جنسی جرائم کی سزائوں میں اضافہ اور دیگر ضروری اقدامات

National Assembly

National Assembly

تحریر : محمد صدیق پرہار
قومی اسمبلی نے ملک میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات روکنے کے لیے مجموعہ تعزیرات پاکستان ١٨٦٠ء اور مجموعہ ضابطہ فوجداری میں مزید ترمیم کابل پاس کر دیا ہے۔یہ ایکٹ فوجداری قانون (ترمیمی ) ایکٹ ٢٠١٧ء کے نام سے موسوم ہو گا۔ مجموعہ تعزیرات پاکستان ١٨٦٠ کی دفعہ ٢٩٢ ج میں ترمیم کی گئی ہے۔جس کے تحت دوسال اورسات سال کی سزا کو بڑھا کر چودہ سال اور بیس سال کر دیا گیا ہے۔جرمانہ پہلے دولاکھ روپے سے سات لاکھ روپے تھاجسے بڑھا کر دس لاکھ کردیاگیا ہے۔مجموعہ تعزیرات پاکستان ١٨٦٠ء کی دفعہ ٣٧٧ب میں ترمیم کی گئی ہے۔ اس دفعہ کے تحت پہلے سزاسات سال ہوسکتی تھی اورپانچ لاکھ جرمانہ تھا۔جسے بڑھاکرلکھا گیا کہ سزاکم سے کم چودہ سال اورزیادہ سے زیادہ بیس سال کردی گئی ہے اورجرمانہ دس لاکھ روپے ہوگا۔مجموعہ ضابطہ فوجداری ١٨٩٨ء کے جدول دوم میں ترمیم کی گئی ہے۔دفعہ ٢٩٢ میں لکھاگیا ہے کہ کسی ایک نوعیت کی سزاکم سے کم چودہ سال اورزیادہ سے زیادہ بیس سال ہوسکتی ہے اورجرمانہ دس لاکھ روپے سے کم نہیں ہوگا۔دفعہ ٣٧٧ب میں لکھا ہے کہ کسی ایک نوعیت کی سزائے قیدکم ازکم چودہ سال اورزیادہ سے زیادہ بیس سال ہوسکتی ہے۔جرمانہ دس لاکھ روپے سے کم ہوگا۔یہ پرائیویٹ بل قومی اسمبلی کی رکن مسرت احمدزیب نے پیش کیا۔ ایوان نے متفقہ طورپربل کی منظوری دی۔بل کے اغراض ومقاصدمیں کہا گیا ہے کہ اس جرم کی شدت کے مقابلے میں سزائیں کی گئی ہیںبل کا مقصدبچوںکی فحش نگاری اورنابالغوں سے جنسی زیادتی کی سزامیں اضافہ کرنا ہے۔

جنسی زیادتی، بدفعلی کاشمارسنگین جرائم میں ہوتا ہے۔شریعت میں اس جرم کی سزامقررہے۔ یوں توسنگین جرائم میں اس جرم کانمبرقتل کے بعدآتا ہے۔ اس کی سزاپرغورکیاجائے تواس کی سزاقتل کے جرم سے بھی سخت ہے۔قاتل کوجب سزائے موت دی جاتی ہے توایک دفعہ دی جاتی ہے ۔ اس میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ چاہے قاتل کاسرتلوارسے کاٹ دیاجائے، چاہے اسے لوہے کی کرسی پربٹھاکربجلی کاکرنٹ چھوڑاجائے یاتختہ دارپرلٹکایاجائے۔جب کہ شریعت میںجنسی زیادتی یابدفعلی کی سزااس جرم کے مرتکب مجرم کوسنگسارکرنا ہے۔ یہ جرم فاعل اورمفعول دونوں کی رضامندی سے ہوتوسزابھی دونوںکودی جائے گی۔ دونوں کی رضا مندی نہ ہوتو اس جرم کوزنابالجبرکہاجائے گا۔ اس صورت میں صرف فاعل کوہی سزادی جائے گی۔جرم کا ارتکاب کرنے والا غیرشادی شدہ ہوتو اس کی سزاشادی شدہ مجرم کی سزاسے کم ہے۔پاکستان میں چونکہ شرعی سزائیں نافذنہیں ہیں۔پاکستان چودہ اگست سال انیس سوسنتالیس کومعرض وجودمیں آیا۔ تعزیرات ہند ایکٹ ١٨٦٠ء کوتعزیرات پاکستان ١٨٦٠ء کانام دے کرملک میںنافذکردیاگیا۔پاکستان میں اب تک سزائیں اسی تعزیرات پاکستان کے تحت ہی دی جاتی رہی ہیں۔دنیامیں جہاں دیگرشعبوںمیں ترقی ہورہی ہے۔ اس سے کہیں زیادہ تناسب سے جرائم میں بھی ترقی ہورہی ہے۔ ایک طرف نئی نئی ایجادسامنے آرہی ہیں تو دوسری طرف نئے نئے جرائم بھی سامنے آرہے ہیں۔

