سچ اور جھوٹ کا نتارا

Justice

Justice

تحریر : طارق حسین بٹ شان
٢١ فروری ٢٠١٨ کا فیصلہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو سدا متازعہ بنا رہے گا کیونکہ اس سے ملک کی سب سے بڑی جماعت سینیٹ الیکشن سے آئوٹ ہو گئی ہے۔یہ فیصلہ ہمیشہ انانیت اور مخاصمانہ طرزِ فکر کا عکاس بنا رہیگا۔ شریف فیملی کو ہر حال میں سخت سے سخت سزا دینا عدلیہ کافرضِ اولین بنا ہوا ہے اور انھیں پاکستان کی سب سے کرپٹ اور بددیانت فیملی ثابت کر کے سیا ست سے بے دخل کرنا چاہتی ہیں ۔احد چیمہ اس کی تازہ مثال ہیں۔کوئی مقدمہ اٹھا کر دیکھ لیجئے شریف فیملی خطا کار اور مجرم بن کر سامنے آ رہی ہے اور فیصلوں سے کئی نئی نظیریں قائم ہو رہی ہیں جبکہ کوئی ٹھوس شہادت ان کے خلاف ابھی تک عدالت کے سامنے پیش نہیں کی جا سکی۔ ابھی تک سب کچھ مفروضوں اور خواہشوں پر قائم ہے ۔عمران خان نے خود تسلیم کیا ہے کہ میاں محمد نواز شریف کے خلاف اقامہ کو بنیاد بنا کر جو فیصلہ ہوا ہے وہ کمزور فیصلہ ہے جس سے شریف فیملی کو سیاسی فائدہ پہنچ رہا ہے۔ان کا اشارہ لودھراں میں اپنی شکست کی جانب تھا۔بہر حال کوششیں جاری ہیں لیکن ایسا مواد ہاتھ نہیں لگ رہا جس سے میاں محمد نواز شریف کو کرپشن کا سزاوار ثابت کیا جاسکے ۔ یہ سچ ہے کہ میاں محمد نواز شریف کوئی فرشتہ نہیں ہیں اور نہ ہی وہ کوئی پاک صاف اور دھلے ہوئے سیاستدان ہیں اورنہ ہی میں ذاتی طور پر ان کیلئے کوئی نرم گوشہ رکھتا ہوں ۔ان کے ماضی کے سیاسی اقدامات پر بہت سے زاویوں سے بحث کی جا سکتی ہے اور انھیں قابل مذ مت قرار دیا جا سکتا ہے ۔پی پی پی کے ساتھ ان کی مخاصمت تاریخ کا حصہ ہے۔پی پی پی کا نام سن کر ان کے خون کے کھولنے کا انداز بھی تاریخ میں محفوظ ہے۔چھانگا مانگا جیسے افعال بھی ان کی ذات سے جڑے ہوئے ہیں۔

ارکانِ اسمبلی کی خریدو فروخت کی سیاست کے بھی وہ موجد ہیں اور جماعت اسلامی کی معیت میں جاگ پنجابی جاگ تیری پگ کولگ گیا داغ جیسی لسانی اور علاقا ئی سوچ کی ترویج کی خاطر وہ نعرہ زن بھی رہے ہیں ۔ان کے کاروبار نے بھی ان کے دورِ حکومت میںناقابلِ یقین حد تک ترقی کی ہے اور انھوں نے کاروبار سے کمائی گئی دولت کوسیاست میں اپنا مقام بنانے کیلئے بے تحاشہ لٹایا بھی ہے(ہر ایک نے ایساکیا ہے ) ہر چیز درست ہے جس سے کسی بھی ذی شعور انسان کوانکار کی مجال نہیں ہے ۔ سچ کو سچ ہی کہنا چائیے کیونکہ اسی سے بات کی اثر آفرینی جنم لیتی ہے۔لیکن کیا کسی نے ایک لمحے کیلئے سوچنے کی زحمت گوارا کی ہے کہ ان سارے اقدامات کے پیچھے کون تھا ؟کون انھیں طاقت فراہم کر رہا تھا ؟پی پی پی دشمنی میں کون آئی جے آئی بنوا رہا تھا ؟ کون انھیں رقم فراہم کر رہا تھا؟ کون انھیں کھڑا ہونے کا حوصلہ دے رہا تھا؟ کون تھا جو بھٹو کے نام سے خوفزدہ تھا اور اس نام کوپاکستان کے درو دیوار سے حرفِ غلط کی طرح مٹانے کیلئے انھیں سا منے لا رہا تھا ؟کیا کوئی انھیں پوچھنے والا ہے؟کوئی ان کا احتساب کرنے والا ہے؟میاں محمد نوا ز شریف تو ایک مہرہ تھے لہذا جب تک وہ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے ان کی عظمتیں آسمان کی وسعتوں کو چھوتی رہیں اور کوئی ان کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ کر سکا ۔لیکن جیسے ہی انھوں نے ان طاقتوں کو اپنی حدود میں رہنے اور آئینی حد بندیوں میں مقید ہونے کا حکم دیا فرشتہ دیکھتے ہی دیکھتے ولن بن گیا اور اس کا وجود پاک دھرتی پر ایک بوجھ تصور ہونے لگا جس سے اسے پاک کیا جانا ضروری ٹھہرا ۔پاکستان میں آئین کے ہر پاسدار کیساتھ ایسا ہی ہواہے۔ بد قسمتی سے یہی پاکستان کی تاریخ ہے۔اب کون اس کا ماتم کرے؟

