تحریر : نسیم الحق زاہدی پاکستان ایک آزاد اسلامی جمہویہ ریاست ہے۔ اس کے حصول کا مقصد، برصغیر پاک وہند میں انتہا پسند ہندوئوں نے ایک منصوبے کے تحت مسلمانوں پر اپنی ثقافت اور مذہبی برتری ٹھونسے کی کوشش کی ،مسلمانوں پر تشدد کے پہاڑ ڈھائے گئے۔ مسلمان مائوں، بہنوں، بیٹیوں کی سرعام عزتیں لوٹیں جاتیں تھیں۔ اس لیے مسلمانوں کا وہاں رہنا،جینا اجیرن بن چکا تھا مسلمانوں نے ایک ایسی آزاد ریاست کا خواب دیکھنا شروع کردیا جہاں ہر انسان آزاد ہو گا۔
مجھے اس آزادی کا مقصد اور مطلب سمجھ میں نہیں آیا کہ ہم نے کون سی آزادی اور کن سے حاصل کی ہے ؟ہاں یہ آزادی نوابوں ،جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں کی تھی جو غریب کو ہندوئوں، سکھوں اور فرنگیوں کی غلامی سے اپنی تحویل، اجارا داری میں لینا چاہتے تھے سو وہ کامیاب ہوگئے آج پہلی بار کالم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آرہا ہے ۔دل کرتا ہے کہ علامہ اقبال او ر قائد اعظم محمدعلی جناح کی قبروں پر جاکر چیخ چیخ کر پوچھوں یہ کونسی آزادی ہے ؟یہاں ایک مریم نواز شریف لاکھوں روپے مالیت کی گھڑی کلائی پر باندھتی ،لاکھوں کا لباس پہنتی ہے ،ہزاروں روپے کا ایک وقت میں کھانا کھاتی ہے ،اس کی حفاظت کے لیے ہمہ وقت ایک پوری فوج ساتھ ہوتی ہے۔ایک طرف زرداری کی بیٹی کو پونی گھوڑے پالنے کا بہت شوق ہے۔اس کے گھوڑے لاکھوں روپے کے بادام مکھن اور انواع اقسام کے کھانے کھاتے ہیں ،سید یوسف رضا گیلانی کا کتا (Luxury Land Cruiser)میں سفر کرتا ہے بکرے کا گوشت کھاتا ہے ،نواز شریف کی بیوی کا علاج باہر کے ملک ہوتا ہے ۔اور غریب کی بیٹی کو کھانے کے لیے زہر بھی میسر نہیں لعنت ایسی جمہوریت پر غریب باپ اپنی بیٹی کو اپنی قسم دیکر زہر کا پیالہ پلا دیتا ہے۔
جاگیردار کا بیٹا مزارع کی بیٹی کی عزت لوٹ لیتا ہے ،ایک وڈیرہ، حکومتی نمائندہ کے پالتوں معصوم بیٹیوں کے ساتھ جنسی تشدد کرتے ہیں اور انکی ویڈیوزبناکر فروخت کرتے ہیں ،ایک سردار ایک غریب کی بیٹی کی عزت اسکے سامنے لوٹ لیتا ہے اور وہ انصاف کے لیے پولیس کے پاس جاتا ہے جہاںبکا ہوا ،غلام قانون اسے ہی پکڑ کر کسی ناجائز کیس میں پابند سلاسل کردیتاہے ۔ایک تھانے کے ایس ایچ او کو کال آتی ہے کہ عوام کا خادم چند لوگوں کو مروانا چاہتا ہے ہاتھ باندھ کر پولیس مقابلہ کیا جاتا ہے اور ماں کا واحد سہارا اس کے اکلوتے بیٹے کوگولیوں سے بھون دیا جاتا ہے ،کچھ لوگ اس ظالمانہ نظام کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں ایک آرڈر آتا ہے اور نہتی خواتین، بوڑھے اور جوان افراد کو سرعام گولیاں مار دی جاتیں ہیں ۔کیس عدالت میں جاتا ہے اور پھر عمر لگ جاتی ہے انصاف نہیں ملتا ۔رائو انوار ایک سیاسی وڈیرے کا پالتو غلام ہوتا ہے اس کے حکم پر سینکڑوں بے گناہوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں مار دیتا ہے اور پھر گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوجاتا ہے اور سابق صدر یہ کہتا ہے اس بے گناہ کے قتل پر واویلا ناجائز ہے ،کیوں یہ ایک غریب انسان تھا غریب کا بیٹا تھا۔
غریب کی بیوی ،غریب کی بیٹی سڑک پر بچے جنم دیتی ہے ۔ایک معصوم بچہ اپنی بھوک مٹانے کے لیے روٹی چوری کرتا ہے تو اس کو پولیس والے مار مار کر برا حال کردیتے ہیں ایک شخص پورا ملک بیچ کر کھاجاتا ہے تو اسے پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں ۔لوگ جعلی ڈگری پر حاکم وقت بن جاتے ہیں اور تعلیم یافتہ چنے بیچنے پر مجبور ہے ۔دل چاہتا کہ عوام کا خادم اعلیٰ کہلانے والے کو عدالت کے کہڑے میں کھڑا کرکے یہ سوال کیا جائے کہ آپ کن کے خادم اعلیٰ ہیں؟ اور کیسے خادم اعلیٰ ہیں؟آپ کی دور حکومت میں لوگ افلاس کے ہاتھوں مجبور ہوکر لقمہ اجل بننے پر مجبور ہیں غریب روٹی ،علاج اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور تم خدمت کی بات کرتے ہو۔