تحریر : محمد صادق سینٹ کے معنی سینئر کے ہیں۔ یہ حرف Senate قدیم رومن سے لیا گیا ہے۔ اس کا معنی بوڑھا آدمی کے بھی ہیں۔ دنیا بھر میں حکومتی زبان میں اس کے معنی Assembly of Elders یعنی سینئر لوگوں کی اسمبلی کے ہیں۔ ایک ایسی اسمبلی جس میں ملک بھر سے ایسے افراد کو مختلف طریقہ کار سے منتخب کیا جاتا ہے، جو مختلف شعبہ جات میں ماہر ہوتے ہیں۔ان افراد کو عوام اور اداروں کی طرف سے یہ ذمہ داری دی جاتی ہے کہ وہ اس ملک کی ترقی اور آنے والی نسلوں کی بہتری کیلئے ایسے قوانین واضح کریں جو اس ملک کو دنیا کی رفتار کے ساتھ چلنے میں مدد دیں۔
پاکستان میں سینٹ اسمبلی کیلئے قانون 1973ء میں بنایا گیا اس وقت ممبران کی تعداد45 مقرر کی گئی جو بعد میں اضافہ ہوتے ہوئے اب 104 ہے۔ سینٹ کیلئے ممبران کا انتخاب 6 سال کیلئے کیا جاتا ہے۔ سینٹ میں مختلف امور کو سر انجام دینے کیلئے 52 کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔ پاکستان میں سینٹ کو ایوان بالا کا رتبہ دیا جاتا ہے ۔ سینٹ میں اب تک کون کون سے قوانین بنائے گئے اور ان قوانین سے عوام اور ملک کی ترقی میں کیا مدد ملی ، یہ ایک نہ صرف بحث طلب موضوع بلکہ اس پر کئی سوالیہ نشان ہیں۔
پاکستان میں الیکشن کا نظام شروع سے ہی متنازعہ رہا ہے ۔سینٹ کا الیکشن ہو یاقومی اسمبلی کا ، یہاں تک کہ بلدیاتی الیکشن بھی امیدوار کی قابلیت پر نہیں بلکہ برادری ازم ، ووٹر کی خریداری اور دھاندلی کے ذریعے ہی جیتے جاتے ہیں۔ اس فیلڈ میں منتخب امیدواروں کی خریداری کا سر عام رواج کا کریڈیٹ میاں نواز شریف کو جاتا ہے ۔ جنہوں نے چھانگا مانگا کے جنگل سے اس کا باقاعدہ آغاز کیا۔ جس کا انکشاف ڈاکٹر طاہرالقادری نے کئی بار اس چیلنج کے ساتھ کیا کہ اگر میں غلط کہہ رہا ہوں تو شریف برادران خود اس کی تردید کریں جو وہ کبھی نہیں کریں گے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ میرا یہ دعوی 100فیصد درست ہے۔ مگر شاہد ڈاکٹر طاہرالقادری جانتے نہیں کہ شریف برادران ایسی باتوں کا جواب دینا اس لیے ضروری نہیں سمجھتے کہ جب عوام خاموش ہے ، سیاسی جماعتیں خاموش ہیں اور سب سے بڑھ کر جب قانون خاموش ہے تو وہ کیوں ایسے انکشافات سے ڈریں۔
ووٹر اور امیدواروں کو خرید کر سیاست کرنے کے عمل کو میڈیا اور سیاسی حلقوں میں اب چھانگا مانگا کی سیاست کے لقب سے ہی یاد کیا جاتا ہے۔ اور یہ عمل کسی ایک جماعت تک محدود نہ رہا بلکہ ملک کے سب سے بڑے ایوان سینٹ سے لے کر گلی محلہ کی سیاست میں ایسی منڈی لگی ہوئی نظر آتی ہیں۔
علاقائی سیاست سے لے کر قومی سطح تک الیکشن ایک کاروبار بن کر رہ گیا ہے ۔ اس کاروبار میں عوام بھی بھر پور دلچسپی کے ساتھ نہ صرف حصہ لیتی ہے بلکہ اس میں حسب تو فیق انوسٹ بھی کرتی ہے ۔ سینٹ کے حالیہ الیکشن میں کروڑوں اربوں روپے سے امیدواروں کی خریدنے کی باتیں بھی ہوئیں ۔ لیکن الیکشن کمیشن کی طرف سے کوئی ایکشن نظر نہیں آیا۔
سینٹ کی اسمبلی کے پاس جو ذمہ داریاں ہیں اس کے مطابق سینٹ کے امیدوار کا اس کے مطابق اہل ہونا بھی بہت ضروری ہے ۔ سینٹ کیلئے صرف صوبائی سطح پر امیدواروں کی تعداد متعین نہیں کرنی چاہیے بلکہ مختلف فیلڈ کو سامنے رکھتے ہوئے امیدوار کا تعین کرنا چاہیے تاکہ ہر شعبہ ہائے زندگی سے اس فیلڈ کے ماہرین اور تجربہ کار لوگ اس ایوان بالا میں پہنچ سکیں ۔ عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے ، ان کے مسائل کے حل کرنے کے ساتھ ساتھ ملکِ پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے قانون سازی کرنے والے سینٹ اور قومی اسمبلی کے ایوانوں میں قابل، اہل اور باصلاحیت افراد کی موجودگی کیلئے سیاست کو کاروبار سے الگ کرنا ہو گا۔ تو ہی پاکستان حقیقی معنوں میں علامہ اقبالؒ اور قائد اعظم ؒ کااسلامی جمہوریہ پاکستان بن سکے گا۔