تحریر : میر افسرامان مولانا ابو الجلال ندوی صدیقی صاحب کا تعلق شمالی ہند کے صوبہ اُتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے ایک قصبے چریا کوٹ سے ہے۔ مولانا سید سلیمان ندوی صاحب نے اپنی کتاب” حیات شبلی” میں لکھا ہے کہ ابولفضل نے آئین اکبری میں اس قصبے کا ذکر کیا ہے۔عباسی شیوخ جن کو قضا کی خدمت سپرد تھی اس قصبے میں آباد تھے۔ مولاناعنایت رسول صاحب چریا کوٹی میںپیدا ہوئے۔جنہوں نے” نشریٰ” نامی کتاب تالیف کی۔ اس میں رسولۖاللہ کے متعلق، تورات و انجیل میں بیان کردہ پیش گوئیاں جمع کی گیں۔ اس کتاب کو ہندوستان کی عدالت عظمیٰ(supreme court )کے پہلے مسلمان جج سر سلیمان فاروقی صاحب نے ١٩٤٠ء میں طبع کرایا۔سر سید احمد خان صاحب مولانا کے شاگرد تھے۔ ان کے بھائی مولانا فاروق صاحب چریا کوٹی متبحر عالمِ دین تھے۔ علامہ شبلی نعمانی صاحب ان کے شاگرد تھے ۔مہدی حسن عینی قاسمی صاحب کے بقول ،ندوة العلماء لکھنو کی حکمت عملی، قدیم صالح،جدید نافع کے مقولے پر مشتمل تھی۔
ندوةالعلماء لکھنو نے، مولانا سید سلیمان ندوی صاحب،مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی صاحب، مولانا مسعود عالم ندوی، صاحب مولانا ابولحسن علی ندوی صاحب اور مولانا ابو الجلال ندوی صاحب منفرد اصحاب فکر عطا کیے۔ مولانا ابوالجلال ندویٰ کومولانا سید سلیمان ندوی نے دارالمصنفین میں بلایا تھا۔مولانا ١٩٢٣ء سے ١٩٢٨ء تک جہاں رہے۔پھر ١٩٥٨ء میں پاکستان آ گئے۔ان کی زندگی کے حالات، ان کے بھتیجے جناب احمد حاطب احمد صدیقی صاحب نے کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھے،کچھ رشتہ داروں سے سنے اور کچھ مولانا ابوالجلال مرحوم نے خود ان سے بیان کیے۔ مولانا کے حا لات زندگی کے دلچسپ واقعات کو پر، شگفتہ سوانحی خاکہ، کتاب بنام” مولانا ابو الجلال نددی” میں اکٹھا کیا۔ یہ اس عظیم علمی شخصیت پر پہلی کتاب ہے۔ جس کے کچھ حصے ہم قارئین کی نظر کر رہے ہیں۔ قبل اس کے ،کہ ہم اس کتاب میں درج مولانا کی زندگی کے دلچسپ واقعات بیان کریں۔ پہلے احمد حاطب صدیقی صاحب کے متعلق کچھ عرض کریں گے۔ یہ صاحب ایک علمی و ادبی ادارے، دائرہ علم و ادب پاکستان کے صدر ہیں۔ اخبارات رسالوں میں ابونثر کے نام سے اپنے جوہر دکھاتے رہتے ہیں۔ شاعر ہیں۔ نقاد ہیں۔ نثر نگار ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔یہ خصوصی طور پر بچوں کے ادب کے بارے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ ان کو طنزو مزاح پر بھی عبور حاصل ہے۔ ہم اس قابل تو نہیں کہ ان کو طنز مزاح کے بادشاہ اکبرالہ آبادی سے ملا دیں۔ ہاں اتنا معلوم ہے کہ اس بحر میں یہ غوتے لگاتے رہتے ہیں۔ان سے ہمارا تعارف کچھ اس طرح ہوا کہ ان کی کتاب ایک ”جو اکثر یاد آتے ہیں” پر ہم نے تبصرہ لکھا تھا ۔ یہ تبصرہ ملک کی کئی اخبارات میں شائع ہوا۔ ہم نے حسب عادت ان کے پرنٹ نکال کر رکھے تھے۔ہم نے ان کی کتاب کے یہ پرنٹ ان کو بھیجے۔حاطب احمد صدیقی نے جب اپنی اسی کتاب”جو اکثریاد آتے ہیں” کی تقریب رونمائی فاران کلب کراچی میں منعقد کرائی تو ہمیں بھی اس تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ بھیجا تھا۔ اس طرح ان سے تعارف ہوا جو آج تک جاری ہے۔