پاکستان میں ایسے ایسے مجرم بھی پکڑے گئے ہیں ۔جن کے جرائم کی سزاقانون میں تھی ہی نہیں۔ایسے جرائم میں دوجرم نمایاں ہیں۔ان میں ایک قبروں کے مردے نکال کران کاسال پکاکرکھانا اور دوسراجرم گدھوں، کتوں اورمردارگوشت کی خریدوفروخت تھا۔قومی اسمبلی اب ان جرائم کی سزائیں بھی مقررکرچکی ہے۔جوں ہی دہشت گردی کی وارداتوں میں قدرے کمی آئی ہے۔ جنسی زیادتی کے جرائم میں اضافہ ہوگیا ہے۔ملک کے دیگرشہروں کے ساتھ ساتھ پنجاب کے ایک ہی شہرقصورمیں درجن سے زائدبچوںاوربچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی اوراس سے پہلے اسی شہرمیں جنسی زیادتی کاسب سے بڑاسکینڈل اس جرم کی سنگینی اورپھیلائوکاواضح ثبوت ہے۔قصورمیں کم سن بچی کے ساتھ جنسی زیادتی اوراس کے قتل کے المناک اورشرمناک واقعہ کے بعد یہ بحث زورپکڑگئی تھی کہ ہمیں اپنے بچوں کی حفاظت کیسے کرنی چاہیے۔یہ بھی کہاجارہا تھا کہ بچوں کواپنی حفاظت کرنے کی تربیت دی جائے۔کچھ لوگ بچوں کواپنی حفاظت کی تربیت دینے کی آڑمیں اپنے خفیہ مقاصدپورے کرنے کی کوششوںمیں لگ گئے۔ کم سن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کی عجیب وغریب وجہ یہ پیش کی گئی کہ ایسے واقعات اس لیے ہورہے ہیں کہ بچوں کوسکولوںمیں جنسی تعلیم نہیں دی جاتی۔ ایسے جرائم کی روک تھام کایہ طریقہ بتایا گیا کہ سکولوں میںجنسی تعلیم دی جائے۔

