پاکستان آگے بڑھ رہا ہے

Democracy

Democracy

تحریر: چودھری عبدالقیوم
سینٹ کے الیکشن بارے کئی طرح کی چہ میگوئیاں اور تبصرے کیے جارہے تھے کہ شائد موجودہ اسمبلیاں سینٹ ارکان منتخب نہ کر سکیں۔ لیکن اس طرح کے تمام خدشات اور قیاس آرائیاں دم توڑ چکی ہیں کہ تین مارچ کو سینٹ الیکشن ہونے جارہے ہیں جس کے لیے الیکشن کمیشن نے باقاعدہ طور شیڈول جاری کر دیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کیطرف سے سینٹ الیکشن کی سرگرمیاں جاری ہے امید ہے کہ اب نہ صرف سینٹ الیکشن اپنے شیڈول کے مطابق ہونگے بلکہ اس کے چند مہینوں بعد عام انتخابات بھی منعقد ہونگے۔

یہ صورتحال ہماری سیاست اور جمہوریت کے لیے نہایت خوشگوار ہے کہ سیاست میں بڑی محاذ آرائی اور کشیدگی کے باوجود ہماری اسمبلیاں اور حکومت اپنی مدت پوری کر رہی ہے حالانکہ کچھ عرصہ سے سیاست میں جس طرح کی جنگ و جدل جیسی صورتحال برپا تھی احتجاجی جلسے جلوس اور دھرنے جاری تھے اس سے یہ خدشہ تھا کہ شائد مسلم لیگ ن کی حکومت اور اسمبلیاں اپنی مدت پوری نہ کر سکیں۔خاص طور پر گذشتہ سال 28 جولائی کو جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے میاں نوازشریف کو وزارت عظمیٰ کے لیے نااہل قرار دیا تو سیاسی صورتحال بڑی غیریقینی ہوگئی تھی لیکن عدلیہ اس فیصلے سے میاں نوازشریف کی وزارت عظمیٰ سے علیحدگی کے سوا اورکسی طرح کی کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ ہی جمہوریت کی راہ میں کوئی روکاوٹ آئی۔

میاں نوازشریف نے اپنی جگہ شاہدخاقان عباسی کو وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بٹھادیا باقی مسلم لیگ ن کی حکومت حسب معمول چلتی رہی۔ مگر اس کے بعد ایک طرف تو میاںنوازشریف اور ان کے ساتھیوں نے اپنی ہی جماعت مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران عدلیہ کیخلاف کھلم کھلا جنگ شروع کردی تو دوسری طرف حکومت کے خلاف اسلام آباد میں تحریک لبیک یارسولۖ اللہ والوں کا دھرنا، ڈاکٹر طاہرالقادری کی دھرنے کی دھمکی کیساتھ تحریک انصاف کیطرف سے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی دھمکیوں اور حکومت پر تابڑ توڑ حملوں سے لگتا تھا کہ خُدانخواستہ جمہوریت کی گاڑی کسی بھی وقت پٹری سے اتر سکتی ہے۔لیکن مقام شکر ہے ۔کہ تمام تر خدشات ،خطرات اور اندیشوں کے باوجود مسلم لیگ ن کی حکومت قائم رہی اور جمہوریت کی گاڑی چلتی رہی اور آگے بڑھتے ہوئے سینٹ کے الیکشن کی جانب بڑھ رہی ہے۔

جمہوریت کے استحکام کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کیساتھ پاک فوج،عدلیہ اور دیگر تمام قومی اداروں کا کردار بھی قابل تعریف ہے۔ حالانکہ حکومت نے کئی ایسی فاش غلطیاں کیں جس سے حکومت گرنے کا خطرہ ضرور رہا ۔ان غلطیوں میں ڈان لیکس کا معاملہ اور ختم نبوتۖ کے قانون میں تبدیلی قابل ذکر ہیں۔ان غلطیوں کے نتیجے میں حکومت کو خفت کا سامنا کرنا پڑا اور احتجاج کے سامنے پسپائی اختیار کرتے ہوئے اپنے وفاقی وزرا پرویزرشید اور زاہدحامد سے استعفے لینے پڑے۔جبکہ معاملہ ٹھنڈا کرنے میں پاک فوج نے بھی بہت مثبت کردار ادا کیا۔مجموعی پر دیکھا جائے تو حکومت کی گڈ گورننس اور پیپلز پارٹی کی بطوراپوزیشن کارگردگی قابل تعریف نہیں رہی ۔اگر یہ کہا جائے کہ پیپلزپارٹی کی بجائے اپوزیشن کا کردار پاکستان تحریک انصاف نے کہیں زیادہ بھرپور طریقے کیساتھ نبھایا تو یہ غلط نہ ہو گا۔اس نے نہ صرف پارلیمنٹ کے اندر بلکہ باہر بھی حکومت کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے بھرپور احتجاج بھی کیا۔

دوسری طرف پیپلزپارٹی جو پارلیمنٹ میں اپوزیشن بنچوں پر اکثریت رکھتی تھی اس نے حکومت کیساتھ ملی بھگت اور گٹھ جوڑ جیسا کردار ادا کیا۔جس کی وجہ سے عوامی اور سیاسی حلقوں میں پیپلز پارٹی کے اپوزیشن کردار کو فرینڈلی اپوزیشن کا نام دیا گیا۔لیکن اس کے باوجود تحریک انصاف حکومت کی بے قاعدگیوں کیخلاف بھرپور آواز اٹھاتی رہی خاص طور پر اس نے حکومت کی کرپشن کو ہر جگہ بے نقاب کیا اور ملک میں پہلی بار حکمرانوں کیخلاف اس طرح احتساب کی روایت ڈالی کہ حکمرانوں کو جوابدہی کا احساس ہوا۔جو پاکستان اور جمہوریت کے مستقبل کے لیے بہت خوش آئیند ہے۔باثر لوگوں اور حکمرانوں کو اگر یہ احساس ہو جائے کہ اگر انھوں نے کوئی کرپشن یا بے قاعدگی کی تو انھیں اس کا جواب دینا پڑے گا تو یقینی طور پر کرپشن میں کمی واقع ہوگی جو ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لیے مثبت تبدیلی ہوگی۔سب سے بڑھ کر یہ ہے پاکستان میں کرپشن کے خلاف احتساب کا شعور بیدار ہو رہا ہے اور جمہوریت مضبوط ہوتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے جو ملک کے مستقبل ،ترقی اور خوشحالی کے لیے پیغام نوید ہے۔

Ch. Abdul Qayum

Ch. Abdul Qayum

تحریر: چودھری عبدالقیوم