بہر حال وقت اس بات کا بہتر فیصلہ کریگا کہ ایسا تندو تیز،سخت اور یکطرفہ فیصلہ کیوں صادر کیا گیا؟یہ سچ ہے کہ عدلیہ کو حتمی فیصلے صادر کرنے کا آئینی حق حاصل ہے لیکن یہ بھی تو سچ کہ عدالتوں پر بھی کچھ حدو دو قیود، پابندیاں اور آئینی ذمہ داریاں ہوتی ہیںجن سے وہ باہر نہیں نکل سکتے ۔ آئین کی شق ١٨٤ (٣) کو بنیاد بنا کر عدلیہ کب تک اپنا کھیل کھیلتی رہے گی؟معزز جج صاحبان جب بھی اسٹیبلشمنٹ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں تو ان کے فیصلے مذاق بن جاتے ہیں یہی تاریخ کا اٹل فیصلہ ہے ۔ اہلِ نظر ایسے فیصلوں کو آئینی حدود سے تجاوز سمجھ کر ان پر تنقید کے تیر برسانا شروع کر دیتے ہیں جس سے ان کی ساری چمک دمک ہوا ہو جاتی ہے ۔وہ سیاسی جماعتیں اور گروہ جو ایسے فیصلوں سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہوتے ہیں وہ ا یسے فیصلوں کی عظمت کا ڈھول پیٹ کر اپنا الو سیدھا کر لیتے ہیں لیکن وہ لوگ جن کی نظر قانون اور آئین پر ہوتی ہے ، جو بنیادی حقوق کے چیمپین ہوتے ہیں اور جو سب کو ایک نظر سے دیکھنے کے متمنی ہوتے ہیں وہ ایسے فیصلوں کو تعصب کا شاخسا نہ کہہ کر رد کر دیتے ہیں ۔ فیصلوں پر عملدار آمد تو ہو جاتا ہے لیکن فیصلہ دینے والے خود تنقید کا شکار ہو کر تاریخ کے صفحات میں مقامِ عبرت بن جاتے ہیں۔

فیصلہ دیتے وقت وہ اپنی اتھارٹی کے زعم میں کندھے اچکا کر اور سر اونچا کر کے چلتے ہیں لیکن جب ان کی اتھارٹی ہوا ہو جاتی ہے اور کرسی ان سے چھن جاتی ہے تو پھر انھیں اپنی حیثیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ماضی بعید میں جائیں گئے تو بات لمبی ہو جائیگی لیکن اگر ماضی قریب پر نظر دوڑائیں گے تو چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری کے فیصلے اور ہٹ دھرمیاں بالکل واضح نظر آئیں گی۔انھوں نے اپنی کرسی کی طاقت سے کیا کچھ نہیں کیا تھا اور پی پی پی کے ساتھ مخاصمانہ رویہ اپنا کر اس کی حکومت کو کس طرح بے بس نہیں کیا تھا لیکن آج ان کے فیصلوں پر دادو تحسین کے پھول برسانے والے کتنے لوگ ہیں ؟ سید یوسف رضا گیلانی کا فیصلہ اب انتہائی متنازعہ ہو چکا ہے کیونکہ اس کی حمائت کرنے والے میاں محمد نوا ز شریف آج اس فیصلے کے ناقد بنے ہوئے ہیں جبکہ پی پی پی ، ترقی پسند حلقے اور قانونی ماہرین اسے پہلے ہی رد کر چکے تھے ۔سچ تو یہ ہے کہ فیصلے جب بھی انصاف کی روح سے دور ہو جاتے ہیں ان کی قدر و قیمت گھٹ جاتی ہے اور وہ بے وقعت قرار پاتے ہیں۔

