف 5.8%فیصد ہی اس طرح کے کیسیس سامنے آئے ہیں ۔اور یہ سب اعداد وشمار عصمت دری کی اس تعریف کے زیر اثر میں جس میں عصمت دری صرف کہا ہی اسے گیا ہے جبکہ ایک مرد اور عورت کے جسمانی تعلق کو کسی بھی ایک جانب سے اور خصوصاً عورت کی خواہش کے خلاف ہو،یااس کی مرضی کے خلاف ہویا اس حالت میں بھی جبکہ وہ کسی مرد سے دلچسپی رکھتی ہو لیکن اسے موت کا ڈر یا اذیت دے کر جسمانی تعلقات قائمکیے جائیں،وغیرہ۔برخلاف اس کے جو معاملات مرضی سے انجام دیے جارہے ہیں،جہاں مرد اور عورت یا بالغ لڑکی اور لڑکے کو اعتراض نہ ہو یا پھر وہ لیو ان ریلیشن میں ہوں،عصمت دری نہیں کہا جائے گا۔ان حالات میں اگر ایک سرسری نظر معاشرہ پر ڈالی جائے تو بدصورت شکل کے سوا کوئی شکل ہمارے سامنے نہیں آئے گی۔ایک ایسی بد صورت شکل جہاں جذبات اور خواہشات کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ رشتے قائم کیے جاتے ہیں اور جلد ہی ختم بھی کر دیے جاتے ہیں۔جہاں گھر اور خاندان بکھر رہے ہیں۔جہاں میاں اور بیوی کے درمیان ناچاقیاں بڑھ رہی ہیں۔جہاں گھریلو اور معاشی و معاشرتی تشدد بڑھتا جا رہا ہے۔جہاں اخلاق و کردار کا کوئی خاص پیمانہ نہیں ہے۔ان حالات میں اگر تصور کیا جائے آنے والی اس نسل پرجو ملک کا مستقبل ہے تو تصور کرکے ہی جھرجھری چھوٹ جاتی ہے۔
ہم کس نسل کو تیار کر رہے ہیں؟اور کس اخلاق و کردار کے معیار پر؟ متذکرہ گفتگو کے پس منظر میں عام رائے یہی ہے کہ آج عورت کو صرف حسن اور شہوات کی تسکین کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔لہذا جو اثرات ہمارے ملک اور معاشرے پر مرتب ہو رہے ہیں وہ حددرجہ خطرناک ہیں۔جنسی کشش سے زندگی کے پاکیزہ روابط بری طرح بے اثر ہوئے ہیں۔لہذا ان حالات کے پس منظر میں نہ صرف سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر ہونا چاہیے بلکہ تفریح کے ذرائعہ ،تہذیب و ثقافت اورملک کی داخلی پالیسی میں بھی اہل اقتدار اور معاشرہ کے سنجیدہ افراد کو عملی تدابیر کی نئی راہیں تلاش کرنی چاہیں۔
Mohammad Asif Iqbal
تحریر : محمد آصف اقبال maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.com