انہوں نے اپنی نئی کتاب ”مولانا ابو الجلال ندوی” کچھ دن قبل اقادمی ادبیات میں منعقدہ پروگرام ،میری کتب بیتی، میںتبصرے کے لیے دی تھی۔ میں نے اس کتاب کوحرف بحرف مطالعہ کیا۔ مولانا کی علمی زندگی سے واقف ہو کر، میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ مولانا ابو الجلالندوی پر تو کئی کتابیں تصنیف ہونی چاہیے تھیں۔ مولانا کی جلالی طبیعت یا نہ جانے کس وجہ سے یہ کام نہ ہو سکا۔ صرف ان کے کچھ دوستوں نے اپنی رسائل میں ان کا ذکر کیاہے ۔ان کے بھتیجے احمد حاطب نے ان کی علمی خدمات پر پہلی کتاب لکھ کر علمی دوستی کا ثبوت پیش کیا ہے جو قابل فخر ہے۔ اس کتاب کے کچھ مندرجات ہفت روزہ فرائی ڈے اسپیشل کراچی میں شایع ہوتے رہے۔مولانا کو آثار قدیمہ پر خاصی مہارت اوردلچسپی تھی۔مولاناکہتے ہیں انسان نے لکھنے سے پہلے تصویریں بنائیں۔ بعد میں یہ تصویریں حروف اور ہندسوں کی شکل اختیار کر گئیں۔اس بات کی تشریع کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پان کا پتہ عربی اُردو کا پانچ کا ہندسہ بنا۔۔۔ شعبہ تنصیف وتالیف و ترجمعہ ،جامعہ کراچی کے تحقیقی رسالہ” جریدہ” میں سید خالدجامعی صاحب نے اپنے تحقیقی مضمون” ابو الجلال عبدالمغنی ندوی،آثار و افکار” میں رقم طراز ہیں۔مولانا کو کو بچپن سے قدیم سکوں،نقوش،آثار،مہروں سے خصوصی شفف تھا۔ان کا دماغ ہزاروں کتابوں کاحافظ تھا۔
ہندی، عربی، فارسی، سنسکرت،ا نگریزی، سندھی اور دیگر بے شمار مقامی زبانوں پر اُن کی گہری نظر تھی۔بے شمار زبانوںحروف تیجی،نظام صوتیات اور تاریخ سے واقف تھے۔ ان کا علمی خاندان سے تعلق کا ایک واقعہ لکھنا قارئین کے لیے دلچسپی سے خالی نہیںہوگا۔ مصنف لکھتا ہے مولانا کی اپنی بیوی سے لڑائی ہو گئی۔ بیوی نے مولانا کو کہا ”آپ نے تو میری زندگی” مججر” میں ڈال دی ہے۔ یہ لفظ یوپی کی خواتین میں مستعمل تھا۔اب مولانا لڑائی کو بھول کر لفظ ”مججر”کی تحقیق میں پڑھ گئے۔تحقیق سے معلوم ہوا کہ کسی زمانے کے ظالم بادشاہ اگر کسی کو سزا کے طور پر قید کرتے تھے توبادشاہ کسی بڑے چٹان کے اندر سوراخ کروا کر قیدی کے پائوں اس میں پھنسا دیتے تھے۔اس طرح وہ پتھر کا قید ی بن جاتا۔پتھر کے اس قید خانے کو مججر کہا جاتا تھا۔ مولانا مہجوداڑو سے دریافت شدہ مہروں اورکتبوں کے مطالعہ کے لیے بھارت سے پاکستان آئے پھر یہیں کے ہو رہے۔جب یہ کہاجاتاہے کہ موینجوداڑو کی تاریخ نہیں پڑھی جا سکتی۔ تو مولانا کہتے ہیں کہ جان بوجھ کر نہیں پڑھی گئی۔ اس کے ثبوت میں فرماتے ہیں کہ مہنجوداڑو کے نقوش کی زبان سید نا ابراھیم کے دین حنیف کے پیردوں کی زبان تھی۔ عبرانی اور عربی رسم الخط انھی نقوش سے نکلا ہے۔ مولاناکہتے ہیںہنجوداڑو کے نقوش کو محض تعصب کی وجہ سے نہیں پڑھا گیا۔لکھتے ہیں ١٨٥٦ ء اور ١٨٦٠ء کے درمیان برہمن آباد اور ہڑپہ وغیرہ قدیم آثار بر آمند ہوئے تو ” کننگ ھم” نام کے ایک شخص نے ان کو چھپایا۔ ان کو مسلمانوں کے ہاتھ تک نہیں لگنے دیا گیا۔ اس میں وہ مہریں بر آمد ہوئیں جن پر بیل کی تصویر تھیں۔پھر ان کو غائب کر دیا گیا۔ آج پاکستان اور بھارت میں ایک مہر بھی دستیاب نہیں۔ان مہروں کی نقل اور عکس رہ گئے ہیں۔اس سے پہلے عراق میں کھدائی ہوئی تھی ۔وہاں بھی ایسی ہی مہریں بر آمد ہوئی تھیں۔ مولانا نے ثابت کیا کہ مہنجو داڑو سندھ کی اس قدیم تہذیب کا ابراہیم اور بعد کے انبیاء کی امتوں سے گہرا تعلق ہے۔
