موت کی طرح ٹھنڈی رات خاموشی کی غضب ناک سرسراہٹ ایسی تاریکی جیسے اندھے کی آنکھ میرے پاؤں بھاگنے لگے بھاگتے بھاگتے ایک کھنڈر میں داخل ہوگۓ جہاں کھوپڑیوں اور ہڈیوں کے چیخنے کی آوازیں گونج رہی تھیں میری آہیں اور سانسیں چنگاریوں کی طرح بھڑک اٹھیں میرے اندر خوفناک کھڈے پڑ گۓ میں نے خود کو گھسیٹ کر آنکھ میں چھپا لیا ایک طرف خون سے لتھڑی روح دوسری طرف موت کے استر میں لپٹا ہوا جسم قریب ہی ریت کی تہوں سے بنی اونچی نیچی ٹیلیاں کسی کسی ٹیلی پر مرجھائی ہوئی گلاب کی پتیاں بھی پڑیں تھیں ایک ٹیلی سے رباب کی آواز آنے لگی میں خوف ذدہ نہیں ہوئی میرے بستر اور فضا کے درمیان نیلی روشنی کے ستون ابھر آۓ میں نے سانس روک لی مجھے نیلی روشنی سے نہلا کر میرے جسم سے اونی لباس اتار کر گلاب کی پتیوں سے ڈھک دیا گیا مجھے کالی گھاٹی میں اتار دیا گیا گھاٹی بہت کشادہ تھی تاکہ میرے روگ بھی میرے ساتھ دفن ہو جائیں یکدم کہر کے پردے سے میری چشم بصیرت معطر ہوگئ میری روح آزادی اور بے فکری کی فضا میں اڑنے لگی ایک چڑیا کی طرح