تحریر : اسلم انجم قریشی اس وقت جو بھی صورت حال ملک میں دیکھی اور سنی جا رہی ہے اس میں عوام بھی برابر کی قصوروار ہیں اور عوام اگر اب بھی اپنے حقوق کے دفاع کے لیے کمر بستہ نہیں ہوگی توحالات بدستور بدنظمی کا شکار رہیں گے اور عوام یہ چاہتی ہے کہ اس کے معاشرتی حالات میں کوئی تبدلی رونما ہو تو اُس کے لیے یہی کہوں گا کہ عوام ہوشیار رہیں ایسے لوگوں سے جنہوں نے آ پ کی زندگی میں کھبی سکون نہیں دیا جس میں یہ دھوکا دہی، منافقت، تضاد پر مبنی عمل شامل تھے جس کی وجہ سے آپ لوگوں کو آزادانہ زندگی گزارنے کا موقع دیا ہی نہیں گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا تم وہیں پر ہو اور یہ عناصر کہاں پر پہنچ چکے ہیں اس کا اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا بلکہ نظر آ رہا ہے۔
در اصل ان نام نہاد لوگوں کو اتنی جرات پیدا عوام کی عدم دلچسپی کی بنا پر ہوئی اگر چہ عوام تندہی سے اپنے حقوق کے فرائض سے مکمل آگاہی رکھتی تو شاید معاشرتی بگاڑ میں کسی بھی صورت اس کی نوبت نہیں آ تی مگر اب بات بہت دور جاچکی ہے لیکن پھر بھی حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اپنی اور آئندہ نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے فکر مند ہوجائیں اور ہر سطح پر بیداری پیدا کی جائے۔ اب یہاں دیکھو نہ کوئی سنجیدگی نظر آرہی ہے اور نہ ہی مقصد وہ اس لیے کہ اوپر بگاڑ بہت ہوچکا ہے اور اس سلسلے میں عوام نے ہوشمندی ،دانشمندی ،عقلمندی فکرمندی کے ساتھ نہ اپنائی تو اور بھی خرابیاں پیدا ہوجائیں گی جو کسی المیہ سے کم نہیں ہوگا مگر اس وقت جو کہ لمحہ فکر یہ ہے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایک کیس کی سماعت کے دوران کہا میڈیا ہماری آبزرویشن کو سیاق و سباق سے ہٹ کر چلا دیتا ہے جس سے دوسری جانب سے ردعمل بھی آتا ہے۔ ہم نے کہا تھا سیاسی رہنما محترم ہیں، آبزرویشن ایک مفروضے پر مبنی تھی میڈیا نے اس معاملے کو پکڑ کر کیا سے کیا کردیا ہم اب کیا کہہ سکتے ہیں کیس سنتے ہیں اور کوشش ہوتی ہے انصاف ہی ہو اس موقع پر درخواست گزار نے کہا عدلیہ کے اقدامات سے لوگوں کا اعتماد بڑھ رہا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا دعا کریں مشکلات کم ہوں چیف جسٹس نے یہ ریمارکس یونین کونسل کے الیکشن سے متعلق کیس میں دیئے۔
اِدھر پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری نے گزشتہ روزکہا تھا کہ رائو انوار بہادر بچہ ہے کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن میں 54 تھانیداروں نے حصہ لیا 53 مارے گئے صرف رائو انوار زندہ بچا آصف علی زرداری نے ایک انٹرویو میںکہا کہ نقیب اللہ کیس کو میڈیا نے ہوا دی سب کو پیچھے ہٹ کر معاملے کا نئے سرے سے جائزہ لینا چاہئے۔ جبکہ ان کے بیان کے دوسرے دن ہی ترجمان پاکستان پیپلز پارٹی فرحت اللہ بابر نے سابق صدر پی پی شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا معذرتی بیان جاری کیا کہ رائو انوار اگر مجرم ہے تو قانون کی گرفت میں آئے گا اور میں ماورائے عدالت قتل کی حمایت نہیں کرتا آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ اگر وہ مجرم ہیں تو وہ قانون کی گرفت سے انہیں کوئی نہیں بچا سکتا سابق صدر نے کہا کہ رائو انوار سے متعلق ریمارکس گفتگو کی روانی کے دوران ان کی زبان سے سہواً ادا ہوئے ترجمان کے مطابق کہا گیا کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے ریمارکس پر افسوس کا اظہار کیا ہے جن سے یہ تاثر ملا کہ وہ مفرور سابق ایس ایس پی رائو انوار کو سپورٹ کررہے ہیں اگر کسی کو تکلیف پہنچی ہے تو وہ اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں جناب ترجمان وقتی طور پر تو تکلیف پہنچی تھی اور شک یقین میں بدل گیا تھامگر معذرتی بیان آنے سے کمی تو واقع ہوئی ہے مگر عوام میں شک وشبہات اب بھی پائے جارہے ہیں لہذا بہتر یہی ہے کہ سندھ حکومت بدنامی سے بچنے کے لیے مفرور سابق ایس ایس پی رائو انوار کو گرفتار کرکے عدالتی کٹہرے میں لائے ورنہ عوام میںیہ بے چینی برقرار رہے گی۔