سکولوں میںجنسی تعلیم سے جنسی زیادتی کے جرائم میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ اس طرح تواس طرح کے جرائم میں اضافہ ہی ہوگا۔ہمارے معاشرے کی یہ اچھی روایت ہے کہ نابالغ تورہے ایک طرف غیرشادی شدہ کے سامنے بھی جنسی معاملات بات نہیں کی جاتی۔ کچھ لوگ سکولوںمیں جنسی تعلیم دلوانا چاہتے ہیں۔ اس کے بعدتوبچے بچے کی زبان پرجنسی معاملات پرہی گفتگوہوگی۔شیطان جرائم کی طرف جلدی متوجہ کرتاہے۔دوچاربچے جہاں بھی اکٹھے ہوں گے وہ سکولوںمیں جنسی تعلیم کے بعداسی پرہی آپس میں گفتگوکریں گے۔اس سے توبچوں کی معصومیت تواوربھی دائوپرلگ جائے گی۔ہم سکولوںمیںجنسی تعلیم کے پہلے بھی خلاف تھے اب بھی خلاف ہیں۔بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کی روک تھام سکولوں میں جنسی تعلیم نہیں اس جرم کے مرتکب مجرم کی سزائوں میں اضافے سے ہی ممکن ہے۔جرائم کے مرتکب مجرموںکوسزائیں بھی اس لیے دی جاتی ہیں کہ ان کی سزائوں کودیکھ کردوسرے لوگ عبرت پکڑیں اورجرائم کے نزدیک بھی نہ جائیں۔قصوراوردیگرشہروںمیں کم سن بچوں اوربچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کے بعدیہ ضروری ہوگیاتھا کہ تعزیرات پاکستان میں ترمیم کرکے اس جرم کی سزائوںمیں اضافہ کیاجائے۔ قومی اسمبلی نے مجموعہ تعزیرات پاکستان ١٨٦٠ء اورمجموعہ ضابطہ فوجداری ١٨٩٨ء میں ترمیم کرکے نابالغ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے جرائم کی سزائوں اورجرمانوںمیں اضافہ کردیا ہے۔ جس کی تفصیل اس تحریر کے آغازمیںموجودہے۔جنسی زیادتی کے جرم کی سزائوں اور جرمانوںمیں اضافہ اس لیے کیاگیا ہے تاکہ اس جرم کومزیدپھیلنے سے روکاجاسکے اورمعاشرے کوبڑھتی ہوئی بے راہ روی سے روکاجاسکے۔قومی اسمبلی نے جنسی زیادتی کے جرم کی سزائوںمیں اضافہ کرکے اپنافرض اداکردیا ہے۔

قومی اسمبلی پوری قوم کی نمائندگی کرتی ہے۔قومی اسمبلی کامتفقہ طورپراس جرم کی سزائوں اورجرائم میں اضافہ کرنے کی منظوری دینا اس بات کاثبوت ہے کہ پوری قوم جنسی زیادتی کے واقعات اوربڑھتی ہوئی بے راہ روی کی روک تھام چاہتی ہے۔قومی اسمبلی نے اپنافرض تواداکردیا ہے ۔ اس نے اس سلسلہ میں اپنامکمل فرض ادانہیں کیا ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ سزائوں کے خوف سے مجرم عبرت پکڑتے ہیں اور جرائم کے ارتکاب میںکمی آتی ہے۔جنسی زیادتی اوردیگرجرائم کی روک تھام کے لیے صرف سزائوں اورجرمانوںمیں اضافہ کرناہی کافی نہیں ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے دیگراقدامات بھی ضروری ہیں۔جنسی زیادتی کے جرم کی سزائوں اورجرمانوں میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ایسے تمام محرکات کاخاتمہ بھی ضروری ہے جواس جرم کے ارتکاب میںمددگارثابت ہوتے ہیں یااس جرم کی طرف اکسانے کاسبب بنتے ہیں۔ جرائم کے ارتکاب میںکمی لانے کے لیے سزائوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان سزائوںکایکساںنفاذبھی ضروری ہے۔مکمل اورہرزاویہ سے تحقیق وتفتیش کے بعد جس پربھی جرم کاارتکاب ثابت ہوجائے تواس کو قانون کے مطابق سزادی جائے۔ مجرم کاتعلق چاہے کتنے ہی بااثرخاندان سے کیوں نہ ہو اس کے ساتھ رعایت نہیں ہونی چاہیے۔مجرم چاہے امیرہویاغریب، خاص ہویاعام جرم کے مطابق اسے سزاملنی ہی چاہیے۔سزائوںمیں اضافے کے ساتھ ساتھ ایسے عوامل کی روک تھام بھی ضروری ہے جوجنسی زیادتی کے جرم میں معاون ثابت ہوتے ہیں یااس جرم کاسبب بنتے ہیں۔جس طرح کسی بھی مرض کاعلاج توکیاجائے پرہیزنہ کیاجائے توصحت یابی سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔ قومی اسمبلی نے جنسی زیادتی کے جرم کاسزائوں اورجرمانوںمیں اضافہ کرکے علاج توکردیا ہے ۔ پرہیز کے بارے میں کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ اقدامات بھی ایسے ہونے چاہییں جس سے جرائم میںکمی واقع ہوایسے اقدامات نہ ہوں جن سے جرائم مزیدبڑھ جائیں۔سکولوںمیں کم سن بچیوں سے بے ہودہ رقص کرانے سے جنسی زیادتی کے جرائم میں کمی لائی جاسکتی ہے یااس سے بچیوںکی معصومیت بھی دائوپرلگ جاتی ہے ۔ سوچیں کہ کم سن بچیوں سے اس طرح کے رقص کرانے سے ہماری نئی نسل کوکیاسکھایا جارہا ہے اوراس کے مستقبل میںکیانتائج برآمدہوں گے۔

