تحریر : قادر خان یوسف زئی صدر ٹرمپ کا دھمکی دینا اور سختی برتنے کے اعلانات دراصل امریکی خارجہ پالیسی میں پاکستان مخالف مستقل بیانیہ بن چکا ہے ۔پاکستان کے خلاف تواتر سے امریکی صدر کی جانب سے دبائو ڈالنے کے لئے کاروائیاں کی جا رہی ہیں۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ پاکستان کو عالمی دہشت گرد مالیاتی ‘ واچ لسٹ ‘ میں شامل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس سے قبل امسال ماہِ جنوری میں امریکہ کی وزارتِ خارجہ نے 1998 کے بین الاقوامی مذہبی آزادیوں کے قانون کے تحت بنائی گئی فہرست میں پاکستان کو شامل کیا تھا۔اس فہرست کو خاص تشویش کے ممالک یا Countries of Particular Concern کہا جاتا ہے۔ امریکا کی نئی جنگی پالیسی سے قبل پاکستان اس فہرست میں شامل نہیں تھا لیکن دبائو بڑھانے کے لئے ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کو سپیشل واچ لسٹ میں شامل کر دیا تھا۔ امریکا کی جانب سے ایک بار پھر پاکستان کو عا لمی دہشت گردمالیاتی ‘ واچ لسٹ میں شامل کرنے کے لئے تحریک پیش کی گئی تھی جس پر عمل درآمد کے حوالے سے پیرس اجلاس ایف اے ٹی ایف میں کیا گیا ۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اپنی ایک ٹویٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف مربوط اقدامات کی وجہ سے تین مہینے تک امریکی تحریک کو موخر کردیا گیا ۔ جس میں دیگر دوست ممالک کے علاوہ اہم کردار چین ، سعودی عرب اور ترکی نے ادا کیا۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف کے مطابق ‘منی لانڈرنگ’ پر نظر رکھنے والا ایک گروپ کی جانب سے پاکستان کی نگرانی کے معاملے پر تین مہینے کی مہلت مل گئی ۔ لیکن امریکا محکمہ خارجہ کے ترجمان نے ابھی تصدیق نہیں کی اور کہا کہ حتمی فیصلہ اسی ہفتہ متوقع ہے لیکن کہا نہیں جا سکتاکہ فیصلہ کیا ہوگا ۔ خیال رہے کہ امریکا کی کوشش ہے کہ پاکستان کو اس فہرست میں بھی شامل کیا جائے جو ‘فائننشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی رو سے دہشت گرد مالیاتی ضابطوں پر عمل درآمد پر پورے نہیں اترتے۔ یہ تحریک کئی ہفتے قبل پیش کی گئی تھی جس میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے بھی شمولیت کی۔ تحریک پیرس کے چھ روزہ اجلاس میں زیر غور آئی۔
پاکستانی حکام پُر امید تھے کہ فہرست میں مملکت کا نام شامل کرنے سے روکنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ پیرس کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ و اقتصادی امور مفتاح اسماعیل نے کی اور پاکستان کا ٹھوس موقف پیش کیا جس کی تائید میں چین ، سعودی عرب اور ترکی نے اہم کردار ادا کیا۔ گو کہ پیرس کانفرنس میں پاکستان مخالف تحریک مسترد کرانے پر مکمل کامیابی حاصل نہیں کرسکا تاہم تحریک کا موخر ہوجانا بھی اہم کامیابی تصور کی جا رہی ہے۔میونخ سیکورٹی کانفرنس میں چیف آف آرمی اسٹاف کی جانب سے تقریر نے بھی عالمی رائے عامہ کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا آرمی چیف کے بیانیہ کو عالمی پزیرائی حاصل ہوئی تھی۔ عا لمی دہشت گردمالیاتی ‘ واچ لسٹ میں پاکستان کا نام آنے کے بعد حکام کو اِس بات کا ڈر لاحق ہے کہ اِس اقدام کے نتیجے میں معیشت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو اپنی ”واچ لسٹ” میں شامل کر دیا تو پاکستانی حکومتی اہلکاروں کی نقل و حمل کے ساتھ ساتھ اُس کےIMF، ورلڈبنک ،یورپی یونین سمیت700مالیاتی تنظیموں اداروں کے ساتھ بین الاقوامی لین دین میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ٹاسک فورس کے 37اراکین کی جانب سے پاکستان کو زیرنگرانی ممالک میں شامل کرنے سے اُس کی اقتصادی شرح پیداوار کو شدید دھچکا لگ سکتا تھا۔ 2012سے 2015 تک پاکستان کوعا لمی دہشت گردمالیاتی ‘ واچ لسٹ میں شامل کیا گیا تھا ۔ اُس وقت ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو وارننگ جاری کی تھی کہ وہ اپنے خلاف عائد الزامات کے مقابلے اقدامات کرے تاکہ عالمی ادارے مطمئن ہو سکیں۔
امریکا پاکستان کے خلاف عالمی رائے عامہ کو مخالف کرنے کیلئے بتدریج ایسے عوامل کررہا ہے جو پاکستان کے لئے مستقبل میں مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس خدشے کو امریکاکے نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر ڈینیئل کوٹس کے بیانیہ کے تناطر میں بھی دیکھا جائے تو امریکی عزائم عیاں ہوتے ہیں ، ڈائریکٹر ڈینیئل کوٹس نے پاکستان پر انتہا پسندوں سے تعلقات جاری رکھنے کے سنگین الزامات کے علاوہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہوئے اقوام عالم کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان یکطرفہ طور پر ایٹمی اثاثوں میں اضافہ کررہا ہے ۔ ڈائریکٹر ڈینیئل کوٹس نے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں میں اضافے کو دنیا کے لیے خطرہ قرار دیا لیکن بھارت کے حوالے سے لب کشائی سے اجتناب برتا کہ خطے میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ توہندو انتہا پسند حکومت نے شروع کی تھی اور یہ امریکا ہی تھا جس نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں پر چپ سادھ لی تھی بلکہ ایٹمی ری ایکٹر کے لئے سہولیات بھی فراہم کیں ۔ پاکستان نے بھارت کے جارحانہ عزائم کو دیکھتے ہوئے اپنی مدد آپ کے تحت مملکت کو ایٹمی طاقت بنایا اور بھارتی جارحیت کو روکنے کے لئے ایسے ایٹمی وار ہیڈ تیار کئے جو صرف مملکت کی دفاع کے لئے مختص ہیں۔
پاکستان نے ایسا کوئی ایٹمی یا میزائل تجربہ نہیں کیا جس سے دنیا کے کسی دوسرے ملک یا امریکا کو براہ راست نقصان پہنچ سکتاہو۔ پاکستان نے مجبوراََ ناگزیز اقدامات کے تحت اپنی دفاعی صلاحیت میں اضافہ کیا۔ اپنی سرزمین کی حفاظت کسی بھی مملکت کے لئے فرض اوّل ہے ۔ پاکستان نے ایٹمی صلاحیت کو محدود رکھا اور عالمی اصولوں کی پاسداری کی۔ اس کے ساتھ ہی پڑوسی ملک میں دو بڑی عالمی استعماری قوتوں کی جنگوں اور وطن عزیز میں شدت پسندی اور امریکی حلیف بننے کی پاداش میں پہنچنے والے نقصان کے باوجود اپنے ایٹمی اثاثوں کی اس طرح حفاطت کی کہ بھارت ، اسرائیل اور امریکا سمیت دنیا بھر کے خفیہ ادارے پاکستانی ایٹمی اثاثوں تک رسائی نہیں حاصل کرسکے۔ تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ کوئی ہتھیار بند گروپ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں سے دنیا کو خطرات سے دوچار کرسکتا ہے۔ دراصل ان الزامات کا مقصد پاکستان کے خلاف عالمی رائے عامہ ہموار کرکے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کو مشکوک بنا کر اپنے مذموم مقاصد کو کامیاب بنانے کی ناپاک کوشش ہے۔
