تحریر : انجینئر افتخار چودھری آج فون پے بات ہوئی تو آنکھیں ڈبڈباتی محسوس کیں آواز رندھ سی گئی اسی آواز کو میں نے جدہ مٹسوبیشی کمپنی میں نوے کی دہائی کو سنا۔مجھ سے میرے والد بچھڑ رہے تھے اللہ بڑے امتیاز احمد کو صحت کاملہ و عاجلہ دے۔ان کا کہنا تھا کہ جگر کا ٹیومر ٹریس ہوا ہے اور ڈاکٹروں نے کہا ہے علاج ہو جائے مگر ہے تیسری سٹیج پر۔یہ ڈاکٹر بھی عجیب مخلوق ہیں جب مرض آخری سٹیج پر میریض کے قریب پہنچتا ہے تو پھر بتاتے ہیں ویسے بات سیاسی نہ ہو جائے اس شہر گجرانوالہ میں پل تو بن گیا لیکن چج کا کوئی ہسپتال نہیں پرائویٹ ہسپتال جو اچھے ہیں وہ بھی لاہور میں ہیں ڈاکٹر ہسپتال میں جانا ہے وہاں سے علاج ہو گا اور اس علاج کے لئے آپ دس مرلے کا پلاٹ بیچین تو بات بنے گی۔
اللہ میرے بڑے بھائی کو صحت تندرستی دے بہن جو سب سے بڑی ہیں وہ بھی بستر پر ہیں۔ہم کل پانچ بھائی اور ایک بہن ہیں ۔ملا کے چھ ہری پور کے نلہ گائوں سے تلاش معاش کے لئے گجرانوالہ پہنچے ۔میں نے آنکھ محلہ باغبانپورے میں کھولی ایک چھوٹے سے مکان میں جن میں دو کمرے تھے ایک چھوٹی سی بیٹھک میں بچپنا گزرا۔شروع کے وہ دن بھی یاد ہیں چھوٹی سی بیٹھک میں چھت پر پھٹے کے ساتھ ایک جھالر سی لگی ہوتی تھی والد صاحب سوتے تو رسی سے پنکھا جھلا کرتا تھا۔ہم چھ بچے جو ١٩٦٨ میں چھ بنے ایک قناعت پسند ماں کے بچے تھے جو گھر کی آمدن کے مطابق اپنے بچوں کے ساتھ کھڑی رہی ۔بے جی کا کمال یہ تھا کہ وہ بے جی تھیں جن کی زندگی کی مثالیں اب بھی خاندان یں دی جاتی ہیں۔
میرے بھائی نے ہمیں بہت پیار دیا یہ تو بعد کے چند سال ہم ایسے گزار رہے ہیں جیسے وہ بھائی نہیں بس بھائی ہیں۔یہ دکھ یہ پیڑھ ایک عرصے سے ہے۔بچپن کی یادیں کبھی بھلائی نہیں جا سکتیں خاص طور پر اسکول کی یادیں۔تھے تو مجھ سے بڑے مگر حلیم الطبع تھے۔اکثر گلی کے لڑکوں سے مار کھا کر مجھے شکائت لگایا کرتے تھے۔گجرانوالہ کے ہتھ چھٹ کشمیری بٹوں کے درمیان جس نے زندگی گزاری ہو اسے زندگی گزارنا آ جاتی ہے۔ساتھ والی گلی کے شیدے کشمیری نے بھائی کو مارا۔مجھے پتہ چلا ہاتھ میں وٹہ لیا اور سیدھا اس کا کھنہ کھول دیا۔اس طرح کئی محاذ جنگ کھولے۔لوگ جب مارر کھاتے ہیں تو کہا کرتے ہیں میں وڈے بھرا نوں لے کے آواں گا ان کے کیس میں وہ میرا نام لیا کرتے کہ میں افتخار کو بتائوں گا۔گلی ڈنڈا بنٹے سگریٹ کی ڈبیاں کوڈیاں حتی کے ملوک کے بھیجوں سے بھی ہم نے کھیلا۔مجھے جب گھر میں اسکول کی کاپی کی ضرورت ہوتی تو بھائی کہتے چا چا جی میرے پاس کاپی ہے میرے حصے میں کاپی بھی آتی جو مستعمل ہوتی۔ان کی اتری ہوئی پینٹ قمیض میرے پاس آتی اعجاز کا فرق پانچ سال کا تھا اس کے حصے میں نئی آ جاتی ۔چھوٹے بھائیوں کا یہ دکھ تا حیات رہتا ہے کہ اسے اترن ہی ملتی ہے ایک میرے جیسا چھوٹا بھائی کسی کے گھر گیا اس کی ماں نے بتایا کہ یہ میرا چھوٹا بیٹا ہے ہر کسی نے کہا کہ اس کی آنکھیں تو خالہ جیسی ہیں ماتھا تایا جیسا غرض اس کے سارے سپیئر پارٹ رشتے داروں کے نام کر دئے گئے جب سب کچھ بتا دیا گیا تو اس نے کہا خاموش کیوں ہو یہ کیوں نہیں بتایا کہ یہ نیکر بڑے بھائی کی ہے۔