کاش کسی کویہ سوچنے اورسمجھنے کاحوصلہ بھی ہوتا۔فلموں اورڈراموںمیں جو کلچر دکھایا جارہا ہے۔ اس سے جنسی زیادتی کے واقعات میںکمی ہوگی یااضافہ ؟اکثرفلموں اورڈراموںمیں مرداورعورت کاگھروالوں سے چھپ کرمحبت کرنااورخاندان والوں سے چھپ چھپ کرباغوں اورپارکوںمیںملاقاتیں کرنے سے قوم کوکیادکھایااورسکھایاجارہاہے۔کیایہ بھی سوچاہے کسی نے کہ الیکٹرانک میڈیا چینلز پر مختلف پراڈکٹ کے کواشتہاردکھائے جارہے ہیں ان سے مصنوعات کی تشہیرزیادہ ہورہی ہے یاجنسیات کی۔جب اشتہارات میں عورت کے جسم کی نمائش کی جائے گی تواس کے کیانتائج سامنے آئیں گے کاش اس بارے بھی کوئی سوچتااورسمجھتا۔یہ بات درست ہے کہ عورت کے جسم کی نمائش پرمبنی اشتہارات اس لیے دیے اوردکھائے نہیں جاتے کہ ان سے جرائم کوفروغ ملے۔ایسے اشتہارات جنسی جرائم کاسبب بن سکتے ہیں۔انٹرنیٹ پربے ہودہ اورفحش تصاویراورویڈیوزبھی جنسی جرائم کاسبب ہیں۔ایسی بہت سی ویب سائٹس بلاک کی جاچکی ہیںجوفحش تصاویریاویڈیوزدکھاتی ہیں ۔ چوردروازوں سے ایسی ویب سائٹس اب دیکھی جارہی ہیں۔پی ٹی اے کویہ چوردروازے بھی بندکرناہوں گے۔کیایہ بھی کسی نے سوچاہے کہ فاسٹ فوڈ زکے استعمال سے ہماری صحت اورجنسیات پرکیااثرات مرتب ہورہے ہیں۔برائلرمرغی اورمچھلی ہماری صحت اورجنسیات پرکیااثرات مرتب کررہی ہیں۔ٹیکے والادودھ ہماری صحت اورجنسیات کے ساتھ کیاسلوک کررہا ہے۔ کاش اس طرف بھی کوئی توجہ دیتا۔جنسی جرائم کی روک تھام کے لیے سزائوںمیں اضافے کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ سکولوںمیں طلباء کے ہرقسمی رقص کرنے، دکھانے اوردیکھنے پرپابندی لگائی جائے۔فلموں اورڈراموںمیں مرد اورعورت کاگھروالوں سے چھپ کرمحبت کرنااورخاندان والوں سے چھپ چھپ کرملاقاتیںکرنانہ دکھایا جائے۔