ان کی بھی سنیں قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شاہد خاقان عبا سی نے عدلیہ کی جانب سے گزشتہ دنوں سامنے آنے والے ریمارکس پر سخت تحفظات کا اظہار کیا اور ججز کے طرز عمل کو پارلیمنٹ میں زیر بحث کی تجویز لانے کی دے دی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار ایوان میں بحث کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں میں کئے گئے عدالتی فیصلوں پر پارلیمنٹ میں بات ہونی چاہیے اگر ایوان میں اس معاملے پر بحث نہیں ہوگی اس کا حل نہیں نکلے گا ہم سب نے آئین کے دفاع کا حلف لیا اداروں کے درمیان کشمکش کا نقصان ہمیشہ صرف ملک کو ہوا ہے عدالتوں میں عوام کے منتخب نمائندوں کو مافیا اور ڈاکو کہا جاتا ہے تو کبھی جو قانون پاس کیا اسے ختم کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ ہونا تو یہ چاہیے سپریم کورٹ کی طرح پارلیمنٹ کے فیصلوں کو بھی تسلیم کیا جائے اس بات پر بحث ہونی چاہیے کہ حکومت کا کام کرنے تعیناتیاں کرنے اور فیصلے کرنے کا حق ہے یا نہیں آئین میں تمام اداروں کی حدود کا تعین موجود ہے وہ مزید کہتے ہیں کہ ہمیں انہی حدود میں رہنا ہوگا ورنہ نقصان ملک کا ہوتا ہے حکومتی افسران کو عدالتوں میں طلب کرکے بے عزت کیا جاتا ہے پالیسی کی نفی کی جاتی ہے اور لوگوں کو نکالا جاتا ہے یہ کب تک چلے گا حکومت کیلئے عزت بچانے کا آسان راستہ ہے کہ وہ کوئی کام نہ کرے تو کوئی نہیںپوچھے گا انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ سب اخباری خبریں ہیں خدا کرے غلط ہوں۔
اس موقع پرقومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بھی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے خود پارلیمنٹ کا تقدس پامال کیا کسی اور نے نہیںانہوں نے کہا ایوان کو قانون سازی کا حق ہے پارلیمنٹ کا کردار پارلیمنٹ کو ہی ادا کرنا چاہیے خورشید شاہ کہتے ہیں کہ اگر قانون سازی ایک فرد اور مفادات کے لیے ہوتو تباہ کن ہوتی ہے پارلیمنٹ کے تقدس کے لیے ہم سب ایک ہیں ملک کی بہتری کے لیے قانون سازی ہوگی تو ہم حاضر ہیں۔
عوام نے وزیر اعظم کے خطاب پر غور کیا ہوگا اور سوچ بھی رہے ہونگے جس کا جواب اپوزیش لیڈر نے خود تسلیم کیا کہ پارلیمنٹ کا تقدس پامال کسی اور نے نہیں کیا ہم نے خود کیا اور انہوں نے ایک فرد اور مفادات کی قانون سازی کو تباہ کن قرار دیا۔ جس میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ایک وزیر اعظم کو سپریم کورٹ صادق وامین نہ ہونے پر نااہل قرار دے دیتی ہے اس کے بعد دوسرا وزیر اعظم ملک کے آئین کا حلف اُٹھاتا ہے لیکن یہی وزیر اعظم کہتا ہے کہ عوام نے سپریم کورٹ کا نااہلی فیصلہ قبول نہیں کیا اور میرا وزیر اعظم جسے سپریم کورٹ نے نااہل قراردیا وہ ہیں نواز شریف اب عوام اس بات پر ایک لمحہ کے لیے توجہ دیں تو نتیجہ سامنے آجائے گا کہ یہ کیا آئین کے حلف کی پاسداری کررہے ہیں لاکھ مانا نااہل وزیر اعظم نواز شریف کے چاہنے والے صحیح مگر وہ قانون سے بالاتر نہیں حلف جس بات کا اُٹھایا جاتا ہے کیا اس پرعمل ہوتا ہے ہر گز نہیں جس کا عملی مظاہرہ عوام کے گھمبیر مسائل ہمارے سامنے ہیں جو تڑپ تڑپ کر اپنی جانیں گنوارہے ہیں ان کاکوئی پرسان حال نہیں سب جھوٹے دعووئں سے عوام کو تسلیاں دے رہے ہیں کیا اب بھی عوام ہوشیار نہیں ہو نگی ہونا ہے اور اچھے برے کی پہچان رکھنی ہے اب اصل حقیقت کی طرف احوال یہ ہے کہ جس میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم اور آئین اس سے بھی بالاتر ہے اگر پوچھیں کہ فلاح شخص اہل ہے یا نہیں؟ تو کیا پارلیمنٹ کی توہین کر دی؟
