تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری افغانستان کے صدر اشرف غنی نے طالبان کی سیاسی قوت کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں مذاکرات کرنے اور کابل میں پارٹی دفتر کھولنے کے لیے کہا ہے طالبان راہنمائوں پر ہمہ قسم پابندیاں ختم کرنے ،ان کے اہل خانہ کو ویزہ کی سہولتیں مہیا کرنے اور قیدیوں کی رہائی کی بھی پیشکش کی گئی ہے مزید یہ کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ استوار کیا جائے گا کابل میں منعقدہ دوسری امن کانفرنس میں پاکستان ،اقوام متحدہ نیٹو سمیت پچیس ممالک شریک ہوئے طالبان نے پہلے ہی امریکہ سے براہ راست مذاکرات کرنے کا عندیہ دیا تھا تاکہ سولہ سال سے جاری جنگ کا حل نکالا جاسکے راقم بھی چند روز قبل “امریکیو!مذاکرات اور صرف مذاکرات “کے نام سے کالم تحریر کرچکا ہے جس میں جنگ و جدل کاآخری واحد حل مذاکرات ہی بتایا تھا ٹرمپ کی افغانستان کی قیمتی معدنیات پر قابض ہوجانے کی خواہشات غالب نہ آجاتیں تو سابق امریکی صدر کی پالیسی کے مطابق امریکی افواج افغانستان سے کبھی کی جاچکی ہوتیں اور پاکستان اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے انہیں محفوظ راستہ دلوا چکا ہوتا جب جمیعت اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کوافغانستان میں سیاست کرنے کی اجازت دی گئی تھی تو پھر طالبان کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرنے میں کوئی امر مانع نہ رہ جاتا ہے امریکیوں کے موجودہ تعینات کردہ افغانی حکمرانو ں اور طالبان کے مابین کشمکش تو گلبدین بھی ختم کرواسکتے ہیں مگر امریکیوں کو پاکستان کی موجودگی میں طالبان سے خود مذاکرات کرنا ہوں گے کہ اب گیند ان کی کورٹ میں ہے طالبان افغانستان کے 75فیصد علاقوں پر قابض ہو چکے حتیٰ کہ نیٹو افواج کی دفاعی تنصیبات اور خود کابل بھی ان کی پہنچ سے باہر نہ ہے۔
طالبان بخوبی سمجھ چکے کہ پاکستانی مسلمانوں کاامریکی حملوں اور ان پر زہریلی گیسیں برسانے کے عمل میں قطعاً کوئی کردار نہ تھا بلکہ یہ تو ڈکٹیٹر مشرف نے ایک ہی فون کال پر امریکہ کو پاکستانی اڈے مہیا کرڈالے تھے اور اس کا مشور ہ تک بھی کسی ساتھی جرنیل یا منتخب ممبران اسمبلی سے قطعاً نہ کیا تھااگر پاکستان میں اس وقت آمریت کی جگہ جمہوری حکومت ہوتی تو ایسی اجازت دینے سے قبل اس پر سینکڑوں مرتبہ بحث و تمحیض کی جاتی اور کسی سامراجی قوت کو تو ہمسایہ ملک پر آگ کے شعلے بھڑکانے اور لاکھوں کو شہید کرڈالنے کی قطعاً اجازت نہ ملتی ایران کب کا امریکی دھمکیوں کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے اور ہزاروں “بڑھکوں”کے باجود ایران کا پرِ کاہ کے برابر نقصان امریکہ نہ کرسکا ہے کہ ایرانی قوم اپنی قیادت کے پیچھے متحد و متفق کھڑی ہے ۔