بھائی جان کی باتیں لکھ رہا تھا اس لئے کہ میں نے اپنے کالموں میں بڑے لوگوں کے بارے میں لکھا ہے سوچا ہے اصلی بڑے کے بارے میں بھی لکھوں سو لکھ رہا ہوں کہ میرا بھائی خود پڑھ لے کہ میں عمر کے اس حصے میں ان کے بارے میں کیا سوچتا ہوں۔اس میں بہت سی باتیں ہوں گی جو میں لکھ نہیں پائوں گا اور بہت سی ضرور لکھوں گا۔تا کہ ہمارے بچے بھی پڑھ لیں اور جان جائیں کہ محبت ہی ایک رشتہ جو سب سے تگڑا ہے۔سب سے پہلی بات وہ گھر کے بڑے بھائی تھے سب سے زیادہ خوبصورت جوانی اور بچپن کی تصویریں دیکھیں تو لگتا ہے کہ ہمارے گھر میں حسین ترین یہی ہیں آج سجاد بھی آیا ہوا تھا بڑے قہقہے لگے ۔لیکن ایک وہ کال جس نے رات کے اس پہر مجھے رلا دیا ہے ان کی کال تھی ان کا کہنا تھا میرے بچوں کا خیال رکھنا۔کسی بھائی کی جانب سے اپنے اس بھائی کو جس سے گزشتہ کئی سالوں سے وہ برسوں پرانے تعلقات نہیں رہے اس نے رونا ہی تھا ۔ہائے ربا وے اساں کلیاں بیٹھ کے رونا۔اکیلا ہوں رات کا ایک بجا ہے میں ہوں میرا لیپ ٹاپ اور دل ہے کہ افسردہ ہے۔
بھائی جتنے بھی ناراض ہوں جتنے بھی الگ سے دکھتے ہوں یہ وہ پانی ہے جس میں پھانٹ ماریں تو وہ پھر ایک ہو جاتے ہیں۔میں کیسے واجد وقار عاصم ہاشم طلحہ اور سب سے بڑھ کر غزیہ کو بھول سکتا ہوں۔میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ یہ تحریر اپنے پاس کسی جگہ کسی سوٹ کیس میں رکھ لیں کہ جب اللہ نہ کرے یہ معاملہ جو ہم سب کے ساتھ ہو کے رہنا ہے تو وہ یہ تحریر پڑھ لیں۔زندگی میں زمینیں جائدادیں ملتی رہتی ہیں ایک پیار اور محبت کی کمی رہ جاتی ہے جو میں نہیں ہونے دوں گا۔اللہ نے چاہا میں کیا میری اولاد اور ان کی اولاد بھی میرے ان لفظوں کی لاج رکھے گی میری بیگم جو بھائی جان کی چچا زاد ہے اس کے آنسو بھی دیکھے اور گھر میں سب کو اداس پایا۔شکیل کا فون تھا وہ بھی افسردہ ہے کہ تایا جان کی بیماری خطر ناک ہے۔میرا اللہ کرے گا بھائی جان تندرست ہو جائیں گے اور ہم سب خوشیاں منائیں گے ہم ہزارہ کے گجروں کی یہاچھی یا بری عادت ہے ہم اپنے رسم و رواج اگر پیرس میں بھی ہوں تو نبھاتے ہیںہماری محفلوں میں مجرے نہیں ہوتے لیکن شام ہزارہ میں شکیل اعوان ضرور آتے ہیں نوید اور نبیل کی شادی میں مائیک پکڑ کر گایا۔ان کی آواز کمال کی ہے۔رہتے ہیں گجرانوالہ میں ہیں لگتا ہے دل نلے میں رہتا ظلحہ جو اب ہوٹل مینجمنٹ کی ڈگری لینے لندن میں ہے جب چھوٹا تھا کہا کرتا تھا نام ہے میرے طلہ گائوں ہے میرا نلہ ہوں میں گجر اصلی۔یہ فخر ہمیں وسطی پنجاب میں ہمیشہ رہا بھائی جان کا کمال یہ تھا چھوٹے تھے تو کہیں ہزارے کا بندہ مل جاتا اسے گھر لے آتے۔ان دنوں لوگوں کا آپس میں ملنا جلنا کم تھا۔ایک اور چیز ان میں کمال کی تھی جدہ میں ایک کمپنی میں کام کرتے تھے میں مدینہ سے ملنے آیا ان دنوں شاہد خاقان عباسی صاحب کے والد کی ایک کمپنی میں ملازم تھا اللہ نے مجھے نواز رکھا تھا مدینہ سے ان کے پاس پہنچا ابھی کمرے میں گیا نہیں تھا کہنے لگے افتخار تمہیں پتہ ہے پریم چوپڑہ گجر ہے۔میں نے کہا بھائی جان تو کیا اس نے اسلام قبول کر لیا ہے کہنے لگے یار تمہیں تو یہ بھی پتہ نہیں۔۔۔۔اس کے بعد لسٹ گنوا ڈالی ۔چودھری رحمت علی کی قبر تک پہنچے ۔ان کے ساتھ رستم کے ریحان شاہ بھی تھے ریحان شاہ نے مجھے کہا آپ کے بھائی کا بس نہیں چلتا ورنہ یہ اندرا گاندھی کو بھی گجر قرار دیتے۔
