تحریر : پروفیسر رفعت مظہر 28 جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے پاناما کیسز کا فیصلہ سناتے ہوئے میاں نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا۔ میاں صاحب الیکشن کمیشن کے نوٹیفیکیشن سے بھی پہلے وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہو گئے لیکن اُنہوں نے پانچ رکنی بنچ کے اِس فیصلے کو قبول نہیں کیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ فیصلہ سیاسی، جانبدارانہ اور انتہائی متنازع ہے۔ فیصلہ آنے سے بہت پہلے ہی نوازلیگ جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کا بَرملا اظہار کر چکی تھی اور شریف فیملی کی غیر متزلزل رائے یہ تھی کہ اِس متنازع جے آئی ٹی سے کسی خیر کی توقع عبث جبکہ پانچ رُکنی بنچ نہ صرف جے آئی ٹی کی گاہے بگاہے تحسین کرتا رہتا تھا بلکہ اُس کا دست وبازو بھی بنا ہوا تھا۔ ایسے میں نوازلیگ کے خدشات کے مطابق ہی فیصلہ آیا جسے تسلیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
اپوزیشن جماعتوں اور تجزیہ نگاروں کی غالب اکثریت کا یہی خیال تھا کہ اب نوازلیگ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر قصّۂ پارینہ بن جائے گی۔ لال حویلی والا تو کبھی 40 ، کبھی 60 اراکینِ اسمبلی کے نوازلیگ چھوڑ جانے کی پیشین گوئیاں کر رہا تھا۔ چودھری نثار علی خاں بھی روٹھے ہوئے اور لگی لپٹی رکھے بغیرطنز کے تیر چلا رہے تھے۔ ایسے میں نوازلیگ میں بَددِلی کے آثار اظہر مِن الشمس لیکن پھر اچانک ایک فیصلے نے نوازلیگ کو پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور اور مضبوط کر دیاحالانکہ ابتداء میں اِس فیصلے کو انتہائی احمقانہ قرار دیا جارہا تھا۔” دِلوں کے وزیرِاعظم” میاں نوازشریف کا فیصلہ یہ تھا کہ
کب دہلاہے آفاتِ زمانہ سے میرا دِل طوفاں کو جو آنا ہے تو دروازہ کھُلا ہے
نااہلی کے بعد اسلام آباد میں اکابرینِ نوازلیگ سَرجوڑ کر بیٹھے۔ طے یہ کرنا مقصود تھا کہ اسلام آباد سے جاتی اُمرا تک کا سفر کیسے طے کیا جائے؟۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ میاں صاحب خاموشی سے جہاز میں بیٹھیں اور گھر چلے جائیں لیکن عمومی رائے یہ تھی کہ موٹر وے کا روٹ اختیار کیا جائے اور راستے میں میاں صاحب کا دو، تین جگہوں پراستقبال کیا جائے۔ تب خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ جی ٹی روڈ کا سفر سب سے بہتر ہے۔ وہ کہتے ہیں ”چند نوجوان اراکین نے میری ہاں میں ہاں ملائی”۔ اکثریت کے فیصلے کے برعکس میاں صاحب نے جی ٹی روڈ کوہی ترجیح دی اور یہی وہ فیصلہ تھا جو اُن کی مقبولیت میں کئی گُنا اضافہ کر گیا۔
اسلام آباد سے لاہور تک کا چار گھنٹوں پر محیط سفر چاردِنوں میں طے ہوا اور جگہ جگہ میاں صاحب کا فقید المثال استقبال عدلیہ بحالی تحریک کی یاد تازہ کر گیا۔دَورانِ سفر میاں صاحب کی زبان پر صرف ایک ہی سوال تھا ”مجھے کیوں نکالا؟”۔ اُنہوں نے بڑی صراحت کے ساتھ لوگوں کو بتایا کہ اُنہیں اُس تنخواہ کو بنیاد بنا کر گھر بھیجا گیا جو اُنہوں نے اپنے بیٹے سے کبھی وصول ہی نہیں کی۔ وہ بار بار یہی سوال کرتے تھے کہ کیا محض ایک اقامے کو بنیاد بنا کر وزیرِاعظم کو نااہل کیا جا سکتا ہے؟۔ عوام میں اُن کا یہ بیانیہ انتہائی مقبول ہوا اور لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ کیا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ ایٹمی پاکستان کے مقبول ترین وزیرِاعظم کو بے جرم وخطا گھر بھیج دیا جائے؟۔ بلاشبہ پانچ رکنی بنچ کایہ فیصلہ انتہائی متنازع ہے کیونکہ نہ صرف وکلاء کی کثیر تعداد اِسے متنازع قرار دے چکی ہے بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی اِس فیصلے کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا جا رہا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چیف جسٹس صاحب فوری ایکشن لیتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ کے فُل کورٹ کے سامنے یہ کیس رکھتے ۔ ایسی صورت میں جو فیصلہ بھی آتا، اُسے یقیناََ قومی حمایت بھی حاصل ہوتی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ نوازلیگ کو اپنے خلاف سازشوں کی بُو آنے لگی ہے اورمیاں نوازشریف کا بیانیہ مقبول سے مقبول تر ہوتا جا رہا ہے جس کی واضح مثالیںچکوال کے ضمنی الیکشن میں کامیابی اور لودھراں میں تحریکِ انصاف کی محیرالعقول ہزیمت ہیں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ میاں صاحب جہاں بھی جاتے ہیں، عوام کا جمِ غفیر اکٹھا ہو جاتا ہے۔ تحریکِ انصاف کے گڑھ پشاور میں میاں صاحب نے پشاور کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ کیا اور مظفرآباد میںپورا آزادکشمیر اُمڈ آیا۔
شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں کو پتھر مارنے سے اپنا گھر ٹوٹنے کا خطرہ بہرحال موجود رہتا ہے۔ سبھی کہتے ہیں کہ عدلیہ خود نہیں بولتی، اُس کے فیصلے بولتے ہیں لیکن یہاں معاملہ اُلٹ کہ عدلیہ بولتی ہے اور خوب بولتی ہے۔ عادلوں کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ خبر دے جاتے ہیں کہ کیا فیصلہ آنے والا ہے۔ عمران خاں اور شیخ رشید فیصلہ آنے سے پہلے ہی پورے اعتماد کے ساتھ فیصلے کی خبر عام کر دیتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ میںشایدہی کسی جج کی زبان سے ایسے الفاظ نکلے ہوں جیسے ہماری عدلیہ کے انتہائی محترم جج صاحبان کی زبانوں سے ادا ہو رہے ہیں۔ سِسلین مافیا، گاڈ فادر، چور اُچکا اور ڈاکو لُٹیرا جیسے الفاظ کے بعد اگر ”بابا رحمت” یہ سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کے احترام میں کمی نہیں آئے گی تو یہ اُن کی بھول ہے کیونکہ عدلیہ کا احترام تو عوام نے کرنا ہے اور عوامی عدالت نوازشریف کے حق میں فیصلہ دے چکی۔
دست بستہ عرض ہے کہ اگر ہماری انتہائی محترم عدلیہ اپنی ”اداؤں” پہ ذرا غور کر لے تو یہ اُس کے حق میں بھی بہتر ہوگا اور ملک وقوم کے حق میں بھی۔ عدلیہ اور سیاستدانوں کی زبان میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے کہ عدلیہ ہمیشہ غیرجانبدار ہوتی ہے جبکہ سیاستدان متحارب۔ سیاسی لوگ تو الزام تراشیوں کا سلسلہ دراز کرتے رہتے ہیں، عدلیہ نہیں لیکن یہاں تو صورتِ حال یہ ہے کہ عدل کے اونچے ایوانوں میں بھی سیاست، سیاست کھیلی جا رہی ہے اور دونوں جانب سے الزام تراشیوں کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔ جوں جوں میاں نوازشریف کا بیانیہ لوگوں کے دلوں میں گھر کر رہا ہے، اکابرینِ نوازلیگ کی زبانوں میں بھی تلخیاں گھُلتی چلی جا رہی ہیں۔ مانسہرہ میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے کہاکہ منتخب نمائندوں کو گالیاں دے کر کون سے آئین کی تشریح ہو رہی ہے؟۔ آپ کون ہوتے ہیں منتخب نمائندوں کو جرائم پیشہ عناصر سے تشبیہ دینے والے؟۔عوامی عدالت سے نوازشریف کے حق میں فیصلہ آتا ہے تو ججز سے نئی گالی سننے کو ملتی ہے، کیا آئین میں گالی دینے کی شق موجود ہے؟۔ توہینِ عدالت میں پکڑنا ہے تو اُس کو پکڑیں جس نے شرمناک کا لفظ استعمال کیا، عدالت پر دھاندلی کا الزام لگایا، اُس مولوی کو پکڑیں جس نے عدالت کو گالیاں دیں۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ عدلیہ ،عدل سے ہاتھ کھینچ لے ، نہ ہمارا مطمح نظر یہ ہے کہ فیصلے لازماََ نوازفیملی کے حق میں ہی آنے چاہییں۔ ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ فیصلے ایسے آنے چاہییں جن کی چہارجانب سے تحسین ہونہ کہ تنقید۔