امریکا اپنی نئی جنگی پالیسی کے تحت پہلے مرحلے میں پاکستان کو مذہبی انتہا پسندی کا ملک قرار دیکر ثابت کرنا چاہتا ہے کہ یہاں مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے اسی وجہ سے پاکستان کوخاص تشویش کے ممالک یا Countries of Particular Concern میں شامل کرایا تاکہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے پرمزید دبائو بڑھایا جا سکے۔ پاکستان پر ایک اور خوفناک الزام عائد کرتے ہوئے ڈائریکٹر ڈینیئل کوٹس نے کہا ہے کہ وہ مبینہ انتہاپسند جن کی پاکستان پشت پناہی کر رہا ہے، وہ افغانستان اور انڈیا کے اندر حملے کرتے رہے گے جس سے خطے میں کشیدگی پھیل رہی ہے۔دنیا کو لاحق عالمی خطرات کو اجاگر کرنے کے لیے سینٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سالانہ اجلاس میں ڈینیئل کوٹس کا کہنا تھا،جن انتہاپسند تنظیموں کی پاکستان پشت پناہی کر رہا ہے وہ پاکستان میں قائم اپنی محفوظ پناہ گاہوں کو افغانستان اور انڈیا میں حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال کریں گے جو امریکی مفادات کے برعکس ہے۔ ڈائریکٹر ڈینیئل کوٹس کا مکمل بیانیہ بھارت لہجے کی عکاسی کرتا نظر آرہا ہے ۔ بھارت جس قسم کے الزامات پاکستان پر عائد کرتا ہے وہی زبان کابل اور امریکا بولتے ہیں ، یہاں یہ نہیں بتایا جارہا کہ افغانستان کی سرزمین میں محفوظ پناہ گاہوں سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی خوفناک وارداتیں اور ہزاروں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں ۔پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنے اور مدد کرنے بجائے الٹا الزامات ہی عائد کئے جاتے ہیں۔ امریکا کو اس معاملے میںیک طرفہ موقف نہیں اپنانا چاہیے ۔ دنیا جانتی ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم کی انتہا کررکھی ہے ۔ لاکھوں بھارتی فوجی نہتے کشمیریوں کے خلاف بربریت کا مظاہرہ روزانہ کی بنیاد پر کرتا ہے۔ اگر کشمیری عوام مسلح ہوتے تو کیا بھارت کی فوج جموں کشمیر میں ایک دن بھی قدم جما پاتی ۔ بھارت خود ساختہ سازشوں کی آڑ میں جھوٹی کاروائیاں کرکے صرف پاکستان کو بد نام کرنے کی مذموم کوشش کرتا ہے ۔ بھارت آج تک پاکستان کے خلاف ایک بھی ٹھوس ثبوت نہیں دے سکا جب کہ پاکستان کے پاس بھارتی سازشوں کا جیتا جاگتا ثبوت کھل بھوشن یادو کی صورت میں موجود ہے جس پر امریکا اور اس کے اتحادیوں نے جان بوجھ کر آنکھیں بند کررکھی ہیں۔
‘ایف اے ٹی ایف’ پیرس میں قائم ایک بین الحکومتی ادارہ ہے، جو ناجائز مالیات کے خلاف عالمی سطح کے معیار کا تعین کرتا ہے۔پاکستان کے فی الواقع وزیر خزانہ، مفتاح اسماعیل نے تصدیق کی تھی کہ امریکا اور برطانیہ نے چند ہفتے قبل ایک تحریک پیش کی تھی اور بعدازاں فرانس اور جرمنی کو سرپرستی میں شریک بننے پر قائل کیا تھا۔وزیر خزانہ، مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ ”ہم اب امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس کے ساتھ مل کر نامزدگی واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں”۔بقول اُن کے، ”ہمیں توقع ہے کہ اگر امریکا نامزدگی واپس نہیں بھی لیتا، تو ہم اس بات میں کامیاب ہوجائیں گے کہ ہمیں واچ لسٹ میں شامل نہ کیا جائے”۔پاکستانی وزارت خارجہ نے بہرحال سہل پسندی کا مظاہرہ کیا اور کئی ہفتے قبل پیش کی جانے والی جانبدارنہ تحریک کے خلاف متحرک کردار ادا کرنے کے بجائے جلد سازی میں ایسے فیصلے کرنے شروع کردیئے جس سے ظاہر ہوا کہ پاکستان ، دبائو کے تحت فیصلے کررہا ہے ۔ دبائو کے تحت کئے جانے والے ہر قسم کے فیصلے سود مند ثابت نہیں ہوتے بلکہ دبائو میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے اور نئے مطالبات منوانے کے لئے نئے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں۔ پاکستان کو اپنی تاریخ کے نازک ترین حالات پر قبل ازوقت فیصلوں اور پالیسیوں کو اختیار کرنا چاہیے ۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں دو فوجی کیمپوں پر مزاحمت کاروں کی جانب سے حملوں کا براہ راست الزام بھی پاکستان پر عائد کرتے ہوئے جوابی کاروائی کی دھمکی بھی دی۔
وفاقی حکومت نے حافظ سعید کی تنظیموں جماعت الدعوة اور اس کے ذیلی اداروں فلاح انسانیت فائونڈیشن کو عطیات اور چندہ دینے پر مکمل پابندی عائد کرتے ہوئے سرکاری تحویل میں لینے کا فیصلہ کرچکی تھی اور اس حوالے سے سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی پی) نے نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا۔ ایس ای سی پی کے سیکریٹری بلال رسول کے دستخط سے جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن کے مطابق پابندی اقوام متحدہ کی قرارداد 1267کی روشنی میں عائد کی گئی۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ کمپنیز ایکٹ 2017 کے سکیشن 453 کے مطابق کمیشن تمام کمپنیوں کو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کسی تنظیم اور افراد کو عطیات نہ دیں۔ نوٹیفکیشن میں تنبیہ کی گئی کہ پابندی پر عملدرآمد نہ کرنے والوں پر بھاری جرمانہ عائد کیا جائیگا۔ حکومت پاکستان پابندی پر عملدرآمد نہ کرنے والوں پر پہلے ہی ایک کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کرچکی ہے۔ پاکستان حکومت کی جانب سے ان کاروائیوں کو پیرس میں ہونے والے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے اجلاس سے جوڑا گیا کہ پاکستان منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کو مالی تعاون فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست سے شامل ہونے سے بچائو کے لئے سخت قوانین کو لاگو کررہا ہے۔یہاں یہ واضح ہونا بھی ضروری ہوگیا ہے کہ امریکا ، افغانستان میں اپنے آنے کے مقاصد سے دستبردار کیوں ہوگیا ہے اور افغانستان میں موجودگی کا نیا بیانیہ کیوں دے رہا ہے ۔ امریکی حکام 16برس کی لاحاصل جنگ میں شکست کے بعد اپنا بیانیہ تبدیل کرتے ہوئے کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ امریکا کا مقصد افغانستان کی فتح نہیں تھا ۔ امریکا نے دنیا کے سامنے تین جواز رکھے تھے۔ اوّل :افغانستان میں امن و امان مستحکم کرنے کی خاطر (خودساختہ) دہشت گردی ختم کرنا۔دوئم :یک قانونی حکومت قائم کر کے قانون نافذ کرنا۔سوئم :منشیات کا خاتمہ کرنا۔ جبکہ امریکا کا نیا بیانیہ اب یہ ہے کہ امریکا کے لئے دہشت گردی سے زیادہ ایران ، روس اور چین خطرہ ہیں ۔ امریکا کے سابق صدر نے بش ڈاکٹرئن کے تحت افغانستان میں ایک لاکھ سے زائد فوجیوں کے ساتھ جارحیت کی تو امریکا کو گمان تھا کہ طاقت کے بل بوتے پر جلد ہی افغانستان کو فتح کرلے گا لیکن 17برس بعد بھی افغانستان کو فتح کرنے کا امریکی خواب سابق صدر جارج ڈبلیو بش 2001ء سے لیکر موجودہ صدر ٹرمپ 2018 میں بھی پورا نہیں ہوسکا ۔ امریکا نے القاعدہ کے خلاف جنگ میں پاکستان کو فرنٹ لائن اتحادی بنایا اور پاکستان کی راہداری استعمال کرکے افغانستان میں جنگ کو طوالت دے رہا ہے ۔پاکستان نے اپنی سر زمین سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کیا ہے۔