بھائی جان اور میں عطا محمد اسکول اکٹھے پڑھنے جایا کرتے تھے جو اس وق گجرانوالہ کا سنٹرل ماڈل اسکول تھا ۔غریب کے بچے بھی اچھی تعلیم مناسب ہیسوں میں پڑھ لیتے تھے۔میٹرک کے بعد وہ گورنمنٹ کالج گجرانوالہ گئے وہاں سے ایف اے کیا۔اس دوران سندھ کی زمینوں نے ہماری کمر توڑ کے رکھ دی اور میرے بھائی نے فوج میں بھرتی ہو کر ہمارا کچن چلایا اسی روپے میںملازم ہو گئے یہ ان کی بڑی قربانی تھی۔میں ٣ سگنلز میں پنڈی ان کے پاس آیا رونقی بھائی تھے فوجیوں کی باتیں بتاتے ۔کوہلو بار خان میں بھٹو دور کے آپریشن میں شریک رہے۔سندھ گئے اور والد صاحب کی معاونت کی رات کو ایک دن آدھی رات کو ایک خوبصورت آواز نے مجھے جگا دیا میں تو چھٹیوں میں گیا تھا وہ گنگنا رہے تھے
میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا۔
یقین کیجئے ان کی محنت کے وہ دن میری ساری زندگی کی محنت پر بھاری رہے۔بڑے بیٹے گھر کا انجن ہوتے ہیں۔چھوٹے تو چھوٹے ہی ہوتے ہیں جو ساری زندگی روٹھتے راضی ہوتے ہیں اللہ سب کو سلامت رکھے آمین۔یہ وہ دن تھے جب والد صاحب نے مجھے کہا یار تم نے میٹرک کر لیا ہے تم ایسا کرو ٹائپ سیکھ لو میں تمہیں ایک وکیل کا منشی لگوا دوں گا۔عمران خان جب یہ کہتے ہیں ناں کی خواب بڑے دیکھو بڑے آدمی بنو گئے میں کوئی ہاشوانی تو نہیںبنا مگر اپنی فیملی کا ایک ستون بنا میں نے والد صاحب کو کہا ایک وقت آئے گا میرے سیکرٹری ہوں گے۔اور اللہ نے وہ وقت دیا جب میں چالیس ہزار ریال ماہانہ کماتا تھا اور سیکرٹری بھی تھے ایک نہیں پورا آفس۔ بھائی جان زمینداری کرتے ٹریکٹر چلاتے۔پھر اللہ نے کرم کیا والد صاحب نے گہوٹکی کو خیر باد کہا اور ٧٥ میں گجرانوالہ آ گئے بھائی جان کی شادی ١٩٧٩ میں ہوئی گجرانوالہ کی مشہور مرزا فیملی میں اور قدرت نے ہمیں صرف تین ساالوں میں زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچایا ٧٩ میں ہی والد صاحب واپڈا کے اے کلاس کنٹریکٹر بنے شہر میں دوسری مرسیڈیز ہماری تھی ایک اقبال گجر صاحب کی اور دوسری چودھری برخوردار گجر کی۔
اوروں کے پاس بھی بہت کچھ تھا مگر والد صاحب شہر کے ناموروں میں شمار ہوئے دستگیر خان کے دوست بنے باوقار ۔میں بھائی جان کو سعودی عرب لے گیا جہاں انہوں نے اچھی کمپنیوں میں کام کیا۔ہم نے حج بھی اکٹھے کیا۔بچوں کے بارے میں بڑے نرم دل تھے۔اور مین اتنا ہی سخت۔ان کے پیار میں بے جی کی جھلک اور مجھ میں یرے والد صاحب کا رنگ۔ شہر میں دو الیکشن لڑے ایک پانچ ووٹوں سے ہارے دوسرا بھی تھوڑے مارجن سے لیکن ہرے مخالف کی کارستانیوں کی وجہ سے۔ان کی بہت سی خوبیاں ہیں لیکن ایک ایسی بھی ہے جس کے لئے ان سے بحچ ہو جاتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ سر سے پاء نون لیگئے ہیں ۔نون لیگی گجرانوالہ میں ایک وباء کی شکل میں مجود ہیں اس ہوا کا اثر ان پر ہے۔اللہ پاک انہیں اس لحاظ سے بھی صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے بات لمبی ہو گئی ہے۔اس دعا کے ساتھ مارچ کے دوسرے ہفتے میں ہم سب ایک بار پھر کسی چھت کے نیچے کسی ہوٹل میں اپنے دیس ہزارہ کو یاد کریں اس کے جھرنوں اور اس کی ندیوں کو جہاں ہماری ماں پانی بھرتی گجرانوالہ آ گئی اور والد تلاش معاش میں دونوں گجرانوالہ کے بڑے قبرستان میں ہیں۔اللہ پاک چودھری امتیاز گجر کو صحت کاملہ دے آمین۔