تحریر : شیخ خالد زاہد انسانیت کا ایک بیج تقریباً ۱۴۵۰ برس قبل بویا گیا تھا، یہ بیج ہمارے پیارے نبی محمد مصطفی ﷺ نے بو یا اور خود ہی اسکی آبیاری بھی کی اور کیا خوب آبیاری کی کہ اس بیج کی افزائش آج تک جاری و ساری ہے اور رہتی دنیا تک جاری رہے گی۔ اس بیج نے ایسی جڑ پکڑی کے ساری دنیا کو نا صرف انسانیت کا خوب سبق سیکھایا بلکہ انہیں اس قابل کیا کہ وہ اس سبق کی اہمیت و افادیت خوب سمجھ گئے۔ آج دنیا میں انگنت ادارے انسانوں کو انسانیت کا درس پڑھانے میں مصروف عمل ہیں، لاتعداد ادارے پاکستان جیسے ملک میں بھی اپنی ایسی ہی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔اس کام کیلئے عالمی ادارے جو رقم خرچ کر رہے ہیں اسکا تخمینہ لگانا بھی آسان نہیں ہے۔مگر فکر کی بات یہ ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود انسانیت جیسے آخری ہچکیاں لے رہی ہو۔ اگر یوں سمجھا جائے کہ یہ دنیا کونئی طرز کی انسانیت سیکھانے کی بدولت ہوتا جارہا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔انسانیت کا نیا بیج لگ نہیں رہا نہیں انسانیت پنپنے کو تیار نہیں ہے جس کی وجہ سے جو انسانیت باقی تھی وہ بھی چھپتی پھررہی ہے کہ اسکی عزت کو بھی پامال نا کردیا جائے۔انسانیت کے بیج کی بوائی کیلئے ساری زمینیں بنجر ہوچکی ہیں۔اب یہ بنجر زمینیں ہی تو ہیں جہاں فصل تو اگتی ہے مگر غذائیت سے خالی ہے جو جسموں کی بھوک مٹانے کیلئے تو کارآمد ہے مگر روح کی غذا پوری کرنے سے قاصر ہے۔
زمین کے بنجر ہونے کی وجہ سے اگنے والی اجناس میں کسی قسم کی نا تو غذائیت باقی بچی ہے اور نا ہی جسم کو توانا اور طاقتور بنانے کی صلاحیت موجود ہے، بس کسان حل جوتتا جا رہا ہے اور فصلیں اگتی جارہی ہیں اور ہم سب پیٹ کو ایندھن فراہم کئے جا رہے ہیں اور منافع خور اپنا منافع بنائے جا رہے ہیں سب کچھ بس چلے جا رہا ہے کیوں اور کیسے یہ ہمارے سوچنے اور سمجھنے کا کام ہی نہیں ہے۔ قدرت نے اپنی رعنائی سجائی ہوئی ہے اور اپنی کبرایائی کے کرشمے بکھیرتی جا رہی ہے ۔ مشرف نامی ایک شخص جس کا پان سگریٹ کا ایک سڑک کنارے کھوکھا ہے کل میرے پاس آیا اور اچانک سے ایک سوال داغ دیا کہ یہ ملک شام میں کیا ہو رہا ہے اسکے لحجے میں اور اسکے چہرے پر دکھ کے آثار بہت واضح تھے۔ سچ بتاؤں تو میرے لئے اس کی یہ بات اتنی اہم نہیں تھی کیونکہ میرے سامنے بیٹھے ایک شخص نے (جن کے توسط سے وہ وہاں موجود تھا)بہت مضحکہ خیز انداز میں کہنے لگے یہ تو انہی (یعنی مجھ سے) سے پوچھویہی کچھ بتا سکینگے۔ مشرف کا دکھ اسکے لہجے میں آچکا تھا اور اب غصے کی صورت اختیار کر رہا تھا جس کی وضاحت اس نے ، سامنے والے صاحب کو جواب میں جب یہ کہا کہ یہ کوئی مذاق نہیں ہے جس پر ہنسا یا مسکرایا جائے یہ ایک انتہائی دکھ اور غم کا مقام ہے ، آخر کون ہے جو ان شامی مسلمانوں پر شب خون مار رہا ہے اور ہماری نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔
مشرف نے اپنے غم و غصے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ابھی ہم نے ایک انتہائی درد ناک وڈیو سماجی میڈیا پر دیکھی ہے جس میں شام پر بھرپور بمباری شہری علاقوں پر کی جارہی ہے اور وہاں کہ بچ جانے والے رہائشی اپنے عزیز و عقارب کے لاشے اور زخمی جسموں کو لے کر ادھر سے ادھر بھاگتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ مشرف یہ کہہ کر وہا ں سے چلا گیا اور کچھ لمحوں کیلئے اس جگہ کو سوگوار کر گیا۔روزانہ شام کے معصوم بچوں کی روتی بلکتی خون آلود تصویریں نظروں کے سامنے گھوم رہی ہیں۔ مگر بے روح جسم لئے ہم لوگ اپنے انگھوٹے کی مدد سے آگے بڑھتے جا رہے ہیں، ہم مردہ جسموں والے ، ہم مردہ پرست لوگ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ مشرف کی آنکھوں نے جو کچھ دیکھا ہے وہ مجھ سمیت کڑوڑوں لوگوں نے دیکھا ہوگااور دیکھتے جا رہے ہونگے۔ لیکن کیا ہوا ہے کہ کچھ بھی ٹھیک ہوتا محسوس نہیں ہورہا اور شام پر ہونے والے مظالم میں کسی لمحے کمی نہیں آ رہی۔
گزشتہ کچھ دنوں سے ہمارے میڈیا پر جو رونق لگی ہوئی ہے وہاں اول نمبر پر سیاسی اکھاڑ پچھاڑ ہے کوئی نااہل ہو رہا اور نااہل ہونے کا ڈنکا بجائے جا رہا ہے ، سارا میڈیا اسی بات کو لیکر جیسے محصور ہوا ہے، پھر پڑوسی ملک جس کی فوجیں روزانہ ہماری سرحدوں پرسرحدی خلاف ورزی کی مثالیں رقم کرتے ہوئے ہمارے معصوم دیہاتی اور فوجی جوانوں کو اپنی گولیوں کانشانہ بنارہی ہے ، اس ملک کی ایک اداکارہ کی موت پر سارا میڈیا سوگوار ہوگیا ساری قوم سوگوار ہوگئی اسکی موت کی لمحہ لمحہ خبریں شائع ہونے لگیں اب یہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہے کہ موت طبعی ہے یا پھر قتل ہے یا پھر خود کشی ہے ، اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم کا سب سے بڑا شوق (ہم بھی اسکا حصہ ہیں)کرکٹ ، جی دبئی و شارجہ میں منعقد کیا جانے والا پاکستان کرکٹ بورڈ کا سب سے بڑا کارنامہ PSL چل رہا ہے ۔ ساری کی ساری قوم اس کرکٹ کے میلے میں ایسی مگن ہوئی ہے کہ کچھ اور شائد دیکھائی نہیں دے رہا۔ کل سے پھر ہندو برادری کا ہولی کا تہوار چل رہا ہے اور پوری پاکستانی قوم بغیر کسی تکلف کے ہولی کی مبارکباد دے کر اپنے آپ کو کیا ثابت کرنے کی ناکام کوشش کررہا ہے یہ ہم سب خوب سمجھ سکتے ہیں۔ ہم یہ کیوں بھول گئے ہیں کہ ہم کچھ بھی کرلیں جو داغ ہمارے دامن پر لگ چکے ہیں اب ان سے جان چھڑانا مشکل ہی نہیں کسی حد تک ناممکن ہوتا جا رہا ہے ۔ یہ کوئی مایوسی کی بات نہیں ہے یہ ہمارے لئے سوچ کا مقام ہے ہم روز بروز اس بات پر پکے ہوتے دیکھائی دے رہے ہیں جس میں کبوتر اپنی آنکھیں بند کر کے یہ سمجھتا ہے کہ بلی ہمیں نہیں دیکھ رہی ۔ بلی بہت اچھی طرح سے دیکھ رہی ہے۔
مشرف جیسے لوگ شائد بہت سارے ہوں مگر یہ وہ لوگ ہیں جو شام تک چار پیسے نہیں کمائینگے تو انکے گھروں میں چولا نہیں جلے گا اس لئے انکا غم شام سے کہیں زیادہ ہے ۔ باقی وہ لوگ ہیں جو شغل میلے میں الجھے ہوئے ہیں اور جو سماجی میڈیا پر پسند اور آگے بڑھاکر سمجھ رہے ہیں کہ انکی ذمہ داری پوری ہوگئی ہے یہ لوگ عملی زندگی میں اپنے برتاؤ سے یہ ثابت کرتے محسوس ہوتے ہیں کہ شام میں ہونے والے مظالم سے ہمیں کیا لینا۔ سماجی میڈیا زینب کے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے ، مشال خان کے معاملے میں ایک لمحے کیلئے پیچھے نہیں ہٹتا ، انتظار حسین کو بھی انصاف دلانا چاہتا ہے مگر کیا یہ سماجی میڈیا امت پر آنے والے کڑے وقت سے نمٹنے کیلئے ایک آواز کیوں نہیں ہوسکتا۔ جس طرف دیکھتا ہوں مجھے کیوں لگتا ہے کہ ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ ہمیں شام سے کیا لینا دینا ہے۔ انسانیت کے علم برداروں کو سوچنا اور سمجھ لینا چاہئے کہ انسانیت کا بیج اسلام ہے اور جس فصل کو وہ لگا رہے ہیں وہ کبھی بھی پنپنے والی نہیں ہے، اس سے صرف اور صرف بربادی ہی پیدا ہو گی۔