اندھیری رات کا جگنو

Andheri Raat ka Jagnon

Andheri Raat ka Jagnon

تحریر : ڈاکٹر شجاع اختر اعوان
ہم جس دَور سے گزر رہے ہیں یہ دور فکری بحران کا دور ہے۔ نفسا نفسی اور مادہ پرستی کے اس دور میں ہر فرد اجتماعیت کے بجائے اِنفرادیت کو ترجیح دیتا نظر آتا ہے۔ اس دور میں اجتماعی سوچ کے فروغ کی اشد ضرورت ہے قلم کی طاقت کے ذریعے ذہنی آبیاری اور عصری مسائل پر بھر پور آوازیں اُٹھانا معاشرے کی بقا ء کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس پُرفتنہ دور میں بھی قلم قبیلہ کے مسافر اپنے فرائض بخوبی نبھا رہے ہیں اور اپنی تحریروں کے ذریعے نہ صرف جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق بلند کر رہے ہیں بلکہ معاشرے کی فلاح کے لیے گراں قدر خدمات کا باعث بھی ہیں۔

شہزاد حسین بھٹی بھی اس قلم قبیلہ کا ایک فرد ہے جس سے ہماری ملاقات آج سے چوبیس برس قبل مقامی اخبار کے ایک دفتر میں ہوئی شہزاد حسین بھٹی اُس وقت ایک خبر رساں ایجنسی کے لیے علاقائی نمائندے کے فرائض سر انجام دے رہے تھے ۔ دُعا سلام اور تعارف کے بعد یہ سلسلہ دوستی میں بدل گیا جو کہ الحمدا للہ آج تک قائم و دائم ہے ۔ شہزاد حسین بھٹی کی صحافتی زندگی دو دہائیوں سے زائد عرصہ پر مشتمل ہے ۔انہوںنے خبر نگار سے لے کر مدیر تک کی حیثیت میں ملک کے مختلف معروف اُردو اخبارات میں اپنے فرائض منصبی ادا کیئے ۔اعلی تعلیم یافتہ ، لاء اور ماسٹر آف جرنلزم کی ڈگری کے حامل شہزاد حسین بھٹی جس صحافتی ادارہ سے بھی منسلک ہوئے وہاں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔ ان میں یہ خوبی ہے کہ وہ ہمیشہ دوستوں سے رابطے میں رہتے ہیں اور اکثر کہا کرتے ہیں کہ دوستیاں ہمیشہ پرانی ہی اچھی لگتی ہیں۔

چند سال قبل جب شہزاد حسین بھٹی نے کالم نگاری کا باقاعدہ سلسلہ شروع کیا تو جلد ہی کالم نگاری کے میدان میں بھی ایک بلند مقام کو چھو لیا ان کے کالم نہ صرف ملک کی قومی اخبارات بلکہ بیرون ملک اردو سروس اور ویب سائٹس کی زینت بنے کچھ عرصہ انہوں نے انگریزی میں کالم نگاری بھی کی۔ زمانہ طالب علمی کی یادگار ہوسٹل کے کمرہ نمبر109 کے عنوان سے منتخب کالموں کا مجموعہ کتابی شکل میں شائع کیا جسے خوب پذیرائی حاصل ہوئی ۔شہزاد حسین بھٹی نے اپنے کالموں کے ذریعے معاشرے کے مظلوموں ، پسے ہوئے طبقات کی ترجمانی کی اور وقت کے یزیدوں کے گھنائونے چہروں کو بے نقاب کیا ۔ مظلومین و محرومین کی آواز بنے ، سرکاری اداروں میں سرکاری مداخلت ، خواتین کے حقوق ، چائلڈ لیبر ، ملکی نظام تعلیم ، دہشت گردی ، کرپشن کا ناسور ، انتخابی دھاندلی ، نام نہاد جمہوریت ، سیاسی نظام کی خامیاں و خوبیاں، بے روزگاری کا آسیب ، گڈ گورنس ، منشیات کی لعنت الغرض معاشرتی بیماریوں اور مسائل پر انہوں نے خوب جم کر لکھا اور لکھتے چلے گئے۔ ان کی سوچ جنونی اور خوف خدا کے جذبے سے سرشار ہے۔

کمرہ نمبر 109 ان کے جذبات کی ترجمانی ہے جس کے کالموں میں ان کے جذبات بولتے ہیں ان کی دیانتدارانہ سوچ اور ضمیر کی چبھن محسوس ہوتی ہے ان کے کالموں میں بالا دست طبقات، وزیروں ، سیاسی گلو بٹوں ، غاصب جاگیرداروں ، کارخانہ داروں ، لینڈ مافیا ، جابر حکمرانوں، قبضہ گروپوں کی چیرہ دستیوں اور لوٹ مار کے خلاف بھر پور طریقوں سے آواز اٹھا کر صحیح معنوں میں قلم کی حرمت کا حق ادا کیا گیا ہے۔ اور بلاشبہ شہزاد حسین بھٹی کی کتاب کمرہ نمبر 109 نئے لکھاریوں اور کالم نگاروں کے لیے مشعل راہ ہے ان کے کالم ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم کرنے کا درس دیتے ہیں۔ اور نئے لکھاریوں کے لیے ظلم و جبر کے خلاف لکھنے کا حوصلہ پیدا کرنے کا موجب بھی ہیں۔

ان کی سمت کا تعین کرتے ہیں اور ایسا معاشرہ جس میں سچ کہنا اور سچ لکھنا ناقابل معافی جرم بن چکا ہے اور حق و صداقت کے علم بردارقلم کاروں کو حق لکھنے کی پاداش میں مقام عبر ت بنایا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں بے خوف خطر حق بات کہنے اور لکھنے اور حقائق کو سامنے لانے والے لکھاریوں کے لیے شہزاد حسین بھٹی اندھیری رات کے جگنو کا درجہ رکھتے ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ان کو مزید ہمت ، لگن ، شوق اور کامیابیاں و کامرانیاں عطا فرمائیں۔ (آمین)۔

Dr. Shuja Akhtar Awan

Dr. Shuja Akhtar Awan

تحریر : ڈاکٹر شجاع اختر اعوان
0312-2878330
37101-1774390-5