تحریر : نجم الثاقب تارا میاں ۔۔۔۔ آج آئینے میں چہرہ تو بہت صاف دیکھائی دے رہا ہے۔۔۔ ۔ بس ملک صاحب نیا لگا ہے پرانے والے پر داغ ، دھبے اور رنگ گرنے سے دھندلا نظر آ تا تھا۔ کسمٹمرز اکثر اعتراض کرتے تھے کہ شیشہ گندا ہے ۔۔۔ چہرا صاف دیکھا ئی نہیں دیتا۔ اچھا ہے نا اب گاہکوں کو اپنا آپ صاف نظر آئے گا۔تارا میاں ۔۔۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں دنیا میں ہر شخص کی کوشش ہے کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے منفرد، دل کش اور خوبصورت پیش کرے جس سے اس کی عزت و قار میں اضافہ ہو۔ ہمارے حکمرانوں، سیاست دانوں اور شہریوں کو بھی ایسے ہی ایک آئینے کی ضرورت ہے کہ جس میں ان کا ضمیر، نیت اور اعمال صاف نظر آ سکیں۔
ہمارے ملک میں حکومتی و ریاستی ادارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کی خدمت پرمامور ہیں اور غریب عوام کے ساتھ جانوروں سے بھی برا ا سلوک کیا جاتا ہے۔ سیاست دانوں کی کیا چاہت ہے “اقتدار ۔۔۔ ا ختیار” یعنی یہ ایک ہی سکے کے دو ُرخ ۔ماضی میں جس بھی پارٹی کی حکومت رہی ہے کرپشن کی عظیم داستان رقم ہوئیں ۔ تمام سیاسی پارٹیوں نے اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے خوب لوٹ کھسوٹ ، فراڈ اور دھوکہ دہی سے اپنی جیبیں بھری ہیں ،بیرون ممالک میں محلات و جائدایں بنائیں ، کالے پیسے کو وائٹ کرنے کے منصوبے بنائیں، منی لانڈری کیں ۔ افسوسناک امر ہے کہ اس بندر بانٹ میں آئین و قانونی ضابطوں کے ساتھ ساتھ اسلامی اصولوں کو مکمل نظر انداز کیا گیا۔
ہمارے حکمرانوں ، سیاست دانوں نے کبھی بھی عوام کے بارے میں نہیں سوچا وہ کیسے ہیں اور ملکی حالات کس نہج پر پہنچ چکے ہیں اس کی کسی کو بھی کوئی پرواہ نہیں رہی ہے ۔ سیاست دانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ جب تک وہ سیاست چھوڑ کر خدمت کو اپنا نصب العین نہیں بنائیں گے تب تک نہ انھیں عزت ملے گی اور نہ ہی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔
شہری سیاسی پارٹیوں کے سربراہان سے آج یہ سوال پوچھتے ہیں کوئی ایسا تاریخی فیصلہ جس سے ملکی ترقی و خوشحالی کے ادوار میں اضافہ ہوا ہو ان نے اپنے ادوار میں لا ہو سوائے ایک دوسرے پر بہتان اور الزام لگانے کے کچھ نہیں کیا۔ آج تک ہماری جمہوری ادوار میں باری کا کھیل کھیلا جا رہا ہے ” پہلے میری باری۔۔۔ پھر تیری باری “۔ جس کے اثرات قوم کے وسیع تر مفاد میں ہونے کے بجائے منفی طور پر مرتب ہوئے ہیں ۔ یہاں شخصی آمریت کی اس سے بڑھ کر بد ترین مثال کیا ہوگی کہ آج بھی میرٹ کو چھوڑ کر نوازنے اور باٹنے کا سلسلہ جاری ہے۔ عہدے اور من پسند تقرریاں ، تبدیلے ہورہے ہیں اور جن پر یہ نوازشات لٹائی جارہیں ہیں وہ اپنے مخالفین سے نپٹنے کے لیے ہر دائرہ اور اخلاقی حد پار کر جاتے ہیں ۔ الزام تراشی ، بہتان بازی ، جھوٹ اور کردار کشی کی فیکڑی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔
ان تمام صورت حال میں عوام الناس کی ذمہ داری بھی بنتی ہےکہ وہ ملک کے کرپٹ اور خیرخواہوں سیاست دانوں میں فرق جانتے ہوئے ووٹ جیسی اہم ترین امانت کا سوچ سمجھ کر استعمال کریں ، ایسے کرپٹ، فراڈ اور کرپٹ افیا کے نرغے میں نہ آئیں جو پانچ سال اقدار و اختیار کے مزے لوٹنے کے بعد دوبارہ عوام کو سبز باغ دیکھ کر ووٹ لینے کے چکر میں ہیں۔ الیکشن کے دنوں میں ایک بریانی کی پلیٹ پر اپنے ضمیر کا سودا مت کریں۔ ہر شہری کو چاہیے کہ وہ اپنے علاقے کے نمائندے سے پارٹی منشور کے بارے میں دریافت کرے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے سے بعد آزاد ہونے والے ممالک آج ترقی و خوشحالی کی دوڑ میں ہم سے آگے نکل چکے ہیں اور ہماراگراف تنزلی کا شکار ہے۔
قانون کی بالادستی کی جہاں ہمیں خوشی ہے وہاں یہ غم بھی ہے کہ عوام نے جس پر بھی بھروسہ کیا اسی جمہوری حکومت نے عوام کو وعدوں اور دعووں کی چٹنی دیکر سسکتا اور مرتا چھوڑ کر اپنے مسقتبل کو محفوظ بنانے میں مگن رہے ۔ بحثیت انسان ہم اسی وقت کامیاب ہو کر آخرت کے متلاشی بن سکتے ہیں جب ہماری نیت ٹھیک ہو گئی او ر نیت کا دارو مداد اعمال پر ہیں۔ نیک و صالح اعمال اس وقت انجام پائیں جب ہم میں خوف وڈر ہو گا۔ ہم یہ سمجھیں گئے کہ یہ دنیا عارضی ہے اور اللہ رب العزت نے کچھ وقت کے لئے اس امتحان گاہ میں اتار ہے اور مومن کے لئے جنت کا حصول اسی وقت ممکن ہے کہ ہم انا، وقار اور عزت کو اللہ رب العزت کی منشاء و رضا کے آگے قربان کر دیں گئے۔