پاکستانی بھی اگر فرقوں مسلکوں لسانی علاقائی اور برادری کے بتوںکو پاش پاش کرکے متحد ہو جائیں تو کوئی ا ن کا بھی بال بیکا نہیں کرسکے گا اولین ترجیح نوجوان نسل کی اعلیٰ فوجی تربیت ہونی چاہیے تاکہ بزدل ہندو بنیوں کی “مرمت ” روزانہ کی بنیاد پر کی جا تی رہے تا آنکہ وہ گھروں میں ہی “دھرنہ “دینے پر مجبور نہ ہو جائیں پرامن افغانستان ہی پاکستان کی اولین ترجیح ہے تاکہ وہاں “بھارتی سورما”بھی مزید پرورش پاکر سرحد پار پہنچ کر پاکستانیوں پر بزدلانہ دہشت گردانہ حملوں سے باز رہ سکیں۔
افغانی طالبان جنہوں نے 16سالہ جنگ میں لاکھوں افراد کی قربانی دی ہے وہ اصل قوت امریکنوں سے تو مذاکرات کرنے کو تیار ہیں جس کا وہ خود بھی اظہار کرچکے ہیں مگر شاید موجودہ امریکی امداد پر چلنے والی افغانی حکومت سے بات چیت کرنا تک بھی پسند نہ کریں امریکہ طالبان سمیت دیگر تمام متحارب قوتیں مجھ ناچیز کی یہ بات پکی پلے باندھ لیں کہ16سال میں طالبان شکست نہیں کھا سکے تو آئندہ بھی ایسا ممکن نہیں ہندو بنیے تو وہاں بیٹھے صرف ” بندر تماشہ”دیکھ رہے ہیں ۔جب بھی نیٹو افواج نے واپسی کا رخت سفر باندھا تو وہ خونخوار بھوکی بلیوں کی طرح کھانے پینے کا سامان لوٹنے حتیٰ کہ امریکنوں کے حربی ہتھیار تک بھی ہتھیانے سے باز نہ رہ سکیں گے کہ ان لالچ سے بھرے بنیوں کی بس اتنی سی ہی اوقات ہے کہ “فکر ہر کس بقدر ہمت اوست ” صرف پاکستان ہی باوقار طریقوں سے اصل متحارب قوتوں طالبان اور امریکنوں میں مذاکرات کرواسکتا ہے اور گلبدین کو بطور میڈئیٹر(Mediator) مقرر کرکے عام انتخابات کروا کر افغانستان میں صحیح جمہوری حکومت بھی قائم کرنے میں ممد و معاون ہو سکتا ہے کہ اسلام تو جنگ وجدل کا نہیں بلکہ امن کا علم بردار مذہب ہے۔
جب کہ ہندو بنیے مال متال کے لالچی اور مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں کہ انہیں پورے بھارت میں مسلمانوں کا آٹھ سو سالہ اقتدار ایک پل بھی چین نہیں لینے دیتا بنگلہ دیش بنانے میں انہوں نے جس مذموم کردار کا مظاہرہ کیا وہ خود ہی اسے تسلیم بھی کرچکے ہیں مگر اب ایٹمی پاکستان سے ان کے”پنگے لینے “اور لالچی مکار لومڑی کا کردار اور مذموم حرکتیں ان کا وجود تک دنیا سے مٹا ڈالیں گی امریکہ نے مودی کی یاری میں پیرس میں منعقدہ حالیہ کانفرنس کے ذریعے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کروانے کے لیے بھرپور کوششیں کیں اور پھر جون تک کا التوأ صرف اور صرف پاکستان کے ذریعے طالبان سے مذاکرات کرنے اور اپنی شکست خوردہ خودکشیاں کرتی افواج کو وہاں سے باحفاظت واپس لے جانے کے لیے ہے جو کہ پاکستان بطور اہم فریق اسلامی عقائد کا پیرو کار ہوتے ہوئے بخوبی پایہ تکمیل تک پہنچا سکتاہے جس نے دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ میں بطور امریکی اتحادی 70000سے زائد سویلین وپاک فوج اور پولیس کے جوانوں کی قربانیاں دی ہیں۔