تحریر : کامران غنی صبا دین ہمیں ڈسیپلین سکھاتا ہے۔ اگر ہم غور کریں تو عبادات سے لے کر معاملات تک ہر جگہ ڈسیپلین ہی ڈسیپلین ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰة۔۔۔۔حقوق اللہ۔۔۔ حقوق العباد۔۔۔۔ نظم و ضبط کے بغیر دین مکمل ہی نہیں ہو سکتا۔لیکن افسوس کہ آج سب سے زیادہ ڈسیپلین کی کمی ہمارے ہی اندر نظر آتی ہے۔ ہم یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ ہماری اوجھی حرکتوں کی وجہ سے ہمارا بھی مذاق بنتا ہے اور دین کا بھی۔ بعض دفعہ ہم اس خام خیالی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہم دین کی خدمت کر رہے ہیں لیکن درحقیقت ہمارے افعال سے دین کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔
مثال کے طور پر ”زید” صوم و صلوٰة کا پابند ہے۔ وہ بلاناغہ فجر میں اٹھتا ہے اور اپنے آس پاس سوئے ہوئے افراد کو زبردستی اٹھا کر فجر کی نماز پڑھوا چھوڑتا ہے۔ بظاہر تو یہ ایک اچھا عمل ہے لیکن ‘زید’ کی اِس حرکت سے ‘مجبوراً اٹھنے والوں” کے ذہن میں نماز اور دین کے تعلق سے منفی جذبات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ نماز وغیرہ کے تعلق سے زور زبردستی کرتے ہیں یا ہر وقت پند و نصیحت کے دفتر کھلا رکھتے ہیں لوگ ان سے دور بھاگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے قرآن نے ‘دعوتِ الی اللہ” کے لیے ”حکمت”کو لازمی قرار دیا ہے۔ ترجمہ: ”اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو،حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔” (النحل ١٢٥)
سوشل میڈیا کے اس دور میں قرآن کے اس اصول کو ملحوظ رکھ کر اگر دین کے پیغام کو عام کرنے کی کوشش کی جائے تو یقینا کامیابی ملے گی۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر کوششیں کی بھی جا رہی ہیں لیکن عوامی سطح پر بہت زیادہ بیداری کی ضرورت ہے۔ عام طور سے سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والے لوگ حدسے زیادہ جذباتی ہوتے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا کو جادو کی کوئی ایسی چھڑی سمجھ بیٹھتے ہیں کہ جسے گھماتے ہی پوری دنیا میں انقلاب برپا ہو جائے۔ اِدھر کوئی پوسٹ آئی نہیں اور چشمِ زدن میں انگلیاں اپنا ”فرضِ منصبی” ادا کرنے میں مصروف ہو گئیں۔ ہم یہ بھی نہیں دیکھتے کہ جو پوسٹ ہم مختلف گروپس میں فارورڈ کر رہے ہیں وہ اُس کے لائق ہے بھی یا نہیں۔ حیرت تو تب ہوتی ہے کہ جب اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی اس قسم کی حرکتیں کر بیٹھتے ہیں اور جب انہیں منع کیجیے یا گروپ سے باہر کر دیجیے تو اُلٹا آپ کو ہی سمجھانے لگ جاتے ہیں۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر چیز اپنے موقع اور محل کے حساب سے اچھی لگتی ہے۔ ایک عورت کہیں میت میںاگر ”بنارسی ساڑی” یا زرق برق لباس پہن کر چلی جائے تو لوگ اُسے پاگل سمجھیں گے۔سائنس کا ایک استاد اگر کلاس روم میں جا کر ہر دن ”درسِ قرآن” دینے لگ جائے تو طلبہ پرنسپل سے شکایت کرنے پر مجبور ہوں گے۔کسی کے ڈرائنگ روم میں اگر ہمیں باورچی خانے کے سامان اور چولہا چکی نظر آ جائیں تو ہم ہنسنے پر مجبور ہوں گے۔
ٹھیک اِسی طرح ہر جگہ ”دینی پیغامات” کی ترسیل سے ہمارا بھی مذاق بنتا ہے اور دین کا بھی۔ اِس طرح کی نادانی کرنے والے لوگ عموماً قرآن کی اُس آیت کا حوالہ دیتے نظرآتے ہیں کہ ‘دین میں پورے کے پورے داخل ہو جائو’۔ اگر اِس آیت پر سنجیدگی سے غور کریں تواس آیت میں” ہمیں” دین میں پورے کا پورا داخل ہونے کا حکم دیا گیا ہے نہ کہ ہر چیز کو دین کے اندر داخل کرنے کا۔ بلاشبہ جو لوگ دین کا فہم و شعور رکھتے ہیں اور دین کی اشاعت وتبلیغ میں کوشاں ہیں وہ ہر اعتبار سے قابلِ مبارکباد ہیں کہ اللہ کے نظام کا نفاذ ان کی زندگی کا نصب العین ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ دین کی اشاعت و تبلیغ کے لیے حکمت اور دوراندیشی بہت ضروری ہے۔