پرائیوٹ سکولز مافیا ایک پلے گروپ کے بچے کی چار ،پانچ ہزار روپے لیکر پچیس ،تیس ہزار روپے ماہانہ فیسز وصول کرتے ہیں سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر مریض کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرتے ہیں بغیر سفارش کے مریض ہسپتالوں کے فرشوںپر تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں ۔غریب کی جان اور عزت تو ایک وڈیرے کے پالتوکتے کے برابر بھی نہیں اللہ کی قسم اگر مجھے اس بات کا یقین ہو کہ میرا لکھا ہوا حرف بہ حرف شائع ہوجائے گا تو دل کے سارے دکھ درد تحریر کر دوں۔بقول شاعر
جتنے بھی تاریک گھر ہیں اجالوں سے دور دور اتنی ہی روشنی میں ستاروںسے چھین لوں جتنے بھی ننگے تن ہیں جاڑوںسے بے نیاز اتنی ہی چادریں میں مزاروں سے چھین لوں اللہ! اتنے تو حوصلے ہوں کم سے کم میرے بلند کہ شاہوں کے تاج سب میں اشاروں سے چھین لوں۔
آج میری پانچ سالہ لخت جگر نے مجھے رولا کر رکھ دیا میں ایک معمولی سا قلم کا مزدور ہوں جن کی ایام کی سختی کا ذکر علامہ اقبال کر چکے ہیں روز سکول داخل کروانے کا سوچتا ہوں روز فیس کا سوچ کر خاموش ہو جاتا ہوں سرکاری سکول میں تعلیم نہیں اور تعلیم کے حصول کے لیے پیسے نہیں آج کچھ دنوں سے وہ مجھ سے گڑیا مانگ رہی تھی مگر روٹی میں روز گڑیا گم ہو جاتی ہے آج جب میں گھر گیا تو بڑے پیار سے بولی میرے ابو تھگ گئے ہونگے میں سر دبا دیتی ہوں اور اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے میرا سر دباتے دباتے بولی ابو آج مجھے امی نے یہ نظم سنائی ہے اور مجھے بڑی پسند آئی ہے آپ بھی مجھے پڑھ کر سنائوں نظم میں ”تھا”کی جگہ ”ہے”کیا ہے ًعزیز تر مجھے رکھتا ہے وہ رگ وجان سے یہ بات سچ ہے میرا باپ کم نہیں ہے میری ماں سے وہ ماں کے کہنے پہ کچھ رعب مجھ پر رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ مجھے چومتے ہوئے جھجکتا ہے وہ آشنا میرے ہر کرب سے رہا ہردم جو کھل کے رو نہیں پایا مگر سسکتا ہے جڑی ہے اس کی ہر اک ہاں میری ہاں سے یہ بات سچ ہے کہ میرا باپ کم نہیں ہے میری ماں سے ہر درد وہ چپ چاپ خود پہ سہتا ہے تمام عمر سوائے میرے وہ اپنوں سے کٹ کے رہتا ہے وہ لوٹتا ہے کہیں رات کو دیر گئے،دن بھر وجود اس کا پسینامیں ڈھل کر بہتا ہے گلے رہتے ہیں پھر بھی مجھے ایسے چاک گریبان سے یہ بات سچ ہے کہ میراباپ کم نہیں ہے میری ماں سے پرانا سوٹ پہنتا ہے کم وہ کھاتا ہے مگر کھلونے میرے سب وہ خرید لاتا ہے وہ مجھے سوئے ہوئے دیکھتا رہتا ہے جی بھر کے نجانے کیا کیا سوچ کر وہ مسکراتا رہتا ہے میرے بغیر ہیں سب خواب اس کے ویران سے یہ بات سچ ہے کہ میرا باپ کم نہیں میری ماں سے۔
کھلونے میرے سب وہ خرید لاتا ہے ،نے مجھے اندر تک توڑ کر رکھ دیا دل چاہتا تھا کہ زہر کا پیالہ خود پی لوں اتنے میں میری لخت جگر بولی گڑیا سے اچھے بچے نہیں کھیلتے ماما کہتیں ہیں اس لیے ابو مجھے گڑیا نہیں چاہیے ان الفاظ میں وہ کرب تھا کہ بس میں کچھ نہیں تھا ورنہ ارباب اختیار کے مکروہ چہرے نوچ لیتا ادھر ساری رات محلے کے بااثر اوباش غنڈے گلی میں کھڑے ہو کر اونچی آواز میں گانے گاتے ہیں آوازیں کستے ہیں سیٹیاں بجاتے ہیں گندی گفتگو کرتے ہیں گاڑی کھڑی کر کے اونچی آواز میں فحش گانے لگاتے ہیں دو بار منت کی تو شرابیں پی کر سرعام گالیاں دیں پسٹل لیکر گھر میں گھس آئے تھانے دار نے الٹا اندر کر دینے کی دھمکی دی پتہ چلا بااثر افراد سے تعلق ہے اور رات کو تھڑوں پر بیٹھنا ہماری ثقافت ہے لعنت ہے ایسی ثقافت پر،اللہ پاک سے دعا ہے کہ پاکستان میں کسی غریب کو بیٹی نہ دے کیونکہ بیٹی حفاظت کے لیے کمزور باپ کے ہاتھ کچھ نہیں کر پاتے اگر اللہ نے مجھے بیٹا دیا تو میں اسے سرکاری غنڈہ بنائوں گا۔