ہزاروں قیمتی جانوں کے ساتھ اربوں ڈالرز کا ناقابل تلافی نقصان بھی برداشت کیا ہے۔ پاکستان آزادی اور خودمختاری کے اصولوں پر پڑوسیوں سمیت دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ مثبت اور تعمیری تعلقات چاہتا ہے۔ افغانستان کی تعمیرنو اور ترقی میں پاکستان اپنے کردار سے کبھی پیچھے نہیں ہٹا۔ پاکستان خطے اور دنیا کے امن و امان کے لیے بہتر کردار ادا کر رہا ہے۔ افغانستان میں جنگ کو طول دینے پر اصرار اورافغانستان میں غیر ملکی ا فواج کی موجودگی امریکا سمیت کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ یہ عمل دنیا کے امن کو خطرے سے دوچار کرتا ہے۔ یہ واضح حقیقت ہے کہ صرف امریکی حکمرانوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ اگر امریکی عوام افغانوں اور مجموعی طور پر عالمی برادری سے پُرامن افہام وتفہیم کے خواہاں ہیں تو انہیں ویتنام جنگ کی طرح اپنے صدر، کانگریس اور پینٹاگون کے جنگجو حکمرانوں کو یہ حقیقت سمجھانی چاہیے۔ انہیں افغانستان سے متعلق معروضی سیاست اپنانے پر مجبور کیا جائے۔ پاکستان پر دبائو بڑھانے کے لئے بھارت کی خواہشات پر خطے میں ایٹمی جنگ کے مہیب سائے ڈالنے سے گریز کی راہ اپنانے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان خطے میں ایٹمی ہتھیاروں سمیت روایتی جنگی سازو سامان کی دوڑ کو دونوں ممالک کے عوام کے لئے بھاری معاشی بوجھ تصور کرتا ہے لیکن بھارت کے جنگی جنون کے سبب اپنے دفاع کے لئے ہمہ وقت تیار رہنے کا حق رکھتا ہے ۔ یہی اصول دنیا کی سلامتی کے لیے سب سے بہترین اقدام ہے۔پاکستان کو اپنے سفارتی روابط اور خارجہ پالیسی میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے تا کہ پاکستان کے خلاف پے در پے گھیرا تنگ کرنے کی جو سازشیں ہو رہی ہیں اس کا بروقت توڑ کیا جا سکے۔ پاکستان میں سیاسی انتشار و انارکی کا فائدہ ملک دشمن عناصر اٹھانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کو متوقع عام انتخابات کے علاوہ پاکستان کی سا لمیت و بقا پر نظر رکھنی چاہیے کہ کہیں آپسی جھگڑوں کی وجہ سے مملکت کو خدانخواستہ نقصان نہ پہنچ جائے۔ ہمیں اس بات کو ذہن نشین رکھ لینا چاہیے کہ پوائنٹ اسکورنگ کے لئے ہم مخالف سیاسی جماعتوں کی پالیسیوں پر تنقید کا حق محفوظ رکھتے ہیں لیکن اس سے ملکی سا لمیت کو نقصان پہنچے تو ہمیں اپنے رویوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں عالمی دبائو میں ایسے جذباتی فیصلے بھی نہیں کرنے چاہیے جس سے فائدے کے بجائے نقصانات زیادہ ہوں اور ملک دشمن عناصر کے جھوٹے پروپیگنڈوں کو تقویت ملے۔پاکستان کو مذہبی لحاظ سے تشویش ناک ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کے بعد عالمی دہشت گرد ‘واچ لسٹ’ میں شامل کی سازشوں کو تمام جماعتوں و اداروں سمیت پاکستان کی عوام کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکا ، بھارت ، اسرائیل کا سہ فریقی گٹھ جوڑ کتنا خطرناک ہوتا جارہا ہے ۔ ان سازشوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ ہمیں ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر اجتماعی مفاد کیلئے ملک و قوم کو ترجیح دینا چاہیے۔