سوال پوچھنا پارلیمنٹرینز کی توہین ہے ؟ وضاحت نہیں دے رہا نہ اس کا پابند ہوں وضاحت کو کمزوری بنانا چاہتے ہیں نہ گھبرائیں گے بلکہ اللہ اور آئین نے جو طاقت دی ہے اس کا نیک نیتی سے بھرپور استعمال کریں گے پارلیمنٹ کو یہ نہیں کہہ سکتے یہ قانون بنائیں آئین عدلیہ کو قانون سازی پر نظر ثانی کا اختیار دیتا ہے کہا جارہا ہے عدلیہ مداخلت کررہی ہے پارلیمنٹ کو آئین سے ہٹ کر کوئی اختیار ہے نہ بنیادی حقوق سے متصادم قانون سازی کرسکتی ہے چیف جسٹس میاں چاقب نثارر کی سربراہی میں جسٹس عمر بندیال اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے میڈیا کمیشن کیس کی سماعت کی درخواست گزار حامد میر وفاقی سیکرٹری اطلاعات احمد نواز سکھیرا اور دیگر پیش ہوئے حامد میر نے کہا پیمرا کو حکومتی تسلط سے آزاد ہونا چاہیے چیف جسٹس نے کہا اگر اس ادارے کی مس رپورٹنگ ہوجائے تو بہت غلط فہمیاں پیدا ہو تی ہیں ہر ادارے کے لیے کچھ حدود مقرر ہیں اس معاملے کو سمجھنے کے لئے سوال پوھتے ہیں تو ہیڈ لائین بن جاتی ہے مقدمات میں سوالات اُٹھتے ہیں اور اُٹھانا پڑتے ہیں عدلیہ کے لئے لیڈر شپ بہت مقدم ہے سمجھنے کے لئے سوال کررہے تھے کہ کوئی ایسا شخص پارٹی لیڈر بن جائے تو کیا ہوگا؟ کیا تاثر جائے گا؟ کس کو ٹارگٹ نہیں کرتے ہماری باہمی بات چیت یا ریمارکس کو غلط رنگ دیا جارہا ہے حامد میر نے کہا لوگ آپ کے سوالات کا غلط مطلب لیتے ہیں آپ پراپیگنڈا کرنے والوں پر توجہ نہ دیں چیف جسٹس نے کہا ہم بالکل توجہ نہیں دے رہے ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے بتایا میڈیا کمیشن کی کئی سفارشات پر عمل درآمد ہوگیا صرف پیمرا کو حکومتی اثر سے آزاد کرنے کی سفارش پر عمل نہیں ہوا قانون کے مطابق حکومت پیمرا کو ہدایت دے سکتا ہے جبکہ عدالت کو پالیسی کے جائزے کا مکمل اختیار ہے چیف جسٹس نے کہا آپ حکومت کے موقف سے ہٹ کر بیان دے رہے ہیں حکومت تو کہتی ہے عدالت کو کوئی اختیار نہیں عوام ہوشیار رہیںاوراس بات پر اندازہ لگائیں اور فیصلہ کریں کہ آئین اور قانون کی پاسداری کون کر رہا ہے۔
تازہ اطلاعات یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو پارٹی صدارت سے بھی نااہل قراردیتے ہوئے ان کی جانب سے ماضی میں کئے گئے تمام فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دیدیا فیصلے میں نواز شریف کی جانب سے جاری کئے گئے تمام سینیٹ ٹکٹ بھی منسوخ کردیے گئے ہیں چیف جسٹس نے اپنے فیصلے میں کہا کہ طاقت سر چشمہ صرف اللہ تعالی کی ذات ہے عوام اپنی طاقت کا استعمال عوامی نمائندوں کے ذریعے کرتے ہیں آرٹیکل 62اور63 پر پورا نہ اترنے والا پارٹی صدارت بھی نہیں کرسکتا آرٹیکل 17 سیاسی جماعت بنانے کا حق دیتا ہے جس میں بھی قانونی شرائط موجود ہیں خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے الیکشن ایکٹ 2017 کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت مکمل کی اس موقع پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ کسی پارلیمینٹرین کو چور اچکا نہیں کہا الحمداللہ ہمارے لیڈر اچھے ہیںلوگ اپنے لیڈر کے لیے جان قربان کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں ہمارے کلچر میں سیاسی جماعت کے سربراہ کی بڑی اہمیت ہے۔ عوام اس بات کو مزیدسمجھ لیں کہ پارلیمنٹ سپریم ہے تو سپریم کورٹ سپریم ہے۔