افتخار محمد چوہدری نے اپنی مقبولیت کے زعم میں الگ سیاسی جماعت بھی بنا ڈالی لیکن کیا کسی کو ان کی جماعت کا نام بھی یاد ہے؟ کیا ان کی جماعت کی عوام میں پذیرائی ہے؟ بالکل نہیں ۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ عوام ان کی ذات سے محبت نہیں کرتے اور نہ ہی ان کے فیصلوں کو تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں اگر ایسا ہوتا تو ان کی جماعت دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کے سیاسی افق پر چھا جاتی۔ذولفقار علی بھٹو نے بھی حکومت میں ہوتے ہوئے اپنی شناخت بنائی تھی اور جب اپنی شہرہ آفاق تقریر میں ازلی دشمن بھارت کو للکارا تھا توان کی تقریر کی اثر پذیری کا یہ عالم تھا کہ پورا پاکستان ان کی محبت میں دیوانہ ہو گیا تھا لہذا جیسے ہی انھوں نے اپنی جماعت کی بنیادرکھی تو دیکھے ہی دیکھتے وہ سیاسی منظر نامہ پر چھا گے اور عوام جوق در جوق ان کی جماعت میں شامل ہو گے لیکن ٤ اپریل ١٩٧٩ کو اسی ذولفقار علی بھٹو کہ پھانسی کی سزا سنا کر ان کی زندگی کا چراغ گل کر دیا گیا۔کون تھے جھنوں نے ایسا فیصلہ رقم کیا تھا؟ کون تھے جھنوں نے انصاف کی مسند پر بیٹھ کر انصاف کا خون کیا تھا؟کون تھے جھنوں نے آئین کی بجائے ایک آمر کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا تھا ؟ کون تھے جھنوں نے ذاتی مفادات کا سودا کیا تھا؟ کون تھے جھنوں نے اپنی کرسی بچائی تھی ؟ کون تھے جو قانون کی روح پر لبیک نہ کہہ سکے تھے؟ کون تھے جھنوں نے قوم کے ساتھ بے وفائی کی تھی ؟ کون تھے جھنوں نے آئین سے انحراف کیا تھا؟ کون تھے جھنوں نے سچائی کا گلہ گھونٹا تھا؟کون تھے جھنوں نے ایک نابغہ روزگار قائد کو نا کردہ گناہ پر سزائے موت سنائی تھی؟ وہ اپنی ادائوں پر خود ہی غور کریں تو اچھا ہے کیونکہ ہم کہیں گے تو شکائت ہو گی۔ ذولفقار علی بھٹو عدالت میں چیختا چلاتا رہا لیکن کسی نے ایک نہ سنی،کسی کو آئین نظر نہ آیا کسی کو انصاف دکھائی نہ دیا۔کوئی اس کی بات کو سمجھنے کو تیار نہ ہوا ۔جب تعصب اور عناد دل میں گھر کر جائیں تو ایسے ہی ہوا کرتا ہے ۔ بے گناہ مجرم بن جاتے ہیں اور مجرم قومی ہیرو کا مقام پاتے ہیں ۔ عالمی قائدین اس فیصلے کو معتصبانہ قرار دیتے رہے لیکن فیصلہ کرنے والے اپنی طاقت کے زعم میں اپنی ڈگر پر چلتے رہے ۔ وہ بھول گئے کہ ایک دن ان کا اقتدار اور کرسی ان سے چھن جائیگی اور وہ خود بھی تاریخ کا حصہ بن جائیں گے اور پھر تاریخ اپنا حتمی فیصلہ سنائے گی کہ آئین و قانون کی جنگ میں کون سچا تھا اور کون جھوٹا تھا؟۔

میری ذاتی رائے ہے کہ عدلیہ اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہے لیکن مریم نواز جھنیں مستقبل میں اہم ذمہ داریاں سنبھالنی ہیں ان کا یوں کھلم کھلا تنقید کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔ایک بیٹی ہونے کے ناطے وہ جو کچھ کر رہی ہیں اسے حق بجانب ٹھہرایا جا سکتا ہے لیکن ایک بیٹی سے زیادہ وہ قومی رہنما ہیں اور انھیں اپنے بیانات سے قومی رہنما ہونے کا ثبوت دینا چائیے۔،۔لیکن عدلیہ ان کے خلاف جس طرح مورچہ بند ہے وہ بھی شکوک و شبہات کو ہوا دینے میں ممدو معاون بن رہا ہے ۔میاں محمد نواز شریف کا عدلیہ پر تنقید کرنااور اسٹیبلشمنٹ کو للکارنا سمجھ میں آتا ہے یہ الگ بات کہ پاکستان میں کوئی ایسا فرد ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا جس نے اپنے اقتدار سے فوائد نہ سمیٹے ہوں؟سابق وزیرِ اعظم شوکت عزیز،چوہدری برادران،جنرل پرویز مشرف، جہانگیر ترین، ہمایوں اختر اور کئی دوسرے انسان اقتدار کی بیساکھیوں سے ارب پتی بنے۔

Tariq Hussain Butt Shan

Tariq Hussain Butt Shan

تحریر : طارق حسین بٹ شان
چیرمین مجلسِ قلندرانِ اقبال