اس سلسلے میں مولانا کا پہلا مضمون ١٩٥٣ء میں انجمن ترقی اُردو پاکستان کے سہ ماہی رسالے”تاریخ و سیاست” میں شائع ہوا۔بعد میں حکومت پاکستان کے جریدے ماہِ نو میں” سندھ کی مہریں” کے عنوان سے اگست تادسمبر ١٩٥٦ء پانچ قسطیں شائع ہوئیں۔ پھرمارچ تا دسمبر ١٩٥٨ء اسی موضوع پر مختلف عنوانات سے چھ مضمون شائع ہوئے۔ مولانا نے ایک واقعہ بتایا کہ مولاناکو ”دمیری” کی کتاب میں لفظ (اسد) کے ماتحت یہ داستان ملی کہ فقیہہ ابولزناد نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کے فرزند ابو بردہ اشعری کے ہاتھ ایک انگوٹھی دیکھی۔ جس کے نگ پر دوشیروں کے درمیان ایک انسان کی شکل تھی۔یہ انگشتری حضرت عمر کے زمانہ خلافت میں حضرت ابو موسیٰ اشعری کو ایران کی گورنری کے دوران ملی تھی۔ایران میں ایک بھٹی نہر صاف کی جا رہی تھی۔ اس میں حضرت دانیال کی قبر آ گئی۔ یہ انگشتری حضرت دانیال کی قبر کی کھودائی کے دوران ملی تھی ۔ جو بعد میں ابو موسیٰ اشعری کے بیٹے کے پاس آئی۔انگشتری پر دوشیروں کے درمیان ایک مرد کی تصویر تھی۔حضرت دانیال کو بخت نصر نے شیروں کے ناند میں ڈالا تھا۔لیکن شیروں نے ان کو کوئی گزند نہیں پہنچایا۔ کہتے ہیں کہ دوسرے دن کنیمرا میوزیم میں ایک سندھی مُہر پر دو شیروں کے درمیان ایک انسانی پیکر دیکھا۔ اس پر مذید تحقیق کے لیے مولانا پاکستان تشریف لائے اور مہجوداڑو کی مہروں پر کام کیا۔مولانا کو اُن کے اساتذہ بھی لسانانیات میں سند مانتے تھے۔
مولانا خودنے بتایا کے استاد مولانا سید سلیمان ندوی کو کسی لفط کا مآخذ معلوم کرنا ہوتا تو اُن کو طلب فرماتے اور کہتے” اس لفظ کی ٹانگیں توڑ لائو” ۔ایک محفل میں سید سلیمان ندوی اور مولانا حمید الدین فراہی صاحب کا واقعہ بیان کیا۔ سید سلیمان ندوی نے مجھے کہا کہ لفظ صلوٰة کی ٹانگیں توڑ لائو۔میں نے کہا ، اصل معنی”رحمت” کے ہیں۔پھر” رحمت کی دعا” کے ہیں۔پھر ”دعا ”کے ہوئے۔ پھر ”نماز” کے ہوئے۔پھر اس” نماز ”کے ہوئے جو ہم پڑھتے ہیں۔ صلوٰة کا لفظ” درود و سلام” کے لیے بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے اور”نماز جنازہ” کے لیے بھی۔لیکن میری تحقیق کے مطابق اس کا اصل مفہوم” تقرب” ہونا چاہیے، کسی کی ذات سے۔ مگر اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اس پر مولانا حمید الدین فراہی نے کہاکہ ،سورة علق کی آخری آیت دیکھو۔ دیکھنے کے بعدمیں نے کہا ہاں ثبوت مل گیا۔ بل لکل ٹھیک ہو گیا۔مولانا فراہی نے کہا کہ عبرانی جانتے ہو ۔یہ تمھارا خاندانی علم ہے۔ مولانا فراہی کی تحریک پرہی انہوں نے عبرانی پر عبور حاصل کیا۔ اس گفتگو کو تحریر کرنے کا مقصد ابو الجلال ندوی کی علمی خدمات کا ذکر کرنا مقصود ہے۔ باقی انشاء اللہ آئندہ۔