عورت کے جسم کی نمائش والے کمرشل اشتہارات نہ دکھائے جائیں۔فحش تصاویراورویڈیوزدکھانے والی ویب سائٹس بلاک کرکے انہیں دیکھنے اوردکھانے کے چوردروازے بھی بندکیے جائیں۔برائلر مرغی، برائلرمچھلی پربھی مکمل پابندعائدکرکے دیسی مرغی اوردریائی مچھلیوںکوفروغ دیاجائے۔فاسٹ فوڈزپربھی پابندی ہونی چاہیے۔ایسے جرائم سے بچنے کے لیے اپنی نگاہوں اورخیالات کوبھی پاکیزہ رکھناضروری ہے۔فحش تصاویردیکھنے اور برے خیالات سے اجتناب کیاجائے ۔ فارغ اوقات میں اپنی گزشتہ زندگی کاجائزہ لیں کہ کون کون سے کام آپ سے غلط ہوگئے اورکیوں ہوئے۔ایسے کاموں کے ازالہ، کفارہ کی ترکیب تیارکریں۔انبیاء کرام، اولیاء کرام کی حیات مبارکہ پرمبنی اوردیگراسلامی وتاریخی کتب کامطالعہ کریں۔زبان پراللہ تعالیٰ اوراس کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاذکرجاری رکھیں۔جرائم کاخیال آتے ہی قیامت کامنظرسامنے لے آئیں اوراپنے آپ کوسمجھائیں کہ اللہ کاعذاب برداشت کرنے کی طاقت مجھ میں نہیں ہے۔جس طرح ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان ضروری تھا۔اسی طرح جنسی جرائم کی روک تھام کے لیے یہ اقدامات بھی ضروری ہیں۔

ڈاکٹر فوزیہ حمید کی طرف سے پیش کردہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ترمیمی) بل جسے ایوان نے متفقہ طورپرمنظورکرلیاکے تحت کل پاکستان ملازمتوں ،وفاق کی ملازمت ہائے دیوانی، وفاق کے معاملات کے ضمن میں دیوانی اسامیوںاوروفاقی حکومت کے تحت کام کرنے والی کارپوریشنوں، خودمختاراداروں میں بنیادی پے سکیل گیارہ یااس کے مساوی اوراس سے بالاپرافرادکی بھرتی کے لیے ٹیسٹ اورامتحانات منعقدکیے جائیں گے۔بل میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ کمیشن اپنابھرتی عمل اشتہارکی اشاعت کی تاریخ سے آٹھ ماہ کے عرصہ کے اندرمکمل کرے گا۔بل کے اغراض ومقاصدمیںکہاگیا ہے کہ ایف پی ایس سی کادائرہ اختیارصرف پی ایس سولہ اوراس کے اوپرکی اسامیوں تک محدودہے۔دوسرے یہ کہ خودمختاراورآئینی ادارے ایف پی ایس سی کے برعکس کم مسابقتی امتحانات کے ذریعے پر کیا جائے۔ایوان میں قومی اسمبلی کامجالس قائمہ کی متعددرپورٹس بھی پیش کی گئیں۔شازیہ مری نے قومی اسمبلی میں کارروائی اورطریقہ کارمیں ترمیم پیش کی جس میں تجویزدی گئی ہے کہ کمیٹی کے ایک چوتھائی تعدادخواتین پرمشتمل ہونی چاہیے۔ڈپٹی سپیکرنے یہ تجویزغورکے لیے مجلس قائمہ برائے قواعدوضوابط کو بھیج دی۔

Muhammad Siddique Prihar

Muhammad Siddique Prihar

تحریر : محمد صدیق پرہار
siddiqueprihar@gmail.com