تحریر : چوہدری غلام غوث بابا جی لوئر مڈل پاس اور بنیادی طور پر درویشانہ طبیعت کے مالک تھے قیامِ پاکستان کے بعد مسلسل تین عشروں تک گائوں میں واحد شخص تھے جن کے پاس گائوں کی عورتیں اور مرد اپنا اپنا خط لکھوانے اور بعد ازاں خط کا جواب پڑھانے کے لیے آتے تھے بابا انتہائی منکسرالمزاج تھے بعض اوقات ان پڑھ سائلوں کو تین سے چار مرتبہ خط دُہرا دُہرا کر پڑھ دیتے اور چہرے پر شکن تک نہ لاتے بابا جی تعلیم کو بہت بڑی نعمت قرار دیتے اور ان پڑھ لوگوں کے لیے اسے اپنی طرف سے صدقہ جاریہ قرار دیتے بابا جی قیامِ پاکستان سے لے کر زندہ رہنے تک ہمیشہ ایک واقعہ پر پشیمانی اور افسوس کا اظہار کرتے رہے۔ یہ بات کرتے ہوئے اُن کی آنکھیں بھیگ جاتیں، بتاتے ہوئے آواز بھرا جاتی ،کہتے کہ جب قیامِ پاکستان کے م قع پر ہندوستان سے قافلوں کے ذریعے سے ہجرت کے سفر پر گامزن تھے تو راستے میں کیا دیکھتے ہیں کہ عورتوں نے چادریں پکڑی ہوئی ہیں اور پردہ کر کے عارضی کمرہ کی شکل میں پہریدار بن کر اُس کے گِرد کھڑی ہیں بیل گاڑی روک کر اپنے قافلے سے خواتین کو بھجوایا کہ پتہ کرو کیا مسئلہ ہے تو معلوم ہوا کہ دورانِ سفر قافلہ میں موجود حاملہ خواتین کو دردِ زہ ہوا اور یہ پردہ اُن کی زچگی کے عمل کے لیے کیا گیا ہے۔ یہ واقعات سناتے وقت اُن پر سکتہ سا طاری ہوتا جھرجھری لے کر کانوں کو ہاتھ لگاتے اور ہائے افسوس کہہ کر کہتے کہ وہ بچیاں کن کن عزت دار گھرانوں کی تھیں اور وہ اس طرح سے تمام مخلوق کے سامنے پردہ داری والے عمل کو باامر مجبوری ادا کرتی رہیں۔ چونکہ یہ بے سروسامانی اور بے بسی کا عالم تھا شائد وقت مقرر تھا اور مجبوری تھی یہ واقعات ہوئے اور اس پر ساری عمر ندامت اور افسوس کرتے رہے۔مگر بابا جی آج کے اس ترقی یافتہ دور میں زندہ ہوتے تو آئے روز اخبارات میں پڑھتے کہ آج رائے ونڈ ، آج کامونکی، آج لاہور ، آج کوہاٹ، یہاں تک کہ عزیز بھٹی ہسپتال گجرات میں خواتین نے بچوں کو سڑکوں پر، ، ہسپتال کے فرش پر اور باہر صحن میں جنم دے دیا ہے تو بابا جی اس ترقی کا اتنا زیادہ ماتم کرتے اور اس پر اپنے نوحے لکھتے کہ سننے والوں کے کلیجے باہر آ جاتے اور اس ترقی یافتہ زمانے پر بے شمار لعنت بھیجتے مگر کیا کریں وہ اس ترقی سے پہلے ہی اگلے جہاں میں ترقی کر کے پہنچ گئے۔
ہمارے معاشرے میں جتنی بھی آزاد خیالی آ گئی ہے مگر روایتی طور پر ہم آج بھی خواتین کے بچوں کو جنم دینے کے مراحل کو سرِ عام گفتگو کا حصہ بناتے ہوئے شرماتے ہیں۔ آج تک ہم نے اس بے جا شرم و حیا کا کوئی قابلِ عمل حل نہیں نکالا جس سے آئے روز اس طرح کے واقعات جنم لے رہے ہیں جو کہ ازخود شرم و حیا کو تار تار کر دیتے ہیں سڑک پر بچے کو جنم دینا فرش پر بچے کو جنم دینا، رکشہ میں بچے کو جنم دینا یہ سب کیا ہے؟
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ علامہ اقبال میڈیکل کالج کے پرنسپل پروفیسر جاوید اکرم جو کہ جناح ہسپتال لاہور کے چیف ایکزیکٹو بھی تھے اُنہوں نے ایک پالیسی کے تحت جناح ہسپتال لاہور میں ایمرجنسی گیٹ پر پیرا میڈیکل کے دو چار سٹاف ممبران کھڑے کیے ہوتے تھے اُنہوں نے ایمرجنسی کے گیٹ سے لے کر لیبر روم تک فرش پر ریڈ پٹی کی لائن لگوا دی تھی ڈیوٹی پر مامور عملہ جب دیکھتا کہ لواحقین حاملہ خاتون کو زچگی کے لیے لے کر آئے ہیں تو وہ بھانپ لیتے اور فوری اُن کی طرف لپکتے اور اُن کی توجہ ریڈ لائن پٹی کی جانب دلاتے اور فوری کہتے کہ خاتون کو بیڈ پر لٹائو اور اس ریڈ لائن پر چلتے جائو یہ جس کمرے میں جا کر داخل ہو جائے وہاں اس مریض کو پہنچا دو راستے میں کسی سے پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں اس سے اُنہیں بغیر کسی رکاوٹ زچہ کو لیبر روم تک پہنچانے میں مدد مل جاتی اور بے جا محسوس ہونے والی شرم و حیا کا بھرم بھی رہ جاتا بظاہر یہ چھوٹا سا اقدام ہے مگر ایک ایسا بنیادی اصول ہے جس کا دائرہ کار اگر پنجاب کے تمام ڈی ایچ کیو اور ٹی ایچ کیو ہسپتالوں تک بڑھا دیا جائے تو کم از کم ہر زچہ لیبر روم میں جا کر اپنے بچے کو جنم دے سکے گی۔
ہسپتالوں میں بالخصوص لیبر روم اور زچہ بچہ آپریشن روم میں دردِ دل رکھنے والی، رضاکارانہ خدمات مہیا کرنے والی، عزت و حرمت کو سمجھنے والی پروفیشنلز لیڈی ڈاکٹرز اور نرسزکا انتخاب کر کے فرائض منصبی سونپے جائیں تو آج بھی اس مسئلے کا قابلِ عمل حل ممکن ہے۔ڈاکٹرز تنظیموں کو بھی اس جانب متوجہ کیا جائے کہ اس طرح کے واقعات اُن کے پروفیشن پر ایک سیاہ دھبہ لگا جاتے ہیں ملکی سطح پر ہی نہیں بلکہ بیرونِ ملک بھی جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں قانون سازی کی جائے جس طرح جان لیوا بسنت سے حکومت پنجاب نے جان چھڑائی ہے اور اپنے شہریوں کی زندگیوں کو محفوظ بنایا ہے سادہ سا قانون بنا دیا ہے کہ جس علاقہ میں پتنگ کی ڈور سے کوئی حادثہ پیش آئے گا سب سے پہلے اُس تھانے کے SHO کو فی الفور معطل کر دیا جائے گا اور بعد ازاں انکوائری کی جائے گی قانون کی نظر میں کسی جُرم کو فوری روکنے کے لیے ذمہ داری کے تعین کا یہ قانون اتنا مؤثر ثابت ہوا ہے کہ پتنگ بازی جیسے موذی تفریحی کھیل سے اموات کا سلسلہ رُک گیا ہے اسی ماڈل کو اگرٹی ایچ کیو ڈی ایچ کیو میں نافذالعمل کر دیا جائے کہ جس ہسپتال کے صحن میں یا سڑک پر یا برآمدے میں بچہ پیدا ہو گا تو فی الفور اُس ہسپتال کے ایم۔ ایس کو معطل کر دیا جائے گا اور باقی ماندہ معاملے کی انکوائری بعدازاں کی جائے گی تو بچوں کو سڑکوں، برآمدوں اور صحنوں میں جنم دینے کا سلسلہ رُک جائے گا۔
اس کے علاوہ معاشرے میں شعور و آگہی کے لیے مہم شروع کرنے کی بھی ضرورت ہے اس کے لیے علماء کرام، این جی اوز، رفاعی اداروں کی خدمات بھی لی جا سکتی ہے ڈاکٹرز کو بھی اپنے فرائض سے پہلو تہی نہیں کرنی چاہیئے اس طرح کے واقعات حکومت کی ترقی کے مُنہ پر بھی طمانچہ ہے ۔ ایک نیا ہسپتال بنانے پر حکومت کی نیک نامی میں اتنا اضافہ نہیں ہوتا جتنی خفت اور سبکی اسطرح کے ایک دو واقعات سے ہو جاتی ہے۔آبادی میں جس طرح تیز رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے اسی تناسب سے ہسپتالوں میں زچہ بچہ سنٹرز اور لیبر رومز میں بھی اضافہ اور گنجائش اشد ضروری ہے سہولیات کا فقدان بھی اس کی ایک وجہ ہے عملہ کی کمی بھی وجہ بنتی ہے اس پر بھی حکومت کو بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
جب سے اخبارات میں پڑھا ہے کہ عزیز بھٹی شہید ہسپتال کے صحن میں ایک خاتون نے بچے کو جنم دے دیا ہے تو اُس وقت سے ملک کے عظیم سپوت کے نام سے منسوب ہسپتال کی عزت کے بارے میں فکر مند ہوں اس واقعہ پر شہید کی روح کو بھی دھچکا لگا ہو گا جس نے بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے اس ملک کے چپہ چپہ کی حفاظت کے لیے اپنی جان دے دی۔
حکومت پنجاب سنجیدگی سے اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے مؤثر اور قابلِ عمل اقدامات اُٹھائے ۔ماں بننے کے تقدس کو پامال ہونے سے بچایا جائے سرِعام عورت کی تذلیل اب رُک جانی چاہیئے نسوانی حقوق کی آواز اُٹھانے والی تنظیمیں اور این جی اوز صرف موم بتیاں جلانے تک محدود نہ رہیں بلکہ شعور و آگہی کی ایسی شمع روشن کریں جس سے اس طرح کے واقعات کو روکنے میں مدد ملے عورت کی عزت اور ماں کے رشتے کا تقدس بحال ہو جائے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ ایسے دلخراش واقعات کبھی پرائیویٹ ہسپتالوں میں رپورت نہیں ہوئے یہ صرف سرکاری ہسپتالوں میں کیوں؟ اگر ان ہونے والے واقعات کے آگے بند نہ باندھا گیا تو راقم کو یہ خطرہ ہے کہ جس طرح پاکستان نو مولود بچوں کی اموات میں دُنیا بھر میں پہلے نمبر پر آ گیا ہے کہیں ان واقعات کے مسلسل وقوع پذیر ہوتے رہنے سے ان نومولود بچوں کی پیدائش صحنوں، سڑکوں اور رکشوں میں ہونے سے اس عمل میں بھی دُنیا بھر میں نمایاں مقام نہ حاصل کر لے۔ بات سوچنے کی ہے؟۔