تحریر : سید عارف سعید بخاری پاکستان کی تاریخ میں تیز ترین عدالتی ٹرائل میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سپریم کورٹ کے حکم پر 7 روز میں قصور میں معصوم بچی زینب کے ساتھ درندگی اور بعد ازاں قتل کر کے اس کی لاش کوڑے کے ڈھیر پر پھینکنے والے مجرم عمران علی کو 4بار سزائے موت سنا دی ہے ۔عدالتی فیصلے کو بچی کے والد امین انصاری سمیت ہر طبقہ فکر کی طرف سے حقیقی انصاف سے تعبیر کیا جا رہا ہے ۔ بچی کے والدنے مجرم کو سرعام پھانسی کی سزا دینے جبکہ اس کی والدہ نے اسی کچرے کے ڈھیر پر اسے لٹکانے اور نشان عبرت بنانے کا مطالبہ کیا ہے ۔عوامی وسماجی حلقے اور شہریوں کی اکثریت اس بات پر زور دے رہی ہے کہ مجرم کو سرعام پھانسی دی جائے ۔ اس حوالے سے لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست قبل از وقت قرار دے نمٹا دی گئی اور واضح کیا گیا ہے کہ مجرم کے پاس اپیل کیلئے ابھی فورم موجود ہے، عدالت میں دائر درخواست میں یہ موقف پیش کیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل نمبر:22کے تحت مجرم کو سرعام پھانسی کی سزا دی جا سکتی ہے ۔ادھر یہ بھی کہا جارہا ہے کہ آئین پاکستان میں سرعام پھانسی دینے کی کوئی شق موجود نہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کا آئین یا قانون کسی درندے کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی کے ساتھ زیادتی کرے یا اُس کی جان ہی لے لے ۔ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے اور نہ ہی ایسا ممکن ہے تو پھرکسی درندے کو سرعام سزا دینے کیلئے آئینی شق کا سہارا لینے کی ضرورت کیوں محسوس کی جاتی ہے ،اگر اس کام میں حکومت کو رکاوٹ محسوس ہوتی ہے تو وہ اس کو دور کرے اور اس کیلئے آئین اور قانون میںفوری ترمیم کرے۔
سرعام سزا سے بھی زیادہ عام خیال یہ ہے کہ ایسے درندے کو سنگسار کر دینا چاہئے۔اور اُس کی لاش کو بیچ چوہرائے میں لٹکادینا چاہئے ادھر اسلامی نظریاتی کونسل اور چاروں صوبوں نے زینب بی بی کے قاتل عمران کو سرعام پھانسی دینے کی مخالفت کر دی ہے ۔تاہم اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا ہے کہ مجرم کو کسی چوک یاچوراہے کی بجائے جیل کے اندر پھانسی سے کر مناظر میڈیا پر دکھائے جانا چاہئے ۔سابق وزیر داخلہ رحمن ملک کا کہنا ہے کہ سرپیم کورٹ نے سرعام لٹکانے پر پابندی لگا رکھی ہے ،سینٹ قائمہ کمیٹی قانون کے اجلاس میں پنجاب اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اراکین کا کہنا ہے کہ ایک شخص کیلئے قانون سازی کے مثبت اثرات نہیں آئیں گے ، چاروں صوبوں کے بچوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے جیل حکام کا کہنا ہے کہ ہم اس طرح پورے معاشرے کو سزا نہیں دے سکتے۔سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ امریکہ سمیت بڑی مغربی قوتیں سرعام پھانسی دینے کے حق میں نہیں، اسے انسانی حقوق کے منافی قرار دیتی ہیں اور اس حوالے سے پاکستان سمیت اکثر ممالک پر دبابؤ بڑھا دیا جاتا ہے ۔جبکہ پھانسی کے عمل کی تشہیر کے حوالے سے امریکہ کا دوہرا معیار بھی ایک سوالیہ نشان ہے اس کی مثال ایمل کانسی اور عراقی صدر صدام حسین کی ہے کہ جنہیں پھانسی کی سزا دئیے جانے کے بعدمیڈیا پر اس کی مکمل تشہیر کی گئی ۔ امریکی دباؤ پر پاکستان میں سرعام پھانسی دینے کا رواج نہیں ہے۔
سرعام سزا کی صورت میں اس بات کا بھی امکان ہے کہ مشتعل عوام حکومت کیلئے امن و مان کا مسئلہ نہ پیدا کر دیں اور ایک بار بھی یہ عمل مزید انسانی جانیں ضائع ہونے کا سبب بنے۔اسی بناء پر حکومت سرعام پھانسی دینے کے مطالبہ کو نظر انداز کرنے پر مجبور نظر آتی ہے ۔لیکن حالات جس سمت جا رہے ہیں ممکن ہے کہ حکومت کو عوامی دباؤ پریہ اقدام اٹھاناہی پڑے ۔ مجرم عمران کو سنائی جانے والی سزا پر بھی بعض حلقے اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں ،میڈیا نے واقعہ کے بعدمبینہ طور پر یہ انکشافات کئے تھے کہ مجرم کا تعلق عالمی پورنو گرافی مافیا سے ہے اور اس واقعہ میں ایک حکومتی وزیر یا کوئی ایسا آفیسر ملوث ہے کہ جو نفساتی جنسی مریض ہونے کے ناطے معصوم پھولوں کا دلدادہ ہے وہ ناہنجار شخص اپنی تسکین کیلئے اب تک کئی بچوں سے زیادتی کا ارتکاب کر چکا ہے جسے حکومت کے ذمہ دار افراد کی پشت پناہی حاصل ہے ۔سانحہ قصور میں ملوث ایک شخص جس کے مکان میں مذکورہ بچی کو رکھا گیا تھا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اس نے بھی خود کشی کر لی تھی ۔یوں عمران کو عدالت نے کم مدت میں سزا سنا دی ہے ۔
کہتے ہیں انصاف وہ ہے جو انصاف نظر آئے ۔ ماضی میں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سے سزا پانے والے اکثر مجرمان کو اپیل کی صورت میں لازماً ریلیف دیا جاتا رہا ہے ۔سزا پانے والے افراد اور ان کے لواحقین کا عموماً اپنی اپیل میں یہ موقف ہوتا ہے کہ انہیں 30دن میں ٹرائل کرکے سزا سنا دی گئی ہے اس مختصر مدت میں وہ اپنے دفاع میں زیادہ گواہ پیش نہ کر سکے یعنی کہ انہیں صفائی کا پورا موقع ہی فراہم نہیں کیا گیا ۔انسداد دہشت گردی عدالت قانونی طور پر 30دن میں فیصلہ سنانے کی پابند ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ اسی انسداد دہشت گردی عدالت میں بے نظیر بھٹو قتل کیس تقریباًٍ 10سال چلتا رہا ۔ بالآخر 2پولیس افسران کو قید و جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی جنہیں اپیل میںعدالت نے ریلیف دے دیا تھا ۔اسی طرح انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں چلنے والے اکثر کیسوں میں دئیے گئے فیصلوں میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے جا سکتے لہذاء اپیلوں میں مجرموں کو کافی حد تک ریلیف ملا ۔پھانسی والوں کی سزا بھی عمر قید میں تبدیل کی گئی اور عمر قید والوں کی سزا میں کمی کی گئی یا انہیں برّی کیا جاتا رہا ہے ۔ اب زینب زیادتی و قتل کیس میں بھی عدالت ہذاء نے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں 7دن ٹرائل کے بعد اپنا فیصلہ سنایا ہے ۔دیکھئے اپیل کی صورت میں مجرم کو کتنا ریلیف ملتا ہے ۔ یا اُس کی سزا برقرار رکھی جاتی ہے ۔۔؟اس بات کا قوی امکان ہے کہ کیس چونکہ سنگین نوعیت کا ہے اس لئے مجرم مذکورہ کو کسی قسم کا ریلیف نہیں ملے گا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم انصاف کی فراہمی کے سلسلے میں اپنے عدالتی نظام میں اسقدر تبدیلی لانے کے قابل ہو گئے ہیں کہ مجرموں کو ہفتہ یا 10دن ٹرائل میں سزائیں سنا سکیں اور بعد ازاں ان پر عملدرآمد بھی یقینی طور پر کروا سکتے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ایسا کم از کم پاکستان کی حد تک تو ممکن نظر نہیں آتا ۔آج بھی طویل عدالتی سسٹم اور قانونی موشگافیوں کی بدولت سینکڑوں بلکہ ہزاروں ،لاکھوں لوگ جن میں خواتین بھی شامل ہیں ،انہی عدالتوں میں دھکے کھانے پر مجبور اور بربادی کی تصویر بنے اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں یا دنیا سے ہی سدھار چکے ہیں ۔۔تھانوں میں درج کرائی جانے والی بیشتر ایف آئی آرزجھوٹ پر مبنی اور پولیس و وکلاء صاحبان کی ملی بھگت کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔یہی جھوٹے مقدمات پولیس اور عدالتی اہلکاروں کی کمائی کا ذریعہ بن جاتے ہیں ۔ عدالتوں میں دھکے کھانے والوں پر جلد ہی بزرگوں کی یہ بات آشکار ہونے لگتی ہے کہ” کچہری کی دیواریں بھی پیسہ مانگتی ہیں ”۔عدالتی سسٹم میں چلنے والی درخواستیں ،حکم نامے اور ہدایات بھی ”چمک ” کے بغیر سفر نہیں کر سکتیں ۔ان تمام کاموں کیلئے ”کچہری مافیا ” اپنے مضبوط پنجے گاڑے ہوئے ہے ۔یہی مافیا ان اہلکاروں کی اوپر کی آمدنی کا ذریعہ اور رازدار ہے ۔روٹین میں کوئی کام کروانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ وکیلوں کے منشی ، عدالتی کارندے اور ٹاؤٹ ان کاموں میں” سہولت کاری” کا فریضہ بخوبی ادا کرتے ہیں ۔کچہری آنے والے سائل کو کوئی ایک بھی فرد معاف کرنے کو تیار نہیں ۔ایسے میں انصاف ،انصاف اور وہ بھی تیز ترین انصاف کی اُمیدیں رکھنا عبث ہے بیشک ! زینب کے قاتل درندے کو چار بار سزائے موت سنا ئی گئی ہے۔
اس فیصلے کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔لیکن ابھی اس کی سزا پر عملدرآمد میں کچھ وقت لگے گا ۔گذشتہ دنوں دنیا پور (لودھراں)میں بھی 6 سالہ عاصمہ کواس کے تایا زاد بھائی حیدر نے زیادتی کے بعد قتل کرکے اس کی لاش اس کے گھر کے قریب ہی واقع جوہڑ میں پھینک دی، عاصمہ 19 فروری کی شام لاپتہ ہوگئی تھی اور 4 روز کے بعد اس کی لاش برآمد ہوئی۔ ڈی پی او امیر تیمور کے مطابق ملزم کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔، ابتدائی تفتیش میں ملزم نے اعتراف جرم کرلیا ہے ،سانحہ قصور کے بعد ملک بھر میں اس قسم کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے عدالتی سسٹم میں موجود خرابیوں کو جلد سے جلد دور کرنے کی تدبیر کی جائے ۔ مجرم عمران کو سرعام پھانسی دے کر” نشانِ عبرت”بنا نے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ عدالتوں میں چلنے والے سالہا سال پرانے کیسوں کے فیصلے جلد از جلد نمٹائے جا سکیں خصوصاً زیادتی اور قتل کے واقعات میں ملوث درندوں کو مختصر وقت میں ٹرائل کے ذریعے سرعام ”نشان عبرت” بنانے کیلئے ضروری اقدامات اٹھانا ہونگے ۔ مجرم عمران کو قصور شہر میں خصوصاًاُس کے محلے اور اُس مقام پر کہ جہاں اُس نے معصوم بچی پر ظلم ڈھائے سرعام الٹا لٹکانا ہوگا اوراس کے بعدبھی ایسے جرائم میں ملوث افراد کے ساتھ یہی سلوک کیا جانا چاہئے۔میڈیا نے جس طرح سانحہ قصور میں متاثرہ بچی کی مسلسل تصویر دکھا کر انصاف کی دہائی دیتا رہا اسی طرح مجرم عمران کو بھی پھانسی دینے کے سارے عمل کو میڈیا پر دکھانے کی اجازت ملنا چاہئے ۔ ہمیں اُمید ہے کہ حکومت پاکستان اس معاملے میں عالمی دباؤمیں نہیں آئے گی ۔ کیونکہ اس وقت بچی کے والدین سمیت ساری قوم مجرم عمران کو سرعام پھانسی پر لٹکادیکھنا چاہتی ہے ۔حکومت کو بچی کے والدین اور عوام کی خواہش کا احترام کرنا ہوگا ۔جب تک درندوں میں سزا کا خوف پیدا نہیں ہوگا ایسے واقعات کی روک تھام مشکل ہے ۔ معاشرتی برائیوں کے تدارک اور انسانی درندوں کو نکیل ڈالنے کیلئے حکومت کو اپنی پالیسی تبدیل کرنا ہو گی عمران کو نشان عبرت بنانے سے ہی معصوم بچی کی روح کو تسکین مل سکے گی۔
Syed Arif Saeed Bukhari
تحریر : سید عارف سعید بخاری Email:arifsaeedbukhari@gmail.com