تحریر : ممتاز ملک. پیرس پچھلے دنوں دیوار برلن کے گرائے جانے کے حوالے سے دن منایا گیا تو بھارتی پاکستان دشمنوں کے ساتھ کچھ پاکستانی ناعاقبت اندیش لکھاریوں کے قلم.سے بھی بھارت نوازی کے قصیدے پڑھنے کا.موقع ملا . جو ہمیشہ کی طرح “کاش ہندو پاک مل جائیں” کے فلمی ڈائیلاگ سے بھرپور تھے. ان سب کو اپنی قابلیت اگر اپنے ملک کے مفادات اور ترقی کے لیئے استعمال کرنی ہوتی تو واقعی کایسا کر سکتے تھے لیکن ایسا.ان.کی خواہش نہیں تھی تو یہ سب این جئ اوز کی پیداوار ہستیاں ہیں ھو دنیا کی سب سے بڑی ہجرت سب سے بڑے خونی سفر اور سب سے بڑی آبروریزی کی حقیقت کو مٹی دھول میں گم کرنے کے پروگرام پر عمل پیرا ہیں کیا? خدا نہ کرے کہ ہندو پاک کی سرحد کوئی ایسا دیوار برلن والا انجام دیکھے ایسا سوچنے والوں کے بھی منہ میں خاک بار بار کلچر ایک جیسا کی رٹ لگانے والوں سے سوال.ہے کہ کونسا کلچر ایک جیسا ہے ہندو پاک کا ? وہاں کی متبرک چیزیں ہمارے لیئے حرام ہیں ان کی آزادی ہمارے لیئے گالی ہے ان کا کلچر ہمارے لیئے لچر پن ئے کس اینگل سے کوئی ہند و پاک کلچر کو ایک کہہ سکتا ہے۔
اس لیئے کہ ان کی کچھ علاقوں میں بولی جانے والی زبان کسی حد تک آپ کو سمجھ آ جاتی ہے ?? ورنہ باقی سب کچھ تو سری لنکا, نیپال اور بھوٹان میں بھی ایک جیسا ہے .تو کیا وہاں کا کلچر بھی پاکستان سے مشابہہ ہو گیا ? انڈیا اور پاکستان دو حقیقتیں ہیں ایک دوسرے سے نوے ڈگری پر موجود . بھارت کو اپنے دانشوران کی زہنی بالیدگی کرنی ہو گی اور اپنا پیسہ اور وقت سرحد کو لکیر کہہ کر مانتے والے ارمان کو اسی سرحد پر دفن کر دینا چاہیئے اور ان ممالک کو یہ جان لینا چاہیئے کہ انہیں ایک دوسرے کو اسی حیثیت میں قبول کرنا ہو گا جبھی اس خطے میں امن قائم ہو سکتا ہے .وگرنہ یہ رسہ کشی چلتی رہیگی. پاکستان کروڑوں لوگوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے اور ان قربانیوں کے خلاف بات کرنے والا صرف کوئی بے ضمیر انسان یا کسی این جی او کی پیداوار ہی ہو سکتا ہے۔
ایک نے فرمایا کہ پاکستان کو اپنے امن کے لیئے بھارت کیساتھ جھک کر چلنا پڑیگا تو ان کے لیئے یہ سوچنا ضروری ہے کہ پاکستان میں امن اپنے دفاع کو مضبوط کر کے کیا جانا ہے جناب پڑوسی ہاتھ میں تیزاب کی بوتل لیکر کھڑا ہو تو اس کے سامنے اپنا منہ پیش کر کے اپنے گھر کا اور گھر والوں کا دفاع نہیں کیا جاتا. ستر سال سے پاکستانیوں کو این جی او کے ایجنٹ دانشوران نے اسی دھوکے میں رکھا کہ ہمارا کلچر ایک ہے۔
برائے مہربانی اس ہندووانہ پراپیگنڈے کو فروغ دینے کے بجائے اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ آج پاکستان سے زیادہ بڑی تعداد مسلمانوں کی بھارت میں آباد ہے . وہ جو ذلالت بھری زندگی گزار رہے ہیں . ان کا کلچر بھارت جیسا کیوں نہیں ہے ??میٹھے ضرور بنیئے لیکن میٹھا بننے کے چکر میں کہیں کوئی ہمیں چبا کر کھا جائے تو پھر حیرت کیسی … ہندوستان کی حکومتیں ہمیشہ شرپسند رہی ہیں .. اس میں شک کرنا ایسا ہی ہے جیساکہ آپ رات میں سورج کے چمکنے کا انتظار کریں۔
ہم محبت میں اندھے پن کو تسلیم نہیں کرتے . بہت سے بھارتی مردوزن ہمارے بہت اچھے دوستوں میں شامل ہیں . ہم سبھی بھارتیوں کی, ان کی سوچ کی عزت کرتے ہیں . لیکن وہاں پر ہمیشہ ہی پاکستان دشمن طبقہ اقتدار میں رہا ہے . ان کے حکومتیں ہمیں دھمکاتی رہیں اور ہماری حکومتیں ہمیشہ ہی ان کے آگے بچھتی رہی ہیں . تو کیا ملا ? آخر ان کے حکومتیں بھارت کی اکثریت کے ووٹ سے ہی برسر اقتدار آتی ہیں. تو ان کی ہر حکومت کی پشت ہر اسی سوچ کی حامل اکثریت موجود ہے . اس سچ کو مان لینا چاہیئے . ہندوپاک تعلقات کی بہتری کا مطلب ہے اس دنیا کے ایک چوتھائی افراد کی ترقی اور بہتری . اس میں ہماری خون سے کھنچی گئی لکیر مٹانے کی بات گویا نیزوں ہر چڑھائے گئے خاندانوں سے غداری کے مترادف ہے . بھارت کو اپنے ہاں مسلمانوں کے حالات اچھے کر کے اور کشمیریوں کو اپنی مرضی سے زندہ رہنے کا حق دے کر یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ بھی انسانیت کا احترام کرتا ہے ..ورنہ سب